الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
9. بَابُ قَوْلِهِ: {إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا لاَ جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلاَ أَبْنَائِهِنَّ وَلاَ إِخْوَانِهِنَّ وَلاَ أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلاَ أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلاَ نِسَائِهِنَّ وَلاَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ وَاتَّقِينَ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا} :
9. باب: آیت کی تفسیر ”اے مسلمانو! اگر تم کسی چیز کو ظاہر کرو گے یا اسے (دل میں) پوشیدہ رکھو گے تو اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے، ان (رسول کی بیویوں) پر کوئی گناہ نہیں، سامنے آنے میں اپنے باپوں کے اور اپنے بیٹوں کے اور اپنے بھائیوں کے اور اپنے بھانجوں کے اور اپنی (دینی بہنوں) عورتوں کے اور نہ اپنی باندیوں کے اور اللہ سے ڈرتی رہو، بیشک اللہ ہر چیز پر (اپنے علم کے لحاظ سے) موجود اور دیکھنے والا ہے“۔
(9) Chapter. The Statement of Allah: “Whether you reveal anything or conceal it, verily, Allah is Ever All-Knower of everything... (up to)... Verily, Allah is Ever All-Witness over everything.” (V.33:54,55)
حدیث نمبر: 4796
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني عروة بن الزبير، ان عائشة رضي الله عنها، قالت: استاذن علي افلح اخوابي القعيس بعد ما انزل الحجاب، فقلت: لا آذن له حتى استاذن فيه النبي صلى الله عليه وسلم، فإن اخاه ابا القعيس ليس هو ارضعني، ولكن ارضعتني امراة ابي القعيس، فدخل علي النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت له: يا رسول الله، إن افلح اخا ابي القعيس استاذن، فابيت ان آذن له حتى استاذنك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" وما منعك ان تاذني عمك؟" قلت: يا رسول الله، إن الرجل ليس هو ارضعني، ولكن ارضعتني امراة ابي القعيس، فقال:" ائذني له فإنه عمك تربت يمينك"، قال عروة: فلذلك كانت عائشة، تقول: حرموا من الرضاعة ما تحرمون من النسب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ عَلَيَّ أَفْلَحُ أَخُوأَبِي الْقُعَيْسِ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ، فَقُلْتُ: لَا آذَنُ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ فِيهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ أَخَاهُ أَبَا الْقُعَيْسِ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي، وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَةُ أَبِي الْقُعَيْسِ، فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَفْلَحَ أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ اسْتَأْذَنَ، فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَا مَنَعَكِ أَنْ تَأْذَنِي عَمُّكِ؟" قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الرَّجُلَ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي، وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَةُ أَبِي الْقُعَيْسِ، فَقَالَ:" ائْذَنِي لَهُ فَإِنَّهُ عَمُّكِ تَرِبَتْ يَمِينُكِ"، قَالَ عُرْوَةُ: فَلِذَلِكَ كَانَتْ عَائِشَةُ، تَقُولُ: حَرِّمُوا مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا تُحَرِّمُونَ مِنَ النَّسَبِ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ابوالقعیس کے بھائی افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی، لیکن میں نے کہلوا دیا کہ جب تک اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت حاصل نہ لے لوں، ان سے نہیں مل سکتی۔ میں نے سوچا کہ ان کے بھائی ابوالقعیس نے مجھے تھوڑا ہی دودھ پلایا تھا، دودھ پلانے والی تو ابوالقعیس کی بیوی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ابوالقعیس کے بھائی افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی، لیکن میں نے یہ کہلوا دیا کہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لوں ان سے ملاقات نہیں کر سکتی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے چچا سے ملنے سے تم نے کیوں انکار کر دیا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ابوالقعیس نے مجھے تھوڑا ہی دودھ پلایا تھا، دودھ پلانے والی تو ان کی بیوی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو وہ تمہارے چچا ہیں۔ عروہ نے بیان کیا کہ اسی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ رضاعت سے بھی وہ چیز یں (مثلاً نکاح وغیرہ) حرام ہو جاتی ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں۔

Narrated `Aisha: Aflah, the brother of Abi Al-Quais, asked permission to visit me after the order of Al-Hijab was revealed. I said, "I will not permit him unless I take permission of the Prophet about him for it was not the brother of Abi Al-Qu'ais but the wife of Abi Al-Qu'ais that nursed me." The Prophet entered upon me, and I said to him, "O Allah's Messenger ! Allah, the brother of Abi Al-Qu'ais asked permission to visit me but I refused to permit him unless I took your permission." The Prophet said, "What stopped you from permitting him? He is your uncle." I said, "O Allah's Messenger ! The man was not the person who had nursed me, but the woman, the wife of Abi Al-Qu'ais had nursed me." He said, "Admit him, for he is your uncle. Taribat Yaminuki (may your right hand be saved)" `Urwa, the sub-narrator added: For that `Aisha used to say, "Consider those things which are illegal because of blood relations as illegal because of the corresponding foster relations."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 319


