الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
امور حکومت کا بیان
42. باب مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ:
42. باب: جو شخص لڑے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتا ہے۔
حدیث نمبر: 4919
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت ابا وائل ، قال: حدثنا ابو موسى الاشعري ، ان رجلا اعرابيا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، الرجل يقاتل للمغنم، والرجل يقاتل ليذكر، والرجل يقاتل ليرى مكانه، فمن في سبيل الله؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قاتل لتكون كلمة الله اعلى فهو في سبيل الله ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ ، أَنَّ رَجُلًا أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُذْكَرَ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ، فَمَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ".
عمرو بن مرہ نے کہا: میں نے ابووائل (شقیق) سے سنا، انہوں نے کہا: ہمیں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! کوئی شخص مال غنیمت کی خاطر لڑتا ہے، کوئی شخص اس لئے لڑتا ہے کہ اس (کے کارناموں) کا ذکر ہو اور کوئی اس لیے لڑتا ہے کہ (لڑائی اور شجاعت) میں اس کے مقام کو دیکھا جائے، ان میں سے اللہ کے راستے میں (لڑنے والا) کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص جو اس لیے لڑے کہ اللہ کا کلمہ اونچا ہو، وہی اللہ کے راستے میں (لڑنے والا) ہے۔"
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں ایک بدوی آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا، اے اللہ کے رسول! ایک آدمی مال غنیمت کے طمع پر لڑتا ہے، دوسرا آدمی ناموری کے لیے کہ میرا چرچا ہو لڑتا ہے، تیسرا آدمی اپنی جنگی مہارت دکھانے کے لیے لڑتا ہے، تو اللہ کی راہ میں لڑنے والا کون ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ کا بول بالا ہو، وہی اللہ کی راہ میں لڑنے والا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1904

   صحيح البخاري3126عبد الله بن قيسمن قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله
   صحيح البخاري2810عبد الله بن قيسمن قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله
   صحيح البخاري7458عبد الله بن قيسمن قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله
   صحيح البخاري123عبد الله بن قيسمن قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله
   صحيح مسلم4919عبد الله بن قيسمن قاتل لتكون كلمة الله أعلى فهو في سبيل الله
   صحيح مسلم4920عبد الله بن قيسمن قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله
   صحيح مسلم4922عبد الله بن قيسمن قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله
   جامع الترمذي1646عبد الله بن قيسمن قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله
   سنن أبي داود2517عبد الله بن قيسمن قاتل حتى تكون كلمة الله هي أعلى فهو في سبيل الله
   سنن النسائى الصغرى3138عبد الله بن قيسمن قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله
   سنن ابن ماجه2783عبد الله بن قيسمن قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله
   بلوغ المرام1086عبد الله بن قيس من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 123  
´کھڑے کھڑے علم حاصل کرنا`
«. . . عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ، قَالَ: وَمَا رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا، فَقَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ . . .»
. . . ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے اور کوئی غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سر اٹھایا، اور سر اسی لیے اٹھایا کہ پوچھنے والا کھڑا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے، وہ اللہ کی راہ میں (لڑتا) ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ سَأَلَ وَهْوَ قَائِمٌ عَالِمًا جَالِسًا: 123]

تشریح:
یعنی جب مسلمان اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں پہنچتا ہے اور غصہ کے ساتھ یا غیرت کے ساتھ جوش میں آ کر لڑتا ہے تو یہ سب اللہ ہی کے لیے سمجھا جائے گا۔ چونکہ یہ سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہوئے شخص نے کیا تھا، اسی سے مقصد ترجمہ ثابت ہوا کہ حسب موقع کھڑے کھڑے بھی علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کے کلمہ کو سربلند کرنے سے قوانین اسلامیہ و حدود شرعیہ کا جاری کرنا مراد ہے جو سراسر عدل و انصاف و بنی نوع انسان کی خیر خواہی پر مبنی ہیں، ان کے برعکس جملہ قوانین نوع انسان کی فلاح کے خلاف ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 123   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3126  
´اگر کوئی غنیمت حاصل کرنے کے لیے لڑے مگر نیت ترقی دین کی بھی ہو تو کیا ثواب کم ہو گا؟`
«. . . حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُذْكَرَ، وَيُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ مَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ:" مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ . . .»
