الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
جنازے کے مسائل
जनाज़े के नियम
1. (أحاديث في الجنائز)
1. (جنازے کے متعلق احادیث)
१. “ जनाज़े के बारे में हदीसें ”
حدیث نمبر: 463
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن ام عطية رضي الله عنها قالت: نهينا عن اتباع الجنائز ولم يعزم علينا. متفق عليه.وعن أم عطية رضي الله عنها قالت: نهينا عن اتباع الجنائز ولم يعزم علينا. متفق عليه.
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں جنازوں میں شرکت سے منع کر دیا گیا مگر یہ ممانعت ہم پر لازمی قرار نہیں دی گئی۔ (بخاری و مسلم)
हज़रत उम्म अत्या रज़ियल्लाहु अन्हा से रिवायत है कि हमें जनाज़ों में जाने से मना कर दिया गया मगर ये रोक हम पर सख़्ती से नहीं लगाई गई । (बुख़ारी और मुस्लिम)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجنازة، باب اتباع النساء الجنازة، حديث:1278، ومسلم، الجنائز، باب نهي النساء عن اتباع الجنائز، حديث:938.»

Umm ‘Atiyah (RAA) narrated, ‘We were forbidden to accompany funeral processions, but this prohibition was not mandatory for us.’ Agreed upon.
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح

   صحيح البخاري1278نسيبة بنت كعبإتباع الجنائز ولم يعزم علينا
   سنن أبي داود3167نسيبة بنت كعبنتبع الجنائز ولم يعزم علينا
   سنن ابن ماجه1577نسيبة بنت كعباتباع الجنائز ولم يعزم علينا
   بلوغ المرام463نسيبة بنت كعبنهينا عن اتباع الجنائز ولم يعزم علينا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1577  
´عورتوں کے جنازے کے ساتھ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم عورتوں کو جنازے کے ساتھ جانے سے منع کر دیا گیا، لیکن ہمیں تاکیدی طور پر نہیں روکا گیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1577]
اردو حاشہ:
فائدہ:
پختہ حکم کامطلب حرمت کی صراحت ہے۔
یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے منع تو فرمایا لیکن زیادہ سختی سے نہیں۔
گویا حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کے مطابق جنازے کے ساتھ عورتوں کا جانا حرام نہیں مکروہ ہے۔
اور مکروہ سے اجتناب ہی افضل ہوتا ہے۔
نماز جنازہ میں عورتوں کا شریک ہونا جائز ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی۔
تو نبی اکرمﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پیغام بھیجا کہ جنازہ مسجد میں لایا جائے۔
تاکہ وہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوسکیں۔
چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
جنازہ امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجروں کے پاس رکھا گیا تا کہ وہ جنازہ پڑھ لیں۔
پھر اسے مقاعد کی طرف باب الجنائز سے (نکال کر قبرستان میں)
لے جایا گیا۔ (بعد میں)
انھیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں ن اس عمل پر تنقید کی ہے۔
اور کہا کہ (رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں)
جنازہ مسجد میں نہیں لے جایا جاتا تھا۔
حضرت عائشہ کو یہ بات معلوم ہوتی تو فرمایا لوگوں کو جس بات کا علم نہیں ہوتا اس پر کتنی جلدی تنقید کرنے لگتے ہیں۔
ہم پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ جنازہ مسجد میں لے جایاگیا۔
حالانکہ رسول اللہﷺ نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاجنازہ مسجد ہی کے اندر ادا کیا تھا۔ (صحیح مسلم، الجنائز، باب الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد، حدیث: 973)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1577   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 463  
´خواتین کی جنازوں میں شرکت کا بیان`
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں جنازوں میں شرکت سے منع کر دیا گیا مگر یہ ممانعت ہم پر لازمی قرار نہیں دی گئی۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 463]
لغوی تشریح:
«نُهِينَا» صیغہ مجہول۔
«لَمْ يُعْزَم» صیغہ مجہول، یعنی یہ ممانعت ہمارے لیے لازمی قرار نہیں دی گئی۔ یہ نہی کراہت و ناپسندیدگی کے لیے ہے۔ شاید انہوں نے قرائن سے ممانعت و نہی کو کراہت پر محمول کیا ہے ورنہ درحقیقت نہی کو تحریم پر محمول کیا جاتا ہے اور نہی میں اصل بھی یہی ہے۔

فوائد و مسائل:
یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن مرفوع کے حکم میں ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا۔ [صحيح البخاري، الحيض، حديث: 313]
➋ اس حدیث سے خواتین کی جنازوں میں شرکت ممنوع معلوم ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ پہلے خواتین کو جنازوں میں شریک ہونے اور قبرستان میں جانے سے منع فرما دیا گیا ہو کیونکہ ان میں بےصبری زیادہ ہوتی ہے مگر جب ان میں اسلامی شعور کافی حد تک بیدار ہو گیا تو جس طرح آپ نے قبرستان جانے کی اجازت دے دی اسی طرح جنازے میں شرکت کی بھی اجازت دے دی ہو، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم نے پیغام بھیجا کہ جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئیں، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ جنازہ امہات المؤمنین کے حجروں کے پاس رکھا گیا تھا تاکہ وہ جنازہ پڑھ لیں، پھر اسے مقاعد کی طرف باب الجنائز سے نکال کر قبرستان میں لے جایا گیا۔ (بعد میں) انہیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے اس عمل پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جنازہ مسجد میں نہیں لے جایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا: لوگوں کو جس بات کا علم نہیں ہوتا، اس پر کتنی جلدی تنقید کرنے لگتے ہیں، ہم پر تنقید کرتے ہیں کہ جنازہ مسجد میں لے جایا گیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء کا جنازہ مسجد ہی کے اندر ادا کیا تھا۔ [صحيح مسلم، الجنائز، باب الصلاة عني الجنازة فى المسجد، حديث: 973]
➌ اس حدیث سے درج ذیل دو مسئلے ثابت ہوئے:
ایک تو یہ کہ عورت بھی نماز جنازہ بھی شرکت کرسکتی ہے،
اور دوسرا یہ کہ مسجد کے اندر بھی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 463   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3167  
´عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانا۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہمیں جنازہ کے پیچھے پیچھے جانے سے روکا گیا ہے لیکن (روکنے میں) ہم پر سختی نہیں برتی گئی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3167]
فوائد ومسائل:
بہتر یہی ہے کہ عورتیں جنازے کے ساتھ نہ جایئں۔
اگر جایئں تو آداب شرعیہ کا لحاظ رکھنا واجب ہے، یعنی بے حجابی نہ ہو۔
بے صبری نہ ہو۔
اور رونا پیٹنا بھی نہ ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3167   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.