   صحيح البخاري5103عائشة بنت عبد اللهأمرني أن آذن له
   صحيح البخاري4796عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك تربت يمينك
   صحيح البخاري2644عائشة بنت عبد اللهصدق أفلح ائذني له
   صحيح البخاري6156عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك تربت يمينك
   صحيح مسلم3575عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   صحيح مسلم3571عائشة بنت عبد اللهأمرني أن آذن له علي
   صحيح مسلم3573عائشة بنت عبد اللهائذني له
   صحيح مسلم3580عائشة بنت عبد اللهليدخل عليك فإنه عمك
   صحيح مسلم3578عائشة بنت عبد اللههلا أذنت له تربت يمينك
   جامع الترمذي1148عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   سنن أبي داود2057عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   سنن النسائى الصغرى3316عائشة بنت عبد اللهائذني له
   سنن النسائى الصغرى3319عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن النسائى الصغرى3318عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن النسائى الصغرى3320عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن النسائى الصغرى3317عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن ابن ماجه1948عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فأذني له
   سنن ابن ماجه1949عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   المعجم الصغير للطبراني500عائشة بنت عبد اللهإيذني له فإنه عمك من الرضاعة
   المعجم الصغير للطبراني501عائشة بنت عبد اللهليدخل عليك عمك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم374عائشة بنت عبد الله فامرني ان آذن له علي
   بلوغ المرام967عائشة بنت عبد اللهصنعت فامرني ان آذن له علي وقال إنه عمك
   مسندالحميدي231عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فأذني له
   مسندالحميدي232عائشة بنت عبد اللهتربت يمينك هو عمك فأذني له

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 374  
´اسلام کے دور اول میں عورتوں کے لئے پردہ کرنا ضروری نہیں تھا`
«. . . انها اخبرته ان افلح اخا ابى القعيس جاء يستاذن عليها -وهو عمها من الرضاعة- بعد ان نزل الحجاب، قالت: فابيت ان آذن له. فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبرته بالذي صنعت فامرني ان آذن له علي . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: ابوالقعیس کے بھائی افلح جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا تھے، انہوں نے پردے کی فرضیت کے بعد میرے (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے) پاس آنے کی اجازت چاہی تو میں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے یہ کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں آنے کی اجازت دے دوں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 374]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5103، ومسلم 1445/3، من حديث مالك به، من رواية يحييٰ بن يحييٰ]

تفقه:
➊ اسلام کے دور اول میں عورتوں کے لئے پردہ کرنا ضروری نہیں تھا، بعد میں فرض ہوا۔
➋ نسبی اور رضاعی حرام رشتوں سے پردہ نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے پردہ کیا جاتا ہے جن سے اصلاً نکاح جائز ہے۔
➌ رضاعی ماں حقیقی ماں کی طرح ہے لہٰذا حقیقی نسبی رشتوں کی طرح رضاعی رشتے بھی حرام ہیں۔
➍ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دودھ پیتے بچے کی رضاعت دودھ کے پانچ گھونٹ پینے سے ثابت ہو جاتی ہے لیکن بڑے آدمی کی رضاعت میں اختلاف ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسے جائز سمجھتی تھیں جبکہ جمہور علماء کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے جیسا کہ آنے والی حدیث سے بھی ثابت ہے۔ نیز دیکھئے: [التمهيد 260/8]
➎ امہات المؤمنین پردے کے وجوب کے بعد عام مومنوں سے پردہ کیا کرتی تھیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 39   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1949  
´دودھ مرد کی طرف سے ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے، تو میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کر دیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے چچا کو اپنے پاس آنے دو، میں نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں!، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے چچا ہیں انہیں اپنے پاس آنے دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1949]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رضاعی رشتے جس طرح دودھ پلانے والی عورت کی طرف سے قائم ہوتے ہیں (رضاعی ماموں، رضاعی خالہ وغیرہ)
اسی طرح اس عورت کا خاوند دودھ پینے والے بچے کا باپ بن جاتا ہے اور اس کی طرف سے دودھ کے رشتے قائم ہوتے ہیں (رضاعی چچا، تایا، رضاعی پھوپھی وغیرہ)
۔

