الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
48. باب النِّسَاءُ الْغَازِيَاتُ يُرْضَخُ لَهُنَّ وَلاَ يُسْهَمُ وَالنَّهْيُ عَنْ قَتْلِ صِبْيَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ:
48. باب: جو عورتیں جہاد میں شریک ہوں ان کو انعام ملے گا اور حصہ نہیں ملے گا اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4686
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن إسماعيل بن امية ، عن سعيد المقبري ، عن يزيد بن هرمز ، قال: " كتب نجدة بن عامر الحروري إلى ابن عباس " يساله عن العبد والمراة يحضران المغنم، هل يقسم لهما؟، وعن قتل الولدان، وعن اليتيم متى ينقطع عنه اليتم؟، وعن ذوي القربى من هم؟، فقال ليزيد: اكتب إليه فلولا ان يقع في احموقة، ما كتبت إليه، اكتب إنك كتبت تسالني عن المراة والعبد يحضران المغنم هل يقسم لهما شيء؟، وإنه ليس لهما شيء إلا ان يحذيا، وكتبت تسالني عن قتل الولدان وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يقتلهم وانت فلا تقتلهم، إلا ان تعلم منهم ما علم صاحب موسى من الغلام الذي قتله، وكتبت تسالني عن اليتيم متى ينقطع عنه اسم اليتم؟، وإنه لا ينقطع عنه اسم اليتم حتى يبلغ ويؤنس منه رشد، وكتبت تسالني عن ذوي القربى من هم؟، وإنا زعمنا انا هم، فابى ذلك علينا قومنا "،وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: " كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ " يَسْأَلُهُ عَنِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَةِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ، هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا؟، وَعَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ، وَعَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ؟، وَعَنْ ذَوِي الْقُرْبَى مَنْ هُمْ؟، فَقَالَ لِيَزِيدَ: اكْتُبْ إِلَيْهِ فَلَوْلَا أَنْ يَقَعَ فِي أُحْمُوقَةٍ، مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ، اكْتُبْ إِنَّكَ كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا شَيْءٌ؟، وَإِنَّهُ لَيْسَ لَهُمَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْتُلْهُمْ وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْهُمْ، إِلَّا أَنْ تَعْلَمَ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ صَاحِبُ مُوسَى مِنَ الْغُلَامِ الَّذِي قَتَلَهُ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ؟، وَإِنَّهُ لَا يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ حَتَّى يَبْلُغَ وَيُؤْنَسَ مِنْهُ رُشْدٌ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ ذَوِي الْقُرْبَى مَنْ هُمْ؟، وَإِنَّا زَعَمْنَا أَنَّا هُمْ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا "،
ہمیں ابن ابی عمر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے اسماعیل بن امیہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید مقبری سے اور انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی، انہوں نے کہا: نجدہ بن عامر حروری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا، وہ ان سے اس غلام اور عورت کے بارے میں پوچھ رہا تھا جو جنگ میں شریک ہوتے ہیں، کیا وہ غنیمت کی تقسیم میں (بھی) شریک ہوں گے؟ اور بچوں کے قتل کرنے کے بارے میں (پوچھا) اور یتیم کے بارے میں کہ اس سے یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور ذوی القربیٰ کے بارے میں کہ وہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے یزید سے کہا: اس کی طرف لکھو اور اگر ڈر نہ ہوتا کہ وہ کسی حماقت میں پڑ جائے گا تو میں اس کی طرف جواب نہ لکھتا، (اسے) لکھو: تم نے مجھے اس عورت اور غلام کے بارے دریافت کرنے کے لیے خط لکھا تھا جو جنگ میں شریک ہوتے ہیں: کیا وہ غنیمت کی تقسیم میں شریک ہوں گے؟" حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کے لیے کچھ نہیں ہے، الا یہ کہ انہیں کچھ عطیہ دے دیا جائے اور تم نے مجھ سے بچوں کو قتل کرنے کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا، بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل نہیں کیا اور تم بھی انہیں قتل مت کرو، الا یہ کہ تمہیں ان بچوں کے بارے میں وہ بات معلوم ہو جائے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی (خضر) کو اس بچے کے بارے میں معلوم ہو گئی جسے انہوں نے قتل کیا تھا۔ اور تم نے مجھ سے یتیم کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا کہ اس سے یتیم کا لقب کب ختم ہو گا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ اس سے یتیم کا لقب ختم نہیں ہوتا حتی کہ وہ بالغ ہو جائے اور اس کی بلوغت (سمجھداری کی عمر کو پہنچنے) کے بارے پتہ چلنے لگے۔ اور تم نے مجھ سے ذوی القربیٰ کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا کہ وہ کون ہیں؟ ہمارا خیال تھا کہ وہ ہم لوگ ہی ہیں۔ تو ہماری قوم نے ہماری یہ بات ماننے سے انکار کر دیا
یزید بن ہرمز بیان کرتے ہیں، کہ نجدہ بن عامر حروری نے، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو لکھ کر اس غلام اور اس عورت کے بارے میں پوچھا، جو جنگ میں شریک ہوتے ہیں، کیا ان کو حصہ دیا جائے گا؟ اور بچوں کے قتل کا کیا حکم ہے؟ اور یتیم کی یتیمی کب ختم ہو گی؟ اور ذو القربی سے مراد کون ہے؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے یزید کو کہا، اسے خط لکھو اور اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ وہ حماقت میں مبتلا ہو جائے گا، تو میں اسے خط کا جواب نہ دیتا، لکھو! تو نے مجھ سے یہ لکھ کر پوچھا ہے کہ عورت اور غلام، غنیمت کی تقسیم کے وقت موجود ہیں، کیا انہیں بھی کچھ دیا جائے گا؟ اور واقعہ یہ ہے، ان کے لیے غنیمت میں کوئی حصہ نہیں ہے، ہاں انہیں کچھ عطیہ دیا جا سکتا ہے اور تو نے مجھ سے بچوں کے قتل کے بارے میں پوچھا ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل نہیں کیا، اس لیے تو بھی انہیں قتل نہ کر، الا یہ کہ تو ان کے بارے میں جان لے، جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی (خضر) نے اس بچے کے بارے میں جان لیا تھا، جسے اس نے قتل کیا تھا۔ اور تو نے مجھ سے یتیم کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اس سے یتیم کا نام کب ختم ہو گا؟ اور صورت حال یہ ہے اس سے یتیم کا نام ختم نہیں ہو گا حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائے اور اس سے رشد (سوجھ بوجھ، سلیقہ) معلوم ہو جائے اور تو نے لکھ کر ذوالقربیٰ کے بارے میں پوچھا، وہ کون ہیں؟ اور ہمارا نظریہ یہ ہے کہ وہ ہم ہیں، لیکن ہماری قوم نے ہماری بات کو تسلیم نہیں کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1812


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.