الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
The Book of Adornment
1. بَابُ : الْفِطْرَةِ
1. باب: دین فطرت والی عادات و سنن کا بیان۔
Chapter: The Fitrah
حدیث نمبر: 5044
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مقطوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا المعتمر، عن ابيه، قال: سمعت طلقا يذكر:" عشرة من الفطرة: السواك، وقص الشارب، وتقليم الاظفار , وغسل البراجم، وحلق العانة، والاستنشاق، وانا شككت في المضمضة".
(مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْقًا يَذْكُرُ:" عَشْرَةً مِنَ الْفِطْرَةِ: السِّوَاكَ، وَقَصَّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ , وَغَسْلَ الْبَرَاجِمِ، وَحَلْقَ الْعَانَةِ، وَالِاسْتِنْشَاقَ، وَأَنَا شَكَكْتُ فِي الْمَضْمَضَةِ".
طلق بن حبیب کہتے ہیں کہ دس باتیں فطرت (انبیاء کی سنتیں) ہیں: مسواک کرنا، مونچھ کترنا، ناخن کاٹنا، انگلیوں کے پوروں اور جوڑوں کو دھونا، ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مجھے شک ہے کہ کلی کرنا بھی کہا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   صحيح البخاري6297عبد الرحمن بن صخرالفطرة خمس الختان والاستحداد ونتف الإبط وقص الشارب
   صحيح البخاري5891عبد الرحمن بن صخرالفطرة خمس الختان والاستحداد وقص الشارب وتقليم الأظفار ونتف الآباط
   صحيح مسلم597عبد الرحمن بن صخرالفطرة خمس الختان والاستحداد وتقليم الأظفار
   صحيح مسلم598عبد الرحمن بن صخرالفطرة خمس الاختتان والاستحداد وقص الشارب وتقليم الأظفار ونتف الإبط
   جامع الترمذي2756عبد الرحمن بن صخرخمس من الفطرة الاستحداد والختان وقص الشارب ونتف الإبط وتقليم الأظفار
   سنن أبي داود4198عبد الرحمن بن صخرخمس من الفطرة الختان والاستحداد ونتف الإبط وتقليم الأظفار
   سنن النسائى الصغرى9عبد الرحمن بن صخرالفطرة خمس الاختتان والاستحداد وقص الشارب وتقليم الأظفار ونتف الإبط
   سنن النسائى الصغرى5044عبد الرحمن بن صخرخمس من الفطرة الختان وحلق العانة ونتف الضبع وتقليم الظفر
   سنن النسائى الصغرى5227عبد الرحمن بن صخرخمس من الفطرة قص الشارب ونتف الإبط وتقليم الأظفار والاستحداد والختان
   سنن النسائى الصغرى10عبد الرحمن بن صخرخمس من الفطرة قص الشارب ونتف الإبط وتقليم الأظفار والاستحداد والختان
   سنن النسائى الصغرى11عبد الرحمن بن صخرخمس من الفطرة الختان وحلق العانة ونتف الإبط وتقليم الأظفار
   سنن النسائى الصغرى5046عبد الرحمن بن صخرالفطرة تقليم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط وحلق العانة والختان
   سنن ابن ماجه292عبد الرحمن بن صخرالفطرة خمس الختان والاستحداد وتقليم الأظفار
   مسندالحميدي965عبد الرحمن بن صخر
   صحيح مسلم604عائشة بنت عبد اللهالفطرة قص الشارب وإعفاء اللحية والسواك واستنشاق الماء وقص الأظفار
   جامع الترمذي2757عائشة بنت عبد اللهالفطرة قص الشارب وإعفاء اللحية والسواك والاستنشاق وقص الأظفار
   سنن ابن ماجه293عائشة بنت عبد اللهالفطرة قص الشارب وإعفاء اللحية والسواك والاستنشاق بالماء وقص الأظفار وغسل البراجم ونتف الإبط وحلق العانة وانتقاص الماء يعني الاستنجاء
   سنن النسائى الصغرى5044عائشة بنت عبد اللهالفطرة قص الشارب وقص الأظفار وغسل البراجم وإعفاء اللحية والسواك
   سنن أبي داود53عائشة بنت عبد اللهعشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 4198  
´میت کے زیر ناف اور بغلوں کے بال اور ناخن`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْفِطْرَةُ خَمْسٌ أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: الْخِتَانُ وَالِاسْتِحْدَادُ وَنَتْفُ الْإِبِطِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ وَقَصُّ الشَّارِبِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: پانچ چیزیں فطرت ہیں یا فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال مونڈنا، بغل کا بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا اور مونچھ کاٹنا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب التَّرَجُّلِ: 4198]

