الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of Salah
24. بَابُ : اسْتِبَانَةِ الْخَطَإِ بَعْدَ الاِجْتِهَادِ
24. باب: اجتہاد قبلہ متعین کرنے کے بعد اس کی غلطی واضح ہو جانے کا بیان۔
Chapter: Finding Out That One Was Wrong After Doing His Utmost (To Determine The Direction)
حدیث نمبر: 494
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: بينما الناس بقباء في صلاة الصبح، جاءهم آت، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" قد انزل عليه الليلة، وقد امر ان يستقبل الكعبة". فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشام فاستداروا إلى الكعبة.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قال: بَيْنَمَا النَّاسُ بِقُبَاءَ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ، جَاءَهُمْ آتٍ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ، وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ". فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّامِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور کہنے لگا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آج رات (وحی) نازل کی گئی ہے، اور آپ کو حکم ملا ہے کہ (نماز میں) کعبہ کی طرف رخ کریں، لہٰذا تم لوگ بھی اسی کی طرف رخ کر لو، (اس وقت) ان کے چہرے شام (بیت المقدس) کی طرف تھے، تو وہ لوگ کعبہ کی طرف گھوم گئے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 32 (403)، تفسیر البقرة 14 (4488)، 16 (4490)، 17 (4491)، 19 (4493)، 20 (4494)، خبر الآحاد 1 (7251)، صحیح مسلم/المساجد 2 (526)، موطا امام مالک/قبلة 4 (6)، (تحفة الأشراف: 7228)، مسند احمد 2/113، ویأتي عند المؤلف برقم: 746 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس طرح پھر جانے سے لوگ آگے ہو جائیں گے، اور امام لوگوں کے پیچھے ہو جائے گا، إلا یہ کہ یہ کہا جائے کہ پہلے امام مسجد کے پچھلے حصہ میں چلا گیا ہو گا پھر لوگ اپنی جگہ پر گھوم گئے ہوں گے، اس طرح پہلے جو اگلی صف تھی اب وہ پچھلی ہو گئی ہو گی، اور حدیث کا مستفاد یہ ہے کہ جس کو حالت نماز میں صحیح قبلہ کے بارے میں علم ہو جائے وہ بھی اسی طرح قبلہ رخ ہو جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري4491عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة قرآن وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشأم فاستداروا إلى الكعبة
   صحيح البخاري4490عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة قرآن وأمر أن يستقبل الكعبة ألا فاستقبلوها وكان وجه الناس إلى الشأم فاستداروا بوجوههم إلى الكعبة
   صحيح البخاري4488عبد الله بن عمرأنزل الله على النبي قرآنا أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها فتوجهوا إلى الكعبة
   صحيح البخاري7251عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة قرآن وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشأم فاستداروا إلى الكعبة
   صحيح البخاري4494عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشأم فاستداروا إلى القبلة
   صحيح البخاري403عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة قرآن وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشأم فاستداروا إلى الكعبة
   صحيح مسلم1178عبد الله بن عمرأنزل عليه الليلة وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشام فاستداروا إلى الكعبة
   سنن النسائى الصغرى494عبد الله بن عمرأمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشام فاستداروا إلى الكعبة
   سنن النسائى الصغرى746عبد الله بن عمرأمر أن يستقبل القبلة فاستقبلوها وكانت وجوههم إلى الشام فاستداروا إلى الكعبة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم111عبد الله بن عمرقد انزل عليه الليلة قرآن، وقد امر ان يستقبل الكعبة فاستقبلوها، وكانت وجوههم إلى الشام، فاستداروا إلى الكعبة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 111  
´قبلے کا بیان`
«. . . 277- مالك عن عبد الله بن دينار أن عبد الله بن عمر قال: بينما الناس بقباء فى صلاة الصبح، إذ جاءهم آت، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أنزل عليه الليلة قرآن، وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها، وكانت وجوههم إلى الشام، فاستداروا إلى الكعبة. . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگ قبا میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آدمی نے آ کر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آج رات قرآن نازل ہوا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ (نماز میں) کعبہ کی طرف رخ کرو۔ وہ لوگ شام (قبلہ اولیٰ) کی طرف نماز پڑھ رہے تھے، تو انہوں نے نماز میں ہی کعبہ کی طرف رخ پھیر لئے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 111]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 403، ومسلم 526، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر راوی ثقہ وصدوق ہو تو خبر واحد حجت ہے اور اس پر ایمان لانا فرض ہے۔
