الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
8. بَابُ قَوْلِهِ: {لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا} :
8. باب: آیت کی تفسیر یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے، ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ بیٹھے رہو، البتہ جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو۔ پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور وہاں باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو۔ اس بات سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے سودہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ صاف بات کہنے سے (کسی کا) لحاظ نہیں کرتا اور جب تم ان (رسول کی ازواج) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اور تمہیں جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو (کسی طرح بھی) تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے“۔
(8) Chapter. The Statement of Allah: “...O you who believe! Enter not the Prophet’s houses, except when leave is given to you for a meal... (up to)... Verily! With Allah that shall be an enormity.” (V.33:53)
حدیث نمبر: 4795
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني زكرياء بن يحيى، حدثنا ابو اسامة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" خرجت سودة بعد ما ضرب الحجاب لحاجتها، وكانت امراة جسيمة لا تخفى على من يعرفها، فرآها عمر بن الخطاب، فقال: يا سودة، اما والله ما تخفين علينا، فانظري كيف تخرجين؟ قالت: فانكفات راجعة ورسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي وإنه ليتعشى، وفي يده عرق، فدخلت، فقالت: يا رسول الله، إني خرجت لبعض حاجتي، فقال لي عمر: كذا وكذا، قالت: فاوحى الله إليه، ثم رفع عنه وإن العرق في يده ما وضعه، فقال:" إنه قد اذن لكن ان تخرجن لحاجتكن".(مرفوع) حَدَّثَنِي زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" خَرَجَتْ سَوْدَةُ بَعْدَ مَا ضُرِبَ الْحِجَابُ لِحَاجَتِهَا، وَكَانَتِ امْرَأَةً جَسِيمَةً لَا تَخْفَى عَلَى مَنْ يَعْرِفُهَا، فَرَآهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا سَوْدَةُ، أَمَا وَاللَّهِ مَا تَخْفَيْنَ عَلَيْنَا، فَانْظُرِي كَيْفَ تَخْرُجِينَ؟ قَالَتْ: فَانْكَفَأَتْ رَاجِعَةً وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي وَإِنَّهُ لَيَتَعَشَّى، وَفِي يَدِهِ عَرْقٌ، فَدَخَلَتْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي، فَقَالَ لِي عُمَرُ: كَذَا وَكَذَا، قَالَتْ: فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ، ثُمَّ رُفِعَ عَنْهُ وَإِنَّ الْعَرْقَ فِي يَدِهِ مَا وَضَعَهُ، فَقَالَ:" إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ".
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد قضائے حاجت کے لیے نکلیں وہ بہت بھاری بھر کم تھیں جو انہیں جانتا تھا اس سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں۔ راستے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ لیا اور کہا کہ اے سودہ! ہاں اللہ کی قسم! آپ ہم سے اپنے آپ کو نہیں چھپا سکتیں دیکھئیے تو آپ کس طرح باہر نکلی ہیں۔ بیان کیا کہ سودہ رضی اللہ عنہا الٹے پاؤں وہاں سے واپس آ گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے حجرہ میں تشریف رکھتے تھے اور رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس وقت گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ سودہ رضی اللہ عنہا نے داخل ہوتے ہی کہا: یا رسول اللہ! میں قضائے حاجت کے لیے نکلی تھی تو عمر (رضی اللہ عنہ) نے مجھ سے باتیں کیں، بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد یہ کیفیت ختم ہوئی، ہڈی اب بھی آپ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ نے اسے رکھا نہیں تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں (اللہ کی طرف سے) قضائے حاجت کے لیے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

Narrated Aisha: Sauda (the wife of the Prophet) went out to answer the call of nature after it was made obligatory (for all the Muslims ladies) to observe the veil. She was a fat huge lady, and everybody who knew her before could recognize her. So `Umar bin Al-Khattab saw her and said, "O Sauda! By Allah, you cannot hide yourself from us, so think of a way by which you should not be recognized on going out. Sauda returned while Allah's Messenger was in my house taking his supper and a bone covered with meat was in his hand. She entered and said, "O Allah's Messenger ! I went out to answer the call of nature and `Umar said to me so-and-so." Then Allah inspired him (the Prophet) and when the state of inspiration was over and the bone was still in his hand as he had not put in down, he said (to Sauda), "You (women) have been allowed to go out for your needs."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 318


