الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
5. بَابُ : الْقَوَدِ
5. باب: قصاص کا بیان۔
Chapter: Retaliation
حدیث نمبر: 4727
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا إسحاق، عن عوف الاعرابي، عن علقمة بن وائل الحضرمي، عن ابيه، قال: جيء بالقاتل الذي قتل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء به ولي المقتول، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتعفو؟"، قال: لا، قال:" اتقتل؟"، قال: نعم، قال:" اذهب"، فلما ذهب دعاه، قال:" اتعفو؟"، قال: لا، قال:" اتاخذ الدية؟"، قال: لا، قال:" اتقتل؟"، قال: نعم، قال:" اذهب" , فلما ذهب، قال:" اما إنك إن عفوت عنه فإنه يبوء بإثمك وإثم صاحبك"، فعفا عنه فارسله، قال: فرايته يجر نسعته.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق، عَنْ عَوْفٍ الْأَعْرَابِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جِيءَ بِالْقَاتِلِ الَّذِي قَتَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ بِهِ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَعْفُو؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" أَتَقْتُلُ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" اذْهَبْ"، فَلَمَّا ذَهَبَ دَعَاهُ، قَالَ:" أَتَعْفُو؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" أَتَقْتُلُ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" اذْهَبْ" , فَلَمَّا ذَهَبَ، قَالَ:" أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ"، فَعَفَا عَنْهُ فَأَرْسَلَهُ، قَالَ: فَرَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ.
وائل حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس قاتل کو جس نے قتل کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، اسے مقتول کا ولی پکڑ کر لایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم معاف کرو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: کیا قتل کرو گے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: جاؤ (قتل کرو)، جب وہ (قتل کرنے) چلا تو آپ نے اسے بلا کر کہا: کیا تم معاف کرو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: کیا دیت لو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: تو کیا قتل کرو گے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: جاؤ (قتل کرو)، جب وہ (قتل کرنے) چلا، تو آپ نے فرمایا: اگر تم اسے معاف کر دو تو تمہارا گناہ اور تمہارے (مقتول) آدمی کا گناہ اسی پر ہو گا ۱؎، چنانچہ اس نے اسے معاف کر دیا اور اسے چھوڑ دیا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹتا جا رہا تھا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القسامة 10 (الحدود10) (1680)، سنن ابی داود/الدیات 3 (4499، 4500، 4501)، (تحفة الأشراف: 11769)، سنن الدارمی/الدیات 8 (2404) وأعادہ المؤلف في القضاء 26 (برقم5417)، وانظرالأرقام التالیة: 4728-4733 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ بلا کچھ لیے دئیے ولی کے معاف کر دینے کی صورت میں ولی اور مقتول دونوں کے گناہ کا حامل قاتل ہو گا، لیکن اس میں اشکال ہے کہ ولی کے گناہ کا حامل کیونکر ہو گا، اس لیے حدیث کے اس ظاہری مفہوم کی توجیہ کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ولی کے معاف کر دینے کے سبب رب العالمین ولی اور مقتول دونوں کو مغفرت سے نوازے گا اور قاتل اس حال میں لوٹے گا کہ مغفرت کے سبب ان دونوں کے گناہ زائل ہو چکے ہوں گے۔ ۲؎: یہ وہی آدمی ہے جس کا تذکرہ پچھلی حدیث میں گزرا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح مسلم4387وائل بن حجرجاء رجل يقود آخر بنسعة فقال يا رسول الله هذا قتل أخي فقال رسول الله أقتلته فقال إنه لو لم يعترف أقمت عليه البينة قال نعم قتلته قال كيف قتلته قال كنت أنا وهو نختبط من شجرة فسبني فأغضبني فضربته بالفأس على قرنه فقتلته فقال له الن
   سنن أبي داود4499وائل بن حجرأتعفو قال لا قال أفتأخذ الدية قال لا قال أفتقتل قال نعم قال اذهب به فلما ولى قال أتعفو قال لا قال أفتأخذ الدية قال لا قال أفتقتل قال نعم قال اذهب به فلما كان في الرابعة قال أما إنك إن عفوت عنه يبوء بإثمه وإثم صاحبه قال فعفا عنه
   سنن النسائى الصغرى4727وائل بن حجرأما إنك إن عفوت عنه فإنه يبوء بإثمك وإثم صاحبك فعفا عنه فأرسله قال فرأيته يجر نسعته
   سنن النسائى الصغرى4728وائل بن حجرأما إنك إن عفوت عنه يبوء بإثمه وإثم صاحبك فعفا عنه وتركه فأنا رأيته يجر نسعته
   سنن النسائى الصغرى4730وائل بن حجراذهب إن قتلته كنت مثله فخرج به حتى جاوز فناديناه أما تسمع ما يقول رسول الله فرجع فقال إن قتلته كنت مثله قال نعم أعف فخرج يجر نسعة حتى خفي علينا
