الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
45. باب غَزْوَةِ ذِي قَرَدٍ وَغَيْرِهَا:
45. باب: ذی قرد وغیرہ لڑائیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 4677
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا حاتم يعني ابن إسماعيل ، عن يزيد بن ابي عبيد ، قال: سمعت سلمة بن الاكوع ، يقول: " خرجت قبل ان يؤذن بالاولى وكانت لقاح رسول الله صلى الله عليه وسلم ترعى بذي قرد، قال: فلقيني غلام لعبد الرحمن بن عوف، فقال: اخذت لقاح رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: من اخذها؟، قال غطفان، قال: فصرخت ثلاث صرخات، يا صباحاه، قال: فاسمعت ما بين لابتي المدينة، ثم اندفعت على وجهي حتى ادركتهم بذي قرد، وقد اخذوا يسقون من الماء، فجعلت ارميهم بنبلي وكنت راميا، واقول: انا ابن الاكوع واليوم يوم الرضع، فارتجز حتى استنقذت اللقاح منهم واستلبت منهم ثلاثين بردة، قال: وجاء النبي صلى الله عليه وسلم والناس، فقلت: يا نبي الله، إني قد حميت القوم الماء وهم عطاش، فابعث إليهم الساعة، فقال: يا ابن الاكوع: ملكت فاسجح، قال: ثم رجعنا ويردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم على ناقته حتى دخلنا المدينة ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ ، يَقُولُ: " خَرَجْتُ قَبْلَ أَنْ يُؤَذَّنَ بِالْأُولَى وَكَانَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْعَى بِذِي قَرَدٍ، قَالَ: فَلَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَقَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَنْ أَخَذَهَا؟، قَالَ غَطَفَانُ، قَالَ: فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ، يَا صَبَاحَاهْ، قَالَ: فَأَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ انْدَفَعْتُ عَلَى وَجْهِي حَتَّى أَدْرَكْتُهُمْ بِذِي قَرَدٍ، وَقَدْ أَخَذُوا يَسْقُونَ مِنَ الْمَاءِ، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ بِنَبْلِي وَكُنْتُ رَامِيًا، وَأَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ، فَأَرْتَجِزُ حَتَّى اسْتَنْقَذْتُ اللِّقَاحَ مِنْهُمْ وَاسْتَلَبْتُ مِنْهُمْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً، قَالَ: وَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ حَمَيْتُ الْقَوْمَ الْمَاءَ وَهُمْ عِطَاشٌ، فَابْعَثْ إِلَيْهِمُ السَّاعَةَ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ: مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعْنَا وَيُرْدِفُنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَتِهِ حَتَّى دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ ".
4677. یزید بن عبید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ کو کہتے ہوئے سنا: میں (دن کی) پہلی نماز (فجر) کی اذان سے قبل (مدینہ کی آبادی سے) نکلا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں ذی قرد (کے مقام) پر چرتی تھیں۔ مجھے عبدالرحمان بن عوف کا غلام ملا تو اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ والی اونٹنیاں پکڑ لی گئی ہیں۔ میں نے پوچھا: کس نے پکڑی ہیں؟ اس نے کہا: (بند) غطفان نے۔ کہا: میں نے بلند آواز سےیا صباحاہ (ہائے صبح کا حملہ) کہہ کر تین بار آواز دی اور مدینہ کے دونوں طرف کی سیاہ پتھروں والی زمین کے درمیان (مدینہ) کے سبھی لوگوں کو ینا دی، پھر میں نے سر پٹ دوڑ لگا دی حتی کہ ذی قرد کے مقام پر انہیں جا لیا۔ انہوں نے واقعی (اونٹنیاں) پکڑی ہوئی تھیں، وہ پانی پلا رہے تھے تو میں انہیں اپنے تیروں سے نشانہ بنانے لگا، میں ایک ماہر تیر انداز تھا اور میں کہہ رہا تھا: میں اکوع کا بیٹا ہوں، آج ماؤں کا دودھ پینے والوں کا دن ہے۔ میں رجزیہ اشعار کہتا رہا (اور تیر چلاتا رہا) حتی کہ میں نے ان سے اونٹنیاں چھڑا لیں اور ان سے ان کی تیس چادریں بھی چھیں لیں، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگ پہنچ گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے لوگوں کو پانے پینے سے روک دیا تھا اور (اب بھی) وہ پیاسے ہیں، آپ ابھی ان کے تعاقب میں دستہ بھیج دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن اکوع! تم غالب آ گئے ہو،(اب) نرمی سے کام لو۔ کہا: پھر ہم واپس ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار کر لیا، یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ابھی صبح کی اذان نہیں ہوئی تھی، میں نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں ذی قرد مقام پر چرتی تھیں، مجھے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کا غلام ملا اور اس نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں پکڑی گئی ہیں، تو میں نے پوچھا، انہیں کس نے پکڑا ہے؟ اس نے کہا، غطفان نے، تو میں نے تین دفعہ چلا کر کہا، مدد کے لیے پہنچو، (ہائے صبح کا حملہ) اس طرح میں نے اپنی آواز تمام اہل مدینہ کو سنا دی (جو دو حروں کے درمیان واقع ہے) پھر میں سرپٹ دوڑا، حتیٰ کہ میں نے انہیں ذو قرد مقام پر جا لیا اور وہ وہاں پانی پی رہے تھے، میں ان پر اپنے تیر پھینکنے لگا اور میں خوب تیر انداز تھا اور میں کہہ رہا تھا، میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج پتہ چلے گا، کون جنگ کا ماہر ہے، یا کس نے شریف ماں کا دودھ پیا ہے، یا کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے، میں رجز کہہ رہا تھا۔ حتیٰ کہ میں نے ان سے تمام اونٹنیاں چھڑوا لیں اور ان سے تیس (30) چادریں چھین لیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگ بھی پہنچ گئے، تو میں نے کہا، اے اللہ کے نبیصلی اللہ علیہ وسلم! میں نے ان کو پانی پینے سے ہٹا دیا ہے اور وہ پیاسے ہیں، ابھی ان کے تعاقب میں دستہ روانہ فرمائیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اکوع کے بیٹے! تم قابو پا گئے، تو اب ذرا نرمی برتو۔ پھر ہم واپس آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی اونٹنی پر پیچھے بٹھا لیا، حتیٰ کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1806

   صحيح البخاري3041سلمة بن عمروويحك ما بك قال أخذت لقاح النبي قلت من أخذها قال غطفان وفزارة فصرخت ثلاث صرخات أسمعت ما بين لابتيها يا صباحاه يا صباحاه ثم اندفعت حتى ألقاهم وقد أخذوها فجعلت أرميهم وأقول أنا ابن الأكوع واليوم يوم الرضع فاستنقذتها منهم قبل أن يشربوا فأقبلت بها أسوقها فلقين
   صحيح البخاري4194سلمة بن عمرولقاح رسول الله ترعى بذي قرد فلقيني غلام لعبد الرحمن بن عوف فقال أخذت لقاح رسول الله قلت من أخذها قال غطفان يا نبي الله قد حميت القوم الماء وهم عطاش فابعث إليهم الساعة فقال يا ابن الأكوع ملكت فأسجح قال ثم رجعنا ويردفني رسول الله على ناقته حتى دخلنا المدينة
   صحيح مسلم4677سلمة بن عمروملكت فأسجح

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4677  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مفردات الحدیث:
:
(1)
قَبْلَ أَنْ يُؤَذَّنَ بِالْأُولَي:
ابھی صبح کی اذان نہیں ہوئی تھی۔
(2)
لِقَاحُ:
لقحة کی جمع ہے،
دودھ دینے والی اونٹنیاں،
جن کی تعداد بیس تھی،
حضرت ابوذر کا بیٹا اور اس کی بیوی ان کے نگران تھے،
يَا صَبَاحَاهْ:
حملہ عام طور پر صبح کے وقت ہوتا تھا،
اس لیے لوگوں کو اس سے آگاہ کرنے کے لیے یہ کلمہ استعمال ہوتا تھا،
تاکہ وہ مقابلہ کے لیے تیار ہو جائیں۔
(3)
انْدَفَعْتُ عَلَى وَجْهِي:
ادھر ادھر دیکھے بغیر سیدھا سرپٹ دوڑا۔
(4)
الْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ:
دونوں پر رفع یا پہلے پر نصب اور دوسرے پر رفع ہے)
رضع،
راضع کی جمع ہے،
کمینے کو کہتے ہیں،
اس لیے مراد ہے،
آج کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے اور بقول بعض آج پتہ چلے گا،
کس نے شریف ماں کا دودھ پیا ہے اور کس کی ماں کمینی تھی،
یا آج پتہ چلے گا،
کس نے بچپن سے ہی لڑائیوں میں زندگی گزاری ہے اور ان میں مہارت حاصل کی ہے۔
(5)
حَمَيْتُ الْقَوْمَ الْمَاءَ:
لوگوں کو میں نے پانی سے منع کر رکھا ہے،
فاسجح:
نرمی اور سہولت اختیار کر۔
فوائد ومسائل:
یہ غزوہ جنگ خیبر سے صرف تین دن پہلے پیش آیا،
تفصیل کے لیے الرحیق المختوم دیکھئے،
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4677   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.