فوائد و مسائل:
اگر کوئی شخص کسی شرعی عذر کی بنا پر یا سستی و کاہلی کی وجہ سے زیرناف بال نہ مونڈھ سکا اور اسے موت آ گئی تو زندہ لوگ اس کے زیرناف بال نہیں مونڈھیں گے، کیونکہ اس عمل کی کوئی شرعی دلیل نہیں، نیز یہ عمل زندہ لوگوں کے لیے باعث ضرر ہے جبکہ میت کو اس کا کوئی فائدہ نہیں، جیسا کہ:

◈ امام ابن منذر رحمہ اللہ (242-391 ھ) لکھتے ہیں:
«الوقوف عن أخذ ذلك أحب إلي، لأنه المأمور بأخذ ذلك من نفسه الحي، فإذا مات انقطع الامر.»
میت کے زیرناف بالوں کو مونڈھنے سے باز رہنا ہی میرے نزدیک بہتر ہے کہ کیونکہ مرنے والے کو اپنی زندگی میں اس کام کا حکم دیا گیا تھا۔ جب اسے موت آ گئی تو یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ [الأوسط فى السنن والإجماع والاختلاف: 329/5]

◈ امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں روایت ہے کہ:
«انهٔ كان يکرهٔ أن يوخذ من عانة أؤ ظفر الميت.»
وہ میت کے زیر ناف بالوں کو مونڈھنا اور اس کے ناخنوں کو کاٹنا مکروہ جانتے تھے۔ [مصنف ابن أبى شيبة: 246، 245/3، وسنده صحيح]
↰ اس کے خلاف اسلاف امت سے کچھ ثابت نہیں۔

ایک روایت میں ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے میت کو غسل دیا اور استرا منگوایا۔ [مصنف ابن أبى شيبة: 246/3]
↰ لیکن اس کی سند مرسل ہونے کی بنا پر ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔

زیرناف بالوں کی طرح میت کے ناخن بھی اتارنا درست نہیں۔
◈ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:
«تقلم اظفار الميت» میت کے ناخن اتار دیے جائیں گے۔
↰ امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے یہ بات حماد رحمہ اللہ کے سامنے ذکر کی تو انہوں نے اس کا رد کیا اور فرمایا:
«أرأيت إن كان أقلف، أيختتن؟»
مجھے بتاؤ کہ اگر وہ مختون نہ ہو تو کیا اس کا ختنہ بھی کیا جائے گا؟ [مصنف ابن أبى شيبة: 246/3، وسنده صحيح]
↰ یعنی یہ سارے کام زندگی سے متعلق ہیں۔ اگر اس نے زندگی میں سستی کاہلی کی ہے تو اس کا گناہ لکھ دیا گیا ہے اور اگر کسی شرعی عذر کی بنا پر ایسا نہ کر سکا تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔ اب موت کے بعد کی صفائی پر کوئی جزا و سز انہیں۔

◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
«من الناس من يقول ذلك، ومنهم من يقول: إذا كان أقلف أيختتن؟، يعني: لا يفعل.»
بعض لوگ کہتے ہیں میت کے ناخن کاٹ دیے جائیں جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر وہ مختون ہو تو کیا اس کا ختنہ کیا جائے گا؟ یعنی ایسا کرنا درست نہیں۔ [مسائل الامام احمد لأبي داؤد: 246/3]
↰ جب غیر مختون کا موت کے بعد ختنہ کرنے کا کوئی بھی قائل نہیں تو ناخن اور بال کاٹنا بھی ناجائز ہی ہوا۔