   سنن النسائى الصغرى5417وائل بن حجرأما إنك إن عفوت عنه يبوء بإثمه وإثم صاحبك فعفا عنه وتركه فأنا رأيته يجر نسعته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4727  
´قصاص کا بیان۔`
وائل حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس قاتل کو جس نے قتل کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، اسے مقتول کا ولی پکڑ کر لایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم معاف کرو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: کیا قتل کرو گے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: جاؤ (قتل کرو)، جب وہ (قتل کرنے) چلا تو آپ نے اسے بلا کر کہا: کیا تم معاف کرو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: کیا دیت لو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4727]
اردو حاشہ:
(1) جج اور حاکم کے لیے مشروع اور جائز ہے کہ وہ مقتول کے ورثاء کو، معاف کرنے کی ترغیب دیں، لیکن انھیں بذات خود کسی مجرم اور قاتل کو معاف کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر حاکم وقت یا فیصلہ کرنے والا جج از خود کسی قاتل کو، جرم ثابت ہونے کے باوجود معاف کرے گا تو یہ صریح ظلم اور عدل وانصاف کا خون کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہمارے ہاں جو یہ رائج ہے کہ تمام قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مجرموں کو معاف کرنے کا اختیار جناب صدر کے پاس ہے، یہ قطعاً غلط اور ناجائز ہے۔
(2) مجرم کو باندھنا جائز ہے بالخصوص جب اس کے فرار ہونے اور بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔
(3) تیرے اور مقتول کے گناہ یعنی اس معافی کے بدلے میں تیرے اور مقتول کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور تم دونوں جنتی بن جاؤ گے۔ مقتول اس لیے کہ وہ ظلماً مارا گیا اور مقتول کا ولی اس لیے کہ اس نے قاتل کی جان بخش دی۔ گویا ایک شخص کو زندگی دی۔ اور یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ قاتل کو دوگناہ ہوں گے۔ مقتول کو قتل کرنے کا اور تجھے (مقتول کے اولیاء کو) صدمہ اور نقصان پہنچانے کا، لیکن پہلے معنیٰ زیادہ صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ واللہ أعلم!
(4) مقتول کے ورثاء کو تین باتوں میں سے صرف ایک کا اختیار ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قاتل کو معاف کر دیں، یہ سب سے بہتر، افضل اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اگر معاف نہیں کرتے تو پھر دیت، یعنی خون بہا لے لیں اور اسے چھوڑ دیں۔ یہ بھی بہتر ہے لیکن پہلے سے کم درجے کی نیکی ہے۔ اور تیسری اور آخری صورت قصاص میں قتل کرنا ہے۔ اس سے جس قدر بچ جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اگر پہلی دونوں باتوں پر وہ آمادہ نہ ہوں تو پھر قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا اور بس۔
(5) رسول اللہ ﷺ کا مقتول کے وارث کو بار بار معاف کرنے کی تلقین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ معافی پسندیدہ اور محبوب عمل ہے، نیز رسول اللہ ﷺ کے بار بار معافی کا شوق دلانے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں معاف کر دینا قصاص لینے سے بہتر ہے۔ اور مقتول کے اولیاء کو معافی کی رغبت دلانی چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4727   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4499  
´امام (حاکم) خون معاف کر دینے کا حکم دے تو کیسا ہے؟`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک قاتل لایا گیا، اس کی گردن میں تسمہ تھا آپ نے مقتول کے وارث کو بلوایا، اور اس سے پوچھا: کیا تم معاف کرو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا دیت لو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا تم قتل کرو گے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا لے جاؤ اسے چنانچہ جب وہ (اسے لے کر) چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تم اسے معاف کرو گے؟ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4499]
فوائد ومسائل:
1: اگر مجرم کے بھاگ جانے کا اندیشہ ہو تو اس کو باندھنا جائز ہے۔

2: مقتول کے ولی کو تین باتوں میں سے صرف ایک اختیار ہے کہ معاف کردے یا دیت قبول کرلے قصاص لے۔

3: حاکم اور قاضی کو جائز ہے کہ معاف کرنھ کی ترغیب دے۔

4: اگر قاتل قصاص میں قتل کیا جائے تو امید ہے کہ یہ اس کے لئے کفارہ بن جائے گا، بصورت دیگر اس کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4499   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.