وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن إسماعيل بن امية ، عن سعيد المقبري ، عن يزيد بن هرمز ، قال: " كتب نجدة بن عامر الحروري إلى ابن عباس " يساله عن العبد والمراة يحضران المغنم، هل يقسم لهما؟، وعن قتل الولدان، وعن اليتيم متى ينقطع عنه اليتم؟، وعن ذوي القربى من هم؟، فقال ليزيد: اكتب إليه فلولا ان يقع في احموقة، ما كتبت إليه، اكتب إنك كتبت تسالني عن المراة والعبد يحضران المغنم هل يقسم لهما شيء؟، وإنه ليس لهما شيء إلا ان يحذيا، وكتبت تسالني عن قتل الولدان وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يقتلهم وانت فلا تقتلهم، إلا ان تعلم منهم ما علم صاحب موسى من الغلام الذي قتله، وكتبت تسالني عن اليتيم متى ينقطع عنه اسم اليتم؟، وإنه لا ينقطع عنه اسم اليتم حتى يبلغ ويؤنس منه رشد، وكتبت تسالني عن ذوي القربى من هم؟، وإنا زعمنا انا هم، فابى ذلك علينا قومنا "،وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: " كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ " يَسْأَلُهُ عَنِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَةِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ، هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا؟، وَعَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ، وَعَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ؟، وَعَنْ ذَوِي الْقُرْبَى مَنْ هُمْ؟، فَقَالَ لِيَزِيدَ: اكْتُبْ إِلَيْهِ فَلَوْلَا أَنْ يَقَعَ فِي أُحْمُوقَةٍ، مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ، اكْتُبْ إِنَّكَ كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا شَيْءٌ؟، وَإِنَّهُ لَيْسَ لَهُمَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْتُلْهُمْ وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْهُمْ، إِلَّا أَنْ تَعْلَمَ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ صَاحِبُ مُوسَى مِنَ الْغُلَامِ الَّذِي قَتَلَهُ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ؟، وَإِنَّهُ لَا يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ حَتَّى يَبْلُغَ وَيُؤْنَسَ مِنْهُ رُشْدٌ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ ذَوِي الْقُرْبَى مَنْ هُمْ؟، وَإِنَّا زَعَمْنَا أَنَّا هُمْ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا "،
یزید بن ہرمز سے روایت ہے، نجدہ بن عامر حروری نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا، پوچھتا تھا ان سے کہ غلام اور عورت اگر جہاد میں شریک ہوں تو ان کو حصہ ملے گا یا نہیں اور بچوں کا قتل کیسا ہے اور بچوں کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور «ذوالقربيٰ»(جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے کہ پانچویں حصہ میں سے ان کو دیا جائے گا) کون ہیں؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یزید سے کہا تو لکھ جواب اس کو اور اگر وہ حماقت میں پڑنے والا نہ ہوتا تو میں اس کو نہ لکھتا (یعنی مجھ کو اس بات کا خیال ہے کہ اگر میں ان مسئلوں کا جواب اس کو نہ دوں تو وہ شرع کے خلاف حماقت کی بات نہ کر بیٹھے) لکھ یہ کہ تو نے مجھ کو لکھ کر پوچھا: عورت اور غلام کو حصہ ملے گا یا نہیں، جب وہ جہاد میں شریک ہوں؟ تو ان کو حصہ نہیں ملے گا البتہ انعام مل سکتا ہے (جتنا امام مناسب جانے۔ شافی رحمہ اللہ اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور جمہور علماء کا یہی قول ہے اور مالک رحمہ اللہ کے نزدیک غلام کو انعام بھی نہ ملے گا جیسے عورت کو، اور حسن اور ابن سیرین اور نخعی اور حکم رحمتہ اللہ علیہم کے نزدیک اگر غلام لڑے تو اس کو بھی حصہ دیں گے) اور تو نے لکھ کر پوچھا مجھ سے بچوں کے قتل کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو قتل نہیں کیا اور تو بھی مت کر مگر تجھے ایسا علم ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ (خضر علیہ السلام) کو تھا۔ اور تو نے لکھ کر پوچھا یتیم کو کہ اس کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے تو یتیم کا نام اس سے نہ جائے گا جب تک بالغ نہ ہو اور اس کو عقل نہ آئے۔ اور تو نے لکھ کر پوچھا ذوالقربیٰ کو۔ یہ ہم لوگ ہیں ہماری سمجھ میں پر ہماری قوم نے نہ مانا۔