. . . ‏‏‏‏ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک اعرابی (لاحق بن ضمیرہ باہلی) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ایک شخص ہے جو غنیمت حاصل کرنے کے لیے جہاد میں شریک ہوا ‘ ایک شخص ہے جو اس لیے شرکت کرتا ہے کہ اس کی بہادری کے چرچے زبانوں پر آ جائیں ‘ ایک شخص اس لیے لڑتا ہے کہ اس کی دھاک بیٹھ جائے ‘ تو ان میں سے اللہ کے راستے میں کون سا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جنگ میں شرکت اس لیے کرے تاکہ اللہ کا کلمہ (دین) ہی بلند رہے۔ فقط وہی اللہ کے راستے میں ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ: 3126]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3126 باب: «بَابُ مَنْ قَاتَلَ لِلْمَغْنَمِ هَلْ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ مسئلہ ثابت فرمایا کہ اگر کوئی اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے لڑے اور اس کے ذیل میں غنیمت کے مال لوٹنے کا بھی قصد ہو تو اس کا اجر کم نہ کیا جائے گا، دلیل کے طور پر حدیث یہ ثابت فرمائی کہ اگر کوئی غنیمت کے لئے یا نام و نمود کے لئے لڑتا ہے تو وہ اللہ کی راہ میں لڑنے والا نہیں ہے بلکہ اصلا لڑنے والا وہ ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے لڑے، ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کا کیا تعلق ہے اور اس میں کیا نسبت ہے؟ دراصل حدیث میں یہ ذکر ہے کہ جو صرف مال غنیمت ہی کے لئے لڑے، صرف نام و نمود ہی کی غرض سے جہاد کرے اس کا عمل ضائع ہو گا، لیکن اگر کسی کا مقصد اصلا اعلائے کلمۃ اللہ ہی ہو اور ضمنا غنیمت کا بھی قصد ہو تو کوئی مضر نہیں ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أراد البخاري أن قصد الغنيمة لا يكون منافيا للأجر و لا منقصا إذا قصد معها أعلاء كلمة الله.» [فتح الباري، ج 6، ص: 278]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قصد ہے کہ مال غنیمت کی تمنا کرنا اجر کے منافی نہیں ہے اور نہ ہی اجر میں کمی کا باعث ہے جبکہ اس کے ساتھ (اصل مقصد) اعلائے کلمۃ اللہ کی بلندی ہو۔
علامہ محمد التاودی المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أما من قاتل للغنيمة فقط، أو كان أصل قتاله ذالك، فلا أجر له ولا أن قاتله فى سبيل الله.» [حاشية التأودي بن سودة، ج 3، ص: 280]
یعنی جو صرف غنیمت کے لئے ہی (لڑتا ہے) تو اس کا اصل قتال کرنا اسی کے لئے ہے، پس اس کے لئے کوئی اجر نہیں اور نہ ہی وہ اللہ کے رستے میں لڑنے والا شمار ہو گا۔
امام ابوداؤد رحمہ اللہ اپنی سنن میں حدیث کا ذکر کرتے ہیں اور اس پر باب قائم کرتے ہیں کہ:
«في الرجل يغزو يلتمس الأجر و الغنيمة.»
