الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
6. بَابُ : ذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ فِيهِ
6. باب: اس سلسلہ میں علقمہ بن وائل کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 4730
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور، قال: حدثنا حفص بن عمر وهو الحوضي، قال: حدثنا جامع بن مطر، عن علقمة بن وائل، عن ابيه، قال: كنت قاعدا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم , جاء رجل في عنقه نسعة، فقال: يا رسول الله، إن هذا واخي كانا في جب يحفرانها , فرفع المنقار فضرب به راس صاحبه فقتله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اعف عنه"، فابى وقال: يا نبي الله , إن هذا واخي كانا في جب يحفرانها فرفع المنقار فضرب به راس صاحبه فقتله، فقال:" اعف عنه"، فابى، ثم قام , فقال: يا رسول الله، إن هذا واخي كانا في جب يحفرانها فرفع المنقار اراه، قال: فضرب راس صاحبه فقتله، فقال:" اعف عنه"، فابى، قال:" اذهب , إن قتلته كنت مثله"، فخرج به حتى جاوز، فناديناه اما تسمع ما يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فرجع، فقال: إن قتلته كنت مثله، قال: نعم، اعف , فخرج يجر نسعة حتى خفي علينا.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ وَهُوَ الْحَوْضِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , جَاءَ رَجُلٌ فِي عُنُقِهِ نِسْعَةٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا , فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ فَضَرَبَ بِهِ رَأْسَ صَاحِبِهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اعْفُ عَنْهُ"، فَأَبَى وَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ فَضَرَبَ بِهِ رَأْسَ صَاحِبِهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ:" اعْفُ عَنْهُ"، فَأَبَى، ثُمَّ قَامَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ أُرَاهُ، قَالَ: فَضَرَبَ رَأْسَ صَاحِبِهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ:" اعْفُ عَنْهُ"، فَأَبَى، قَالَ:" اذْهَبْ , إِنْ قَتَلْتَهُ كُنْتَ مِثْلَهُ"، فَخَرَجَ بِهِ حَتَّى جَاوَزَ، فَنَادَيْنَاهُ أَمَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَرَجَعَ، فَقَالَ: إِنْ قَتَلْتُهُ كُنْتُ مِثْلَهُ، قَالَ: نَعَمْ، أَعْفُ , فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَةٌ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا.
وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا، اس کی گردن میں رسی پڑی تھی، اور بولا: اللہ کے رسول! یہ اور میرا بھائی دونوں ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، اتنے میں اس نے کدال اٹھائی اور اپنے ساتھی یعنی میرے بھائی کے سر پر ماری، جس سے وہ مر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے معاف کر دو، اس نے انکار کیا، اور کہا: اللہ کے نبی! یہ اور میرا بھائی ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، پھر اس نے کدال اٹھائی، اور اپنے ساتھی کے سر پر ماری، جس سے وہ مر گیا، آپ نے فرمایا: اسے معاف کر دو، تو اس نے انکار کیا، پھر وہ کھڑا ہوا اور بولا: اللہ کے رسول! یہ اور میرا بھائی ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، اس نے کدال اٹھائی، اور اپنے ساتھی کے سر پر ماری، جس سے وہ مر گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے معاف کر دو، اس نے انکار کیا، آپ نے فرمایا: جاؤ، اگر تم نے اسے قتل کیا تو تم بھی اسی جیسے ہو گے ۱؎، وہ اسے لے کر نکل گیا، جب دور نکل گیا تو ہم نے اسے پکارا، کیا تم نہیں سن رہے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ وہ واپس آیا تو آپ نے فرمایا: اگر تم نے اسے قتل کیا تو تم بھی اسی جیسے ہو گے، اس نے کہا: ہاں، میں اسے معاف کرتا ہوں، چنانچہ وہ نکلا، وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا تھا یہاں تک کہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4827 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: کسی جان کو مارنے میں تم اور وہ ایک ہی طرح ہو گے، تمہاری اس پر کوئی فضیلت باقی نہیں رہ جائے گی، اور اگر معاف کر دو گے تو فضل و احسان میں تم کو اس پر فضیلت حاصل ہو جائے گی، خاص طور پر جب اس نے یہ قتل جان بوجھ کر نہیں کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   صحيح مسلم4387وائل بن حجرجاء رجل يقود آخر بنسعة فقال يا رسول الله هذا قتل أخي فقال رسول الله أقتلته فقال إنه لو لم يعترف أقمت عليه البينة قال نعم قتلته قال كيف قتلته قال كنت أنا وهو نختبط من شجرة فسبني فأغضبني فضربته بالفأس على قرنه فقتلته فقال له الن