الحاصل: میت کے زیر ناف بال مونڈھنا اور اس کے ناخن کاٹنا درست نہیں۔ یہ مردے کے لیے بے فائدہ اور زندوں کے لیے تکلیف دہ عمل ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 42، حدیث\صفحہ نمبر: 30   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6297  
´بوڑھا ہونے پر ختنہ کرنا اور بغل کے بال نوچنا`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْفِطْرَةُ خَمْسٌ: الْخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ چیزیں فطرت سے ہیں، ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال بنانا، بغل کے بال صاف کرنا، مونچھ چھوٹی کرانا اور ناخن کاٹنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ: 6297]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6297 کا باب: «بَابُ الْخِتَانِ بَعْدَ الْكِبَرِ وَنَتْفِ الإِبْطِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب چار احادیث پیش فرمائی ہیں، دو احادیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہیں اور دو احادیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہیں، ان چاروں احادیث کا باب سے مطابقت ہونا واضح ہے، کیوں کہ ان چاروں احادیث میں بغل کے بال اور ختنہ کا ذکر موجود ہے جو کہ ترجمۃ الباب سے مناسبت ہے، مگر ترجمۃ الباب پر ایک شدید قسم کا اشکال وارد ہوتا ہے کہ ختنہ کرنا اور بغل کے بال صاف کرنا ان کا تعلق کتاب الادب سے زیادہ قریب ہے لیکن کتاب الاستئذان سے اس باب کا کوئی تعلق نہیں ہے، تو پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کو کتاب الاستئذان میں کیوں درج فرمایا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حقیر اور ناچیز کہتا ہے کہ «كتاب الاستئذان» یہ مستقل کوئی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ «كتاب الأدب» ہی کا جزء ہے، کیوں کہ آداب میں استئذان بھی شامل ہے، اس بات کو اگر سمجھنا ہے تو کتاب الادب کی آخری حدیث اور کتاب الاستئذان کے پہلی حدیث کو دیکھیں، ان دونوں کا تعلق دعا کے ساتھ ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو تسلسل کتاب الادب میں تھا اسی تسلسل کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاستئذان میں جاری رکھا، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو کتاب کتاب الاستئذان قائم فرمایا دراصل یہ کتاب الادب ہی کا جزء ہے، مستقل کوئی کتاب نہیں، اسی وجہ سے وہ باب جس پر ہماری گفتگو جاری ہے کہ «باب الختان بعد الكبر و نتف الإبط» کا تعلق «كتاب الاستئذان» سے ہے تو یہ باب بھی کتاب الادب ہی کا حصہ ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے «الاستئذان» میں شامل فرمایا، مزید ترجمۃ الباب کا کتاب سے کیا ربط ہے تو اس ربط کی نشاندہی کرتے ہوئے علامہ کرمانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجه مناسبة هذه الترجمة بكتاب الاستئذان أن الختان يستدعي الاجتماع فى المنازل غالبًا.» (1)
یعنی باب کی کتاب سے مناسبت یہ ہے کہ ختنے کی تقریب میں لوگ جمع ہوتے ہیں تو استئذان کی ضرورت پڑتی ہے، اسی لیے اس باب کو کتاب الاستئذان میں لائے۔
یعنی «كتاب الاستئذان، كتاب الأدب» ہی کا جزء ہے، یہی اس باب کی مناسبت ہے، کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «كتاب الأدب» میں جو تراجم الالباب قائم فرمائے، ان میں آداب، البر، الصلۃ، اپنے نفسوں کے حقوق، صحبت کے معاملات اور آداب کہ کسی کے ہاں جائیں تو کس طرح کے آداب ہونے چاہئیں اور کس طرح کے معاملات کرنے ضروری ہیں، اس کے فورا بعد «كتاب الاستئذان» کی ابتداء فرمائی اور پہلا باب «باب السلام» قائم فرمایا کہ کسی کے ہاں جانے کے لیے ان سے سلام کے ذریعے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی جائے، چنانچہ اس نقطے کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابی حفص البلقینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فلما تحت تراجم الآداب وما فيها من البر و الصلة، و كان ذالك مما يتعلق بالآداب فى انفسنا، و فى الصحبة، و الخلطة، وما يتعلق بذالك، أورده بما يتعلق بآداب من جاء إلى قوم أو دار غيره، كيف يصنع؟ فقال كتاب الاستئذان: ثم باب بدء السلام، ثم باب قول الله تعالى: ﴿لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ﴾ (1)
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 204   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 9  
´ختنہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فطری (پیدائشی) سنتیں پانچ ہیں، ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال صاف کرنا، مونچھ کترنا، ناخن تراشنا، اور بغل کے بال اکھیڑنا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 9]
9۔ اردو حاشیہ:
➊ ان امور کو فطرت قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ انسان کی فطرت سلیمہ ان چیزوں کا تقاضا کرتی ہے۔ دین اسلام کو بھی اسی لیے فطرت کہا گیا ہے کہ وہ انسانی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
➋ ان امور کو فطرت قرار دینے کی یہ وجہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے ہر نبی اور رسول کو ان امور کا حکم دیا، گویا یہ احکام ایسے فطری اور جبلی ہیں کہ ان پر انسانوں کی پیدائش ہوئی۔ فطرت کے معنی پیدائش ہیں۔