(2)
جو رشتے نسبی طور پر محرم ہیں وہ رضاعی طور پر بھی محرم ہیں لہٰذا ان رضاعی رشتہ داروں کا آپس میں پردہ نہیں اور ان کا باہم نکاح بھی جائز نہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیئے، حدیث: 1937 کے فوائد)

(3)
اگر کسی مسئلہ میں شاگرد کو کوئی اشکال یا شبہ ہو تو استاد سے بیان کر دینا چاہیے اور استاد کو چاہیے کہ مناسب انداز سے اشکال دور کر دے۔

(4)
ہاتھ کو مٹی لگنے کے محاورہ سے اہل عرب فقر و مسکنت مراد لیتے ہیں تاہم تعجب کے موقع پر یہ جملہ بولنے سے بددعا مراد نہیں ہوتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1949   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 967  
´دودھ پلانے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابوالقعیس کا بھائی افلح حجاب کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آنے کیلئے اجازت طلب کرتا رہا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا بیان ہے کہ میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا جو میں نے اس کے ساتھ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کو اپنے پاس آنے کی اجازت دے دیا کروں اور فرمایا کہ وہ تمہارا چچا ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 967»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لبن الفحل، حديث:5103، ومسلم، الرضاع، باب تحريم الرضاعة من ماء الفحل، حديث:1445.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کا دودھ پی لیا جائے اس کا شوہر دودھ پینے والے کے لیے بمنزلہ باپ ہوگا۔
اب جو رشتے ماں‘ باپ کی جانب سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ سے بھی حرام ہو جائیں گے۔
2.افلح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی چچا اس لیے ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوالقعیس کی بیوی کا دودھ پیا تھا۔
3.دودھ کی پیدائش میں مرد و عورت دونوں کے نطفے کا دخل ہوتا ہے‘ اس لیے رضاعت بھی دونوں کی جانب سے ہوئی اور اسی وجہ سے حرمت بھی ثابت ہوگئی۔
وضاحت: «افلح» ان کی کنیت ابوجعد اور نام افلح ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام تھے۔
ان کے بھائی ابوالقعیس کا نام جعد تھا۔
اور ایک قول یہ ہے کہ وائل بن افلح اشعری ان کا نام تھا۔
اس طرح ان کے بھائی کا نام اور ان کے باپ کا نام ایک ہوا۔
معلوم رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچے دو تھے۔
ایک تو ان کے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رضاعی بھائی تھا‘ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں فوت ہوگیا تھا‘ دوسرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دودھ پلانے والی کا دیور تھا۔
اس کا نام افلح تھا جو کہ ابوالقعیس کا بھائی تھااور ابوالقعیس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی باپ تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 967   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1148  
´دودھ کی نسبت مرد کی طرف ہو گی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے، وہ مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں کیونکہ وہ تیرے چچا ہیں، اس پر انہوں نے عرض کیا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے نہیں، تو آپ نے فرمایا: تیرے چچا ہیں، وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1148]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے دودھ پلانے سے جس مرد کا دودھ ہو (یعنی اس عورت کا شوہر) وہ بھی شیر خوار پر حرام ہو جاتا ہے اوراس سے بھی شیر خوار کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1148   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2057  
´مرد سے دودھ کا رشتہ۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس افلح بن ابوقعیس آئے تو میں نے پردہ کر لیا، انہوں نے کہا: مجھ سے پردہ کر رہی ہو، میں تو تمہارا چچا ہوں؟ میں نے کہا: چچا کس طرح سے؟ انہوں نے کہا کہ تمہیں میرے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے نہ کہ مرد نے، پھر میرے یہاں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے سارا واقعہ آپ سے بیان کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے چچا ہیں، وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2057]
فوائد ومسائل:
دودھ پلانے والی رضاعی ماں ہوئی تو اس کا شوہر رضاعی باپ اور اس کا بھائی رضائی چچا ہوا جس طرح دودھ پلانے والی سے تعلق جڑتا ہے۔
ویسے ہی اس کے شوہر اور عزیزوں سے بھی جُڑ جاتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2057   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4796  