   صحيح البخاري4795عائشة بنت عبد اللهأذن لكن أن تخرجن لحاجتكن
   صحيح البخاري5237عائشة بنت عبد اللهأذن الله لكن أن تخرجن لحوائجكن
   صحيح البخاري147عائشة بنت عبد اللهأذن أن تخرجن في حاجتكن
   صحيح مسلم5668عائشة بنت عبد اللهأذن لكن أن تخرجن لحاجتكن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4795  
4795. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ام المومنین حضرت سودہ ؓ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد قضائے حاجت کے لیے باہر نکلیں اور وہ بھاری بھر کم خاتون تھیں جو انہیں پہچانتا تھا اس سے وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے انہیں دیکھ لیا تو کہا: اے سودہ! اللہ کی قسم! آپ ہم سے اپنے آپ کو چھپا نہیں سکتیں۔ دیکھیں آپ کس طرح باہر نکلتی ہیں؟ حضرت سودہ ؓ یہ سن کر الٹے پاؤں وہاں سے چلی آئیں جبکہ رسول اللہ ﷺ اس وقت میرے حجرے میں تشریف فرما رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ آپ کے ہاتھ میں اس وقت گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ حضرت سودہ‬ ؓ ن‬ے داخل ہوتے ہی کہا: اللہ کے رسول! میں قضائے حاجت کے لیے باہر نکلی تھی تو حضرت عمر ؓ نے مجھ سے ایسی ایسی باتیں کی ہیں، چنانچہ (اسی وقت) اللہ تعالٰی نے آپ پر وحی کا نزول شروع فرما دیا۔ تھوڑی دیر بعد یہ کیفیت ختم ہوئی تو اس وقت ابھی ہڈی آپ کے ہاتھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4795]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات کے لئے بھی جو پردے کا حکم دیا گیا تھا اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ گھر کے باہر نہ نکلیں بلکہ مقصود یہ تھا کہ جو اعضاء چھپانا ہیں ان کو چھپا لیں۔
(قسطلانی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4795   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4795  
4795. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ام المومنین حضرت سودہ ؓ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد قضائے حاجت کے لیے باہر نکلیں اور وہ بھاری بھر کم خاتون تھیں جو انہیں پہچانتا تھا اس سے وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے انہیں دیکھ لیا تو کہا: اے سودہ! اللہ کی قسم! آپ ہم سے اپنے آپ کو چھپا نہیں سکتیں۔ دیکھیں آپ کس طرح باہر نکلتی ہیں؟ حضرت سودہ ؓ یہ سن کر الٹے پاؤں وہاں سے چلی آئیں جبکہ رسول اللہ ﷺ اس وقت میرے حجرے میں تشریف فرما رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ آپ کے ہاتھ میں اس وقت گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ حضرت سودہ‬ ؓ ن‬ے داخل ہوتے ہی کہا: اللہ کے رسول! میں قضائے حاجت کے لیے باہر نکلی تھی تو حضرت عمر ؓ نے مجھ سے ایسی ایسی باتیں کی ہیں، چنانچہ (اسی وقت) اللہ تعالٰی نے آپ پر وحی کا نزول شروع فرما دیا۔ تھوڑی دیر بعد یہ کیفیت ختم ہوئی تو اس وقت ابھی ہڈی آپ کے ہاتھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4795]
حدیث حاشیہ:

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت غیرت مند تھے وہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے متعلق اجنبی لوگوں کے اطلاع پانے سے نفرت کرتے تھے۔
ان کی شدید خواہش تھی کہ انھیں پردے میں رکھا جائے حتی کہ انھوں نے صراحت کے ساتھ کہا:
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اپنی ازواج کو پردے میں رکھیں یہاں تک کہ پردے کی آیات نازل ہوئیں۔

اس پردے کو حجب ابدان کہا جاتا ہے کہ جسم کا کوئی حصہ بھی ظاہر نہ ہو لیکن اس پردے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تسلی نہ ہوئی آپ کی خواہش تھی کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی شخصیت بھی چھپی ہو۔
اسے حجب اشخاص کہتے ہیں۔
اسی لیے انھوں نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق فرمایا کہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! ہم نے تجھے پہچان لیا ہے لیکن اس مرتبہ آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم آیا کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کو پردے میں رہتے ہوئے قضائے حاجت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت ہے تا کہ انھیں مشقت نہ ہو۔
اللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4795   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.