➋ شرعی احکامات میں نسخ واقع ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب چاہا اپنے بعض احکامات کو منسوخ فرما دیا۔ «وهو عليٰ كل شيء قدير» ➌ پہلے بیت المقدس (قبلۂ اولیٰ) کی طرف نماز پڑھی جاتی تھی بعد میں بیت اللہ (مکہ) کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دے دیا گیا۔ اب قیامت تک یہی قبلہ ہے۔
➍ قبلہ کی سمت میں غلطی ہو گئی، بعد میں کسی نے بتایا تو پہلی نماز پر بنا کرے گا۔
➎ صحابہ کرام ہر وقت کتاب و سنت پر عمل کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔
➏ حافظ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ جس آدمی نے آکر کہا: تھا وہ (سیدنا) عباد بن بشیر (رضی اللہ عنہ) تھے۔ [التمهيد 17/46]
➐ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر تئیس سالہ دور نبوت میں قرآن مجید مختلف اوقات میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا ہے لیکن سارا قرآن «ليلة القدر» میں آسمان دنیا پر بیت معمور میں نازل کردیا گیا تھا۔
➑ اگر حالتِ نماز میں کسی عذر کی وجہ سے حالت بدل جائے تو نماز اس کے مطابق جاری رکھنی چاہئے۔
➒ اگر نیت صحیح ہو تو اجتہاد میں غلطی کی وجہ سے ثواب ملتا ہے۔ ایسی حالت میں نماز کے اعادے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
➓ جب شرعی عذر ہو تو نماز میں عمل کثیر بھی جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 277   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 494  
´اجتہاد قبلہ متعین کرنے کے بعد اس کی غلطی واضح ہو جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور کہنے لگا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آج رات (وحی) نازل کی گئی ہے، اور آپ کو حکم ملا ہے کہ (نماز میں) کعبہ کی طرف رخ کریں، لہٰذا تم لوگ بھی اسی کی طرف رخ کر لو، (اس وقت) ان کے چہرے شام (بیت المقدس) کی طرف تھے، تو وہ لوگ کعبہ کی طرف گھوم گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 494]
494 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے تھے تو یہ اطلاع پہنچی، گویا ایسا ہی واقعہ مسجد بنوحارثہ میں عصر کی نماز کے اندر پیش آیا، لیکن چونکہ مسجد قباء کی اپنی فضیلت و اہمیت ہے، اس لیے اس کا نام مسجد قبلتین نہیں پڑا تاکہ بحیثیت مسجد قباء ہونے کے اس کی جو اہمیت ہے وہ دب نہ جائے، بخلاف مسجد قبلتین کے کہ اس کا قبلتین ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
➋تمام احادیث کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ کا حکم ظہر کی نماز کے وقت اترا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے کی طرف اولین نماز، ظہر کی پڑھی۔ آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں نے یہ اطلاع دوسری مساجد میں پہنچائی۔ مدینے والوں کو یہ اطلاع عصر کی نماز کے دوران میں ملی۔ انہوں نے نماز کی حالت ہی میں رخ بدل لیا۔ مسجد قباء میں شہر سے واپس جانے والوں نے صبح کی نماز کے وقت اطلاع پہنچائی۔
➌امام صاحب کا استدلال یوں ہے کہ تحویل قبلہ کے حکم کے بعد تین نمازیں اہل قباء نے غیرقبلہ کی طرف پڑھیں، لیکن چونکہ اس بات کا پتہ ان نمازوں کی ادائیگی کے بعد چلا، لہٰذا دہرانے کی ضرورت نہ تھی۔ اب ابھی اگر نماز کی ادائیگی کے بعد پتہ چلے کہ نماز غلط جانب پڑھی گئی ہے تو دہرانے کی ضرورت نہیں، بشرطیکہ نماز سے پہلے قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 494   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 746  
´کوشش اور اجتہاد کے بعد قبلہ کے غلط ہو جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ مسجد قباء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ قرآن نازل ہوا ہے، اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ قبلہ (کعبہ) کی طرف رخ کریں، تو ان لوگوں نے کعبہ کی طرف رخ کر لیا، اور حال یہ تھا کہ ان کے چہرے شام کی طرف تھے تو وہ کعبہ کی طرف (جنوب کی طرف) گھوم گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 746]
746 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 494۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 746   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.