4796. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد ابو قعیس کے بھائی حضرت افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت طلب کی تو میں نے کہا: جب تک میں اس سلسلے میں نبی ﷺ سے اجازت نہ حاصل کر لوں، ان سے نہیں مل سکتی کیونکہ اس کے بھائی ابو قعیس ؓ نے مجھے کون سا دودھ پلایا ہے۔ مجھے تو ابو قعیس کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔ پھر نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے عرض کی: اللہ کے رسول! ابو قعیس ؓ کے بھائی افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت مانگی تھی تو میں نے اسے کہہ دیا کہ جب تک آپ ﷺ سے اجازت نہ لے لوں، ان سے ملاقات نہیں کر سکتی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنے چچا کو ملنے سے تمہیں کیوں انکار ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے ابو قعیس نے دودھ نہیں پلایا بلکہ دودھ پلانے والی تو اس کی بیوی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہیں، انہیں اندر آنے کی اجازت دو۔ وہ تمہارے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4796]
حدیث حاشیہ:
کسی بچہ یا بچی کو ماں کے علاوہ کوئی اور عورت دودھ پلا دے تو وہ شرعاً دودھ کی ماں بن جاتی ہے اور اس کے احکام حقیقی ماں کی طرح ہو جاتے ہیں، اس کا خاوند باپ کے درجہ میں اور اس کے لڑکے بھائی کے درجہ میں آ جاتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کا مطلب یہی کہ رضاعی چچا، رضاعی پھوپھی، رضاعی ماموں، رضاعی خالہ سب محرم ہیں۔
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے کئی وجوہ سے ہے۔
ایک یہ کہ اس حدیث سے رضاعی باپ اور رضاعی چچا کے سامنے نکلنا ثابت ہوتا ہے اورآیت میں جو اٰباءھن کا لفظ تھا اس کی تفسیر حدیث سے ہو گئی کہ رضاعی باپ اور چچا بھی اٰباءھن میں داخل ہیں کیونکہ دوسری حدیث میں ہے۔
عم الرجل صنو أبیه۔
دوسرے یہ کہ آیت میں ازواج مطہرات کے پاس جن لوگوں کا آنا روا تھا ان کا ذکر ہے اور حدیث میں بھی ان ہی کا تذکرہ ہے کہ ایک شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا۔
تیسرے یہ کہ حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول مذکور ہے کہ جتنے رشتے خون کیوجہ سے حرام ہوتے ہیں وہی دودھ کی وجہ سے حرام ہو جاتے ہیں تو اس سے آیت کی تفسیر ہو گئی یعنی دوسرے محارم کا بھی ازواج مطہرات کے پاس آنا روا ہے گو آیت میں ان کا ذکر نہیں ہے، جیسے دادا، نانا، ماموں، چچا وغیرہ اور تعجب ہے اس شخص پر جس نے حضرت امام بخاری پر یہ اعتراض کیا کہ حدیث ترجمہ باب کے موافق نہیں ہے۔
قسطلانی نے کہا امام بخاری نے یہ حدیث لا کر عکرمہ اور شعبی کا رد کیا ہے جو چچا یا ماموں کے سامنے عورت کو دوپٹہ اتار کو آنا مکروہ جانتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4796   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4796  
4796. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد ابو قعیس کے بھائی حضرت افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت طلب کی تو میں نے کہا: جب تک میں اس سلسلے میں نبی ﷺ سے اجازت نہ حاصل کر لوں، ان سے نہیں مل سکتی کیونکہ اس کے بھائی ابو قعیس ؓ نے مجھے کون سا دودھ پلایا ہے۔ مجھے تو ابو قعیس کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔ پھر نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے عرض کی: اللہ کے رسول! ابو قعیس ؓ کے بھائی افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت مانگی تھی تو میں نے اسے کہہ دیا کہ جب تک آپ ﷺ سے اجازت نہ لے لوں، ان سے ملاقات نہیں کر سکتی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنے چچا کو ملنے سے تمہیں کیوں انکار ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے ابو قعیس نے دودھ نہیں پلایا بلکہ دودھ پلانے والی تو اس کی بیوی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہیں، انہیں اندر آنے کی اجازت دو۔ وہ تمہارے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4796]
حدیث حاشیہ:

کسی بچے کو ماں کے علاوہ اگر کوئی دوسری عورت دودھ پلا دے تو وہ شرعی طور پر دودھ کی یعنی رضاعی ماں بن جاتی ہے اس کے احکام حقیقی ماں جیسے ہو جاتے ہیں۔
اس کا خاوند باپ کے درجے میں اور اس بیٹے بھائیوں کے درجے میں آ جاتے ہیں۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رضاعی باپ رضاعی چچے اور رضاعی ماموں کے سامنے آنا جائز ہے کیونکہ ان کا حکم حقیقی باپ حقیقی چچے ماموں کا ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے محارم سے بھی پردہ نہیں ہے اگرچہ آیت کریمہ میں ان کا ذکر نہیں مثلاً:
دادا، نانا، چچا اور ماموں وغیرہ۔

اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طور پر ہے کہ آیت میں خونی محارم کا ذکر ہے اور حدیث میں رضاعی محارم کا بیان ہے یعنی جس طرح خونی محارم سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں اسی طرح رضاعی محارم بھی گھرآ سکتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4796   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.