➌ ختنے کو فطری امور میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ ختنہ نہ کرانے کی صورت میں قلفہ (حشفے پر زائد چمڑا) طہارت میں مانع بن سکتا ہے، پیشاب کے قطرے اس میں اٹک سکتے ہیں اور جماع کے بعد حشفہ کی صفائی نہ ہو سکے گی۔ طہارت سے قطع نظر قلفہ جراثیم کی آماجگاہ بھی بن سکتا ہے، لہٰذا قلفے کو کاٹ دینا عقلی اور فطری تقاضا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 9   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 10  
´ناخن کاٹنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: مونچھ کترنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا، زیر ناف کے بال صاف کرنا، اور ختنہ کرنا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 10]
10۔ اردو حاشیہ:
➊ ناخن تراشنے کو فطری امور میں اس لیے داخل کیا گیا ہے کہ ناخن نجاست اور میل کچیل کو جمع رکھنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، جو طہارت سے مانع ہے، نیز دیکھنے میں بھی برے لگتے ہیں اور حیوانات کے ساتھ تشبیہ ہوتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [التین /4: 95]
یقیناًً ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرمایا ہے۔ زیادہ بڑے ناخن کسی کو یا اپنے آپ کو زخمی کرسکتے ہیں، اس لیے فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے کہ زائد ناخن تراش دیے جائیں۔
➋ انسانیت کے ابتدائی دور میں جب آلات ایجاد نہ ہوئے تھے، ناخن ذبح وغیرہ کے کام آتے تھے۔ اب آلات کی موجودگی میں اس استعمال کی نہ صرف ضرورت باقی نہیں رہی بلکہ یہ قبیح اور ممنوع بھی ہے، اسی لیے ناخن اور دانت سے ذبح کرنے کو شریعت اسلامیہ نے ناجائز قرار دیا ہے۔ [صحيح البخاري، الشركة، حديث: 2488، وصحيح مسلم، الأضاحي، حديث: 1968]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 10   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 11  
´بغل کے بال اکھیڑنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال مونڈنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا، اور مونچھ کے بال لینا (یعنی کاٹنا)۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 11]
11۔ اردو حاشیہ:
➊ بغلوں کے بال گلٹیوں کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں۔ انہیں گرم رکھتے ہیں مگر چونکہ کام کاج کے دوران میں بازو ننگے ہو جاتے ہیں، بغلیں نظر آتی ہیں جس سے بغلوں کے بال قبیح محسوس ہوں گے، نیز ان میں میل کچیل بھی جمع ہو جاتا ہے۔ پسینہ زیادہ آتا ہے اور بال صفائی سے مانع ہوں گے، اس لیے انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ بغلوں کو بالوں سے صاف رکھا جائے۔
➋ احادیث میں بغلوں کے بال مونڈنے کی بجائے اکھاڑنے کا ذکر ہے، یہ اس لیے کہ مونڈنے سے بال زیادہ اور موٹے ہو جاتے ہیں جب کہ اکھاڑنے سے بال کم اور باریک ہو جاتے ہیں۔ ان میں نرمی رہتی ہے، چبھتے نہیں۔ پسینے اور بدبو میں کمی ہوتی ہے، نیز بغل کے بال اکھاڑنے سے تکلیف بھی نہیں ہوتی، لہٰذا انہیں مونڈنے کی بجائے اکھیڑنا بہتر ہے، البتہ اگر کوئی شخص بال اکھیڑنے سے تکلیف محسوس کرے تو مونڈ بھی سکتا ہے کیوکہ اصل مقصد تو بالوں کی صفائی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 11   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 53  
´مسواک دین فطرت ہے`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس چیزیں دین فطرت ہیں: مونچھیں کاٹنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 53]
فوائد و مسائل:
مذکورہ بالا امور انسان کے پیدائشی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے انہیں سنن فطرت کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ سنتیں جو جسم انسانی کے خط و خال سے تعلق رکھتی ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت کریمہ «وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ» [2-البقرة:124] میں (اللہ تعالیٰ) نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دس باتوں کاحکم دیا۔ جب وہ ان پر عمل پیرا ہوئے تو فرمایا: «إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ» [2-البقرة:124] میں تجھے لوگوں کا امام و مقتدا بناؤں گا۔ تاکہ تیری اقتداء کی جائے اور لوگ تیرے نقش قدم پر چلیں۔ چنانچہ یہ امت محمدیہ خصوصی اعتبار سے ان کی پیروی کی پابند ہے، جس کا آیت «ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا» [16-النحل:123] میں ذکر ہے۔ پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ دین ابراہیم کی پیروی کریں جو کہ دیگر تمام دینوں سے منہ پھیرے ہوئے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 53   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4198  
´مونچھیں کتروانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: پانچ چیزیں فطرت ہیں یا فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال مونڈنا، بغل کا بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا اور مونچھ کاٹنا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4198]
فوائد ومسائل:
1) امورِ فطرت یعنی وہ اعمال جن کا اختیار کرنا اس قدر اہم ہے گو یا وہ جبلی اورخلقی امور ہوں۔
نیز تمام انبیائے کرام ؐ نے بھی ان کا التزام کیا ہے، جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔

2) صحیح مسلم کی ایک روایت میں دس امور کا ذکر ہے۔
جو یہ ہیں: مو نچھیں کتروانا، داڑھی بڑھا نا، مسواک کرنا، ناک میں پانی دینا، ناخن تراشنا، جو ڑوں کا دھونا، بغلوں کے بال اُکھیڑنا، زیرِناف کی صفائی کرنا، استنجا کرنا اور کلی کرنا۔
 (صحیح مسلم، الطھاة، حدیث: 261) 
3) ان سب امور کا اختیار کرنا واجب ہے اور یہ اسلامی شرعی شعار بھی ہیں۔
اور اللہ عزوجل کا حکم ہے، دین میں پو رے پو رے داخل ہو جاؤ۔
(البقرة: 208) کچھ احکام کو مان لینا اور کچھ کو چھوڑ دینا اہلِ ایمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔
ان امور میں تقصیر کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

4) زیرِ ناف کے لیئے اُسترا استعمال کرنا اور بغلوں کے بالوں کو نوچنا ہی سنت ہے۔
اگرچہ دوسرے طریقوں سے بھی یہ عمل ہو سکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4198   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث292  
´امور فطرت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ چیزیں فطرت ہیں ۱؎، یا پانچ باتیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرانا، ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھیڑنا، مونچھوں کے بال تراشنا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 292]
اردو حاشہ:
(1)
فطرت اس سے مراد دین فطرت کے وہ امور ہیں جو تمام انبیائےکرام ؑ کی سنت ہیں اور تمام انبیاء ؑ  کی شریعتوں میں ان پر عمل ہوتا رہا ہے۔
اس سے ان اعمال کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
ان پانچوں کا تعلق انسان کی ظاہری صفائی سے ہےاور جب شریعت ان کا حکم دے تو حکم کی تعمیل سے باطنی طہارت میں بھی اضافہ ہوگا۔