کوئی شخص جہاد کرے ثواب اور غنیمت کے لئے۔
مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے امام ابوداؤد رحمہ اللہ حدیث پیش کرتے ہیں:
«إن ابن زغب الايادي حدثه قال: نزل على عبدالله بن حوالة الأزدي فقال لي: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم لنغنم على اقدامنا فرجعنا، فلم نغنم شيئا وعرف الجهد في وجوهنا فقام فينا فقال: اللهم لا تكلهم إلي فاضعف عنهم . . .» [سنن أبى داؤد، كتاب الجهاد، رقم الحديث: 2535]
سیدنا عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پیدل (جہاد کے لئے) روانہ فرمایا تاکہ کوئی غنیمت حاصل کر لائیں۔ پس ہم واپس آئے اور ہمیں کوئی غنیمت میسر نہ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشقت اور غمی کے آثار ہمارے چہروں پر دیکھے تو کھڑتے ہوئے اور (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: اے اللہ! انہیں میرے سپرد نہ کر کہ ان کی کفالت سے عاجز رہوں، اور انہیں ان کی اپنی جانوں کے سپرد نہ کر کہ اپنی کفالت سے عاجز رہیں، اور نہ انہیں لوگوں کے سپرد کر دینا کہ وہ اپنے آپ ہی کو ترجیح دینے لگیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سر پر رکھا اور ارشاد مبارک فرمایا: اے ابن حوالہ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس (شام) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے، مصیبتیں ٹوٹیں گیں اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہو گی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے۔
مذکورہ حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ کوئی شخص اگر اعلائے کلمۃ اللہ کے ساتھ ساتھ مال غنیمت کا بھی ارادہ رکھتا ہو تو اس کے لئے کوئی مضر نہ ہو گا، ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ غنیمت حاصل ہونے سے آخرت کے اجر میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:
جو مجاہد اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتے ہیں اور غنیمت حاصل کر لیتے ہیں وہ اپنے آخرت کے اجر میں سے دو تہائی جلد (اس دنیا میں) پا لیتے ہیں اور ایک تہائی ان کے لئے باقی رہ جاتا ہے، اور اگر انہیں کوئی غنیمت نہ ملے تو ان کا کامل اجر (روز قیامت کے لئے) محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ [سنن أبى داؤد، كتاب الجهاد، رقم: 2497 - صحيح مسلم، كتاب الامارة، رقم: 1906]
اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا رحجان، کہ مال غنیمت کے لئے بھی لڑنے والا اگر اس کی اصل نیت اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ہو گی تو اس کو مضر نہیں، ورنہ اگر صرف مال غنیمت ہی کے لئے وہ لڑے گا تو بلاشبہ اس کا کوئی اجر نہیں، نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔ لہذا ترجمۃ الباب کے مطابق اجر اس کو ملے گا جس کی نیت اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ہو گی، ہاں البتہ نسبی کمی واقع ضرور ہو گی جس کا ذکر حدیث میں بھی موجود ہے، اور اس کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 459   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2783  
´جہاد کی نیت کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بہادری کی شہرت کے لیے لڑتا ہے، اور جو خاندانی عزت کی خاطر لڑتا ہے، اور جس کا مقصد ریا و نمود ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے کلمے کی بلندی کے مقصد سے جو لڑتا ہے وہی مجاہد فی سبیل اللہ ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2783]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہر نیکی کے کام میں اخلاص ضروری ہے ورنہ وہ عمل قابل قبول نہیں ہوگا۔

(2)
بظاہر بہت بڑی نیکی بھی خلوص کے بغیر بےکار ہے۔

(3)
جہاد کے دوران میں مومن کی نیت صرف اللہ کی رضا کا حصول اور اس کے دین کی خدمت ہونی چاہیے اس کے ساتھ اگر مال غنیمت مل جائے یا مسلمانوں کی نظر میں اس کا مقام بلند ہو جائے تو یہ اللہ کی طرف سے ایک انعام ہے۔
پہلے سے ان چیزوں کی نیت ہو تو ثواب نہیں ملے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2783   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4919  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
لوگ لڑائی میں مختلف اغراض و مقاصد یا مفادات کے لیے حصہ لیتے ہیں،
لیکن یہ پوشیدہ ہوتے ہیں،
اس لیے آپ نے سب لڑنے والوں کے سامنے ایک آئینہ پیش فرما دیا،
جس میں انسان اپنی اصلی شکل خودبخود دیکھ سکتا ہے،
یا اس کسوٹی پر وہ خود اپنے آپ کو پرکھ سکتا ہے اور دوسرے بھی قرائن اور آثار سے کچھ نہ کچھ رائے قائم کر سکتے ہیں،
اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ جو انسان صرف اور صرف اللہ کے دین کی سربلندی اور رفعت کے لیے جہاد میں حصہ لیتا ہے،
کوئی اور غرض یا مفاد وابستہ نہیں ہے،
تو وہ واقعی اللہ کی راہ میں لڑتا ہے،
لیکن اگر وہ غنیمت کے لیے،
اظہار شجاعت کے لیے،
ریاء و سمع کے لیے،
خاندانی غیرت یا اشتعال میں آ کر لڑتا ہے،
تو یہ فی سبیل اللہ نہیں ہے،
دنیوی اغراض اور مفادات ہیں جو حاصل ہو سکتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4919   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.