   سنن أبي داود4499وائل بن حجرأتعفو قال لا قال أفتأخذ الدية قال لا قال أفتقتل قال نعم قال اذهب به فلما ولى قال أتعفو قال لا قال أفتأخذ الدية قال لا قال أفتقتل قال نعم قال اذهب به فلما كان في الرابعة قال أما إنك إن عفوت عنه يبوء بإثمه وإثم صاحبه قال فعفا عنه
   سنن النسائى الصغرى4727وائل بن حجرأما إنك إن عفوت عنه فإنه يبوء بإثمك وإثم صاحبك فعفا عنه فأرسله قال فرأيته يجر نسعته
   سنن النسائى الصغرى4728وائل بن حجرأما إنك إن عفوت عنه يبوء بإثمه وإثم صاحبك فعفا عنه وتركه فأنا رأيته يجر نسعته
   سنن النسائى الصغرى4730وائل بن حجراذهب إن قتلته كنت مثله فخرج به حتى جاوز فناديناه أما تسمع ما يقول رسول الله فرجع فقال إن قتلته كنت مثله قال نعم أعف فخرج يجر نسعة حتى خفي علينا
   سنن النسائى الصغرى5417وائل بن حجرأما إنك إن عفوت عنه يبوء بإثمه وإثم صاحبك فعفا عنه وتركه فأنا رأيته يجر نسعته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4730  
´اس سلسلہ میں علقمہ بن وائل کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا، اس کی گردن میں رسی پڑی تھی، اور بولا: اللہ کے رسول! یہ اور میرا بھائی دونوں ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، اتنے میں اس نے کدال اٹھائی اور اپنے ساتھی یعنی میرے بھائی کے سر پر ماری، جس سے وہ مر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے معاف کر دو، اس نے انکار کیا، اور کہا: اللہ کے نبی! یہ اور میرا بھائی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4730]
اردو حاشہ:
(1) تو اس جیسا ہی ہوگا ظاہر مفہوم تو یہ ہے کہ اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تو بھی ناجائز قاتل ہوگا لیکن یہ مفہوم یہاں مراد نہیں کیونکہ قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جرم نہیں۔ باقی رہا قاتل کا یہ کہنا کہ میری نیت قتل کرنے کی نہیں تھی۔ اس سے قاتل کو معاف کرنا لازم نہیں آتا کیونکہ نیت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ظاہراً صورت قتل کی ہی تھی۔ آپ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ تجھے اس پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ اس نے بھی غصے میں قتل کیا، تو نے بھی۔ اگرچہ اس نے ناجائز قتل کیا اور تو جائز کرے گا مگر فضیلت تبھی حاصل ہوگی جب تو معاف کر دے۔ دنیا میں بھی تعریف ہوگی، آخرت میں بھی اجر عظیم حاصل ہوگا۔ آپ نے اس جیسا ذو معنیٰ جملہ بول کر اس کے معافی کے جذبات کو ابھارا اور اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ﷺ
(2) معلوم ہوا قصاص کی بجائے معافی بہتر ہے خصوصاً جب کہ قاتل یہ عذر بھی پیش کرتا ہو کہ میری نیت قتل کی نہیں تھی، اگرچہ ایسی صورت میں معافی ضروری نہیں تبھی تو آپ نے قاتل مقتول کے ولی کے سپرد کر دیا تھا کہ وہ اسے قتل کر سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد ومسائل حدیث: 4726)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4730   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4499  
´امام (حاکم) خون معاف کر دینے کا حکم دے تو کیسا ہے؟`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک قاتل لایا گیا، اس کی گردن میں تسمہ تھا آپ نے مقتول کے وارث کو بلوایا، اور اس سے پوچھا: کیا تم معاف کرو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا دیت لو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا تم قتل کرو گے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا لے جاؤ اسے چنانچہ جب وہ (اسے لے کر) چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تم اسے معاف کرو گے؟ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4499]
فوائد ومسائل:
1: اگر مجرم کے بھاگ جانے کا اندیشہ ہو تو اس کو باندھنا جائز ہے۔

2: مقتول کے ولی کو تین باتوں میں سے صرف ایک اختیار ہے کہ معاف کردے یا دیت قبول کرلے قصاص لے۔

3: حاکم اور قاضی کو جائز ہے کہ معاف کرنھ کی ترغیب دے۔

4: اگر قاتل قصاص میں قتل کیا جائے تو امید ہے کہ یہ اس کے لئے کفارہ بن جائے گا، بصورت دیگر اس کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4499   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.