(2)
  ختنہ اس سے مراد ہے مرد کے عضو خاص سے ابتدائی حصے پر موجود پردے کو کاٹ دینا حتی کہ حشفہ (عضو کا ابتدائی حصہ)
ظاہر ہوجائے۔
طبی نقطہ نظر سے بھی یہ عمل بہت مفید ہے کیونکہ اس پردے کے اندر میل کچیل جمع ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور اس کی صفائی پر عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی۔
اس کے علاوہ اس کے اندر پیشاب کے قطرات رہ جاتے ہیں جن کی وجہ سے جسم اور کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں۔
بائبل میں بھی ختنہ کو ایک دائمی شرعی حکم قرار دیا گیا ہے جو کبھی منسوخ نہیں ہوگا۔ (دیکھیے: کتاب پیدائش باب: 17 فقرات: 9 تا 14)
اسی لیے یہودی ختنہ کرتے ہیں۔
عہد جدید کے بیان کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی ختنہ کیا گیا تھا۔ (دیکھیے: انجیل لوقا باب: 2 فقرہ: 21)

(3)
استحداد  (لوہا استعمال کرنا)
اس سے مراد اعضائے مخصوصہ کے ارد گرد اُگے ہوئے بالوں کو دور کرنا ہے، خواہ لوہے کی بنی ہوئی کسی چیز (استرے وغیرہ)
سے ہو یا اس مقصد کے لیے تیار شدہ پاؤڈر یا کریم وغیرہ سے ہو۔

(4)
  بغلوں کے بال اکھاڑنا ہی مسنون ہے۔
اکھاڑنے کے بعد دوبارہ صفائی کی ضرورت کافی دیر بعد ہوتی ہے البتہ مونڈنے سے بھی صفائی کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔

(5)
ناخن بڑھ جائیں تو ان میں میل کچیل جمع ہوجاتا ہے، اس لیے صفائی کا تقاضہ بھی ہے کہ انھیں کاٹ دیا جائے۔
فیشن کے طور پر ناخن بڑھا لینا خلاف فطرت بھی ہے اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔
جس سے نقصان اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نیز ناخن کاٹنے سے انسان اور حیوان میں قدرتی فرق برقرار رہتا ہے۔

(5)
مونچھیں بڑھانا عجمی غیر مسلموں کا رواج تھا۔
ان کو دیکھ کر عربوں نے بھی یہ طریقہ اختیار کرلیا۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں کاٹنے اور خوب پست کرنے کا حکم دیا۔
یہ پانچوں امور نظافت وطہارت سے تعلق رکھتے ہیں اور نظافت وطہارت تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں میں مطلوب اور مستحسن رہی ہے۔
میلا کچیلا یا ناپاک رہنا غیر مسلموں، مثلاً:
ہندو جوگیوں یا عیسائی راہبوں کا طریقہ ہے اور ان کی خود ساختہ پابندیاں ہیں۔
جن کا کسی آسمانی شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔

