الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
92. بَابُ : مَا اسْتُثْنِيَ
92. باب: مذکورہ بالا حکم سے مستثنیٰ کتے کا بیان۔
Chapter: Exceptions from that
حدیث نمبر: 4672
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن الحسن , قال: انبانا حجاج بن محمد , عن حماد بن سلمة , عن ابي الزبير , عن جابر بن عبد الله , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نهى عن ثمن الكلب والسنور , إلا كلب صيد" , قال ابو عبد الرحمن: هذا منكر.
(مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ , قَالَ: أَنْبَأَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ , إِلَّا كَلْبِ صَيْدٍ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا مُنْكَرٌ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے، اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا سوائے شکاری کتے کے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4300 (صحیح) (لیکن ’’إلا کلب صید‘‘ کا جملہ صحیح نہیں ہے، اور یہ جملہ صحیح مسلم میں بھی نہیں ہے)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ ثقہ راویوں کی روایت میں «إلا کلب صید» کا ذکر نہیں ہے، اس کے رواۃ حجاج مختلط، اور ابوالزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، تقدم (4300) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 355

   صحيح مسلم4015جابر بن عبد اللهثمن الكلب والسنور
   سنن أبي داود3479جابر بن عبد اللهثمن الكلب والسنور
   سنن النسائى الصغرى4672جابر بن عبد اللهنهى عن ثمن الكلب السنور إلا كلب صيد
   بلوغ المرام656جابر بن عبد اللهزجر النبي صلى الله عليه وآله وسلم عن ذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4672  
´مذکورہ بالا حکم سے مستثنیٰ کتے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے، اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا سوائے شکاری کتے کے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4672]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ حدیث منکر ہے، یعنی صحیح احادیث کے خلاف ہے، نیز اس کے راوی بھی ضعیف ہیں۔ سنن ترمذی میں بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسی مفہوم کی حدیث آتی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔ محدثین نے اس استثنا کو صحیح قرار نہیں دیا۔ ویسے بھی اگر یہ استثنا رکھ لیا جائے تو کتے کی قیمت کی حرمت ختم ہو جائے گی کیونکہ ہر کتا شکاری بن سکتا ہے۔ گویا اس استثنا کو تسلیم کرنے سے اصل حکم بالکلیہ ختم ہو جائے گا، لہٰذا یہ استثنا عقلاً بھی صحیح نہیں۔ تفصیلی بحث پیچھے حدیث نمبر 4297 میں گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4672   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 656  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا ابو الزبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بلی اور کتے کی قیمت کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں زجر و توبیخ فرمائی ہے۔ (مسلم و نسائی) اور نسائی میں اتنا اضافہ ہے کہ شکاری کتے کے علاوہ۔ «بلوغ المرام/حدیث: 656»
تخریج:
«أخرجه مسلم، المساقاة، باب تحريم ثمن الكلب، حديث:1569، وهو حديث صحيح، وحديث: "إلا كلب صيد" أخرجه النسائي، البيوع، حديث:4672 وسنده ضعيف، أبوالزبيرعنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ حدیث سے ثابت ہوا کہ بلی کی خرید و فروخت حرام ہے جبکہ جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ اس کی خرید و فروخت جائز ہے اور ان کے نزدیک اس حدیث میں جونہی ہے اس سے کراہت تنزیہی مراد ہے اور اس کی خرید و فروخت مکارم اخلاق اور مروت میں سے بھی نہیں۔
2. یہ بات بھی مخفی نہیں کہ یہاں نہی کو اس کے حقیقی معنی سے خارج کرنا بغیر کسی قرینہ صارفہ کے ہے (جو کہ درست نہیں) جیسا کہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔
3.شکاری کتے کے استثنا کا جو اضافہ ہے تو اس کے متعلق امام نسائی نے کہا ہے کہ یہ منکر ہے۔
اور امام ابن حبان نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس لفظ سے باطل ہے‘ اس کی کوئی اصل نہیں۔
یہ بات‘ صاحب سبل السلام کی ہے۔
4. شکاری کتے کے استثنا کی بابت مزید دیکھیے: حدیث نمبر: ۶۵۱ کے فوائد و مسائل۔
راوئ حدیث: «ابوزبیر رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ محمد بن مسلم بن تدرس الأسدي المکي رحمہ اللہ۔
یہ حکیم بن حزام کے غلام تھے اور تابعی تھے۔
ان کے ثقہ ہونے اور ان کی روایت کے حجت ہونے پر سبھی کا اتفاق ہے۔
۱۲۸ ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 656   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.