(6)
صفائی اور طہارت کے ان تمام افعال میں دائیں جانب سے شروع کرنا مسنون ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نبی اکرم ﷺ جوتا پہننے میں، کنگھی کرنے میں، پاکیزگی حاصل کرنے میں (وضو اور غسل میں)
اورہرکام میں دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے۔ (صحيح البخاري، الوضوء، باب التيمن في الوضوء والغسل، حديث: 168، وصحیح مسلم، الطھارہ، باب التیمن فی الطھور وغیرہ، حدیث: 268)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 292   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث293  
´امور فطرت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس چیزیں فطرت میں سے ہیں: مونچھوں کے بال تراشنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، موئے زیر ناف صاف کرنا، اور پانی سے استنجاء کرنا۔‏‏‏‏ زکریا نے کہا کہ مصعب کہتے ہیں: میں دسویں چیز بھول گیا، ہو سکتا ہے وہ کلی کرنا ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 293]
اردو حاشہ:
(1)
داڑھی بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کاٹا نہ جائے جس طرح مونچھوں کے بال کاٹ لیے جاتے ہیں۔
داڑھی منڈوانا حرام ہے اور منڈوانے والا فاسق ہےکیونکہ وہ ان احادیث کی مخالفت کرتا ہے جن میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(خَالِفُوا الْمُشْرِكِيْنَ وَوَفِّرُوْا اللِّحٰي وَاحْفُوا الشَّوَارِبَ) (صحيح البخاري، اللباس، باب تقليم الاظفار، حديث: 5892، وصحيح مسلم، الطهارة، باب خصال الفطرة، حديث: 259)
 مشرکوں کی مخالفت کرو ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کترواؤ۔
اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَارْخُوا اللِّحٰي وَخَالِفُوا الْمَجُوسَ)
صحيح مسلم، الطهاره، باب خصال الفطرة، حديث: 260)
 مونچھوں کو کترواؤ ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔
داڑھی منڈوانے پر اصرار کرنا کبیرہ گناہ ہے جو شخص مندوائے اسے نصیحت کرنا اور ڈاڑھی منڈوانے سے منع کرنا واجب ہے اگر ایسا کوئی شخص قیادت یا کسی دینی مرکز میں ہوتو اسے اور بھی زیادہ تاکید کے ساتھ سمجھانا ضروری ہے۔
علاوہ ازیں احادیث میں مونچھوں کی کانٹ تراش کے لیے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں ایک ہے احفاء جس کے معنی خوب اچھی طرح مونڈنا ہیں اور دوسرا ہے قص جس کے معنی قینچی وغیرہ سے کاٹنے کے ہیں لہٰذا اس مسئلہ میں شرعاً دونوں طرح اختیار ہے، لہذا ہماری رائے میں یہ کہنا جائز نہیں کہ مونچھوں کو خوب اچھی مونڈنا مثلہ یا بدعت ہےکیونکہ ایسا کہنا مذکورہ نص کے خلاف ہےاور رسول اللہ ﷺکی سنت صحیحہ کی موجودگی میں کسی کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

(2)
انگلیوں کے جوڑوں میں میل کچیل جمع ہوجاتا ہے اس لیے وضو اور غسل کے موقع پر ان مقامات کو زیادہ توجہ سے صاف کرنا چاہیے اسی طرح جسم کے وہ حصے جہاں میل کچیل جمع ہوجانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے غسل کے دوران میں ان کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے ویسے بھی اگر ان مقامات کی طرف توجہ نہ دی جائے تو بعض اوقات وہاں پانی نہیں پہنچ پاتا اور غسل نہیں ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 293   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2756  
´ناخن کاٹنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ۱؎، (۱) شرمگاہ کے بال مونڈنا، (۲) ختنہ کرنا، (۳) مونچھیں کترنا، (۴) بغل کے بال اکھیڑنا، (۵) ناخن تراشنا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2756]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی انبیاء کی وہ سنتیں ہیں جن کی اقتداء کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
یہ ساری شریعتوں میں تھیں،
کیونکہ یہ فطرتِ انسانی کے اندر داخل ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2756   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2757  
´ناخن کاٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس ۱؎ چیزیں فطرت سے ہیں (۱) مونچھیں کترنا (۲) ڈاڑھی بڑھانا (۳) مسواک کرنا (۴) ناک میں پانی ڈالنا (۵) ناخن کاٹنا (۶) انگلیوں کے جوڑوں کی پشت دھونا (۶) بغل کے بال اکھیڑنا (۸) ناف سے نیچے کے بال مونڈنا (۹) پانی سے استنجاء کرنا، زکریا (راوی) کہتے ہیں کہ مصعب نے کہا: دسویں چیز میں بھول گیا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کلی کرنا ہو، «انتقاص الماء» سے مراد پانی سے استنجاء کرنا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2757]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
پچھلی حدیث میں پانچ کا ذکر ہے،
اوراس میں دس کا،
دونوں میں کوئی تضاد نہیں،
پانچ دس میں داخل ہیں،
یا پہلے آپﷺ کو پانچ کے بارے میں بتایا گیا،
بعد میں دس کے بارے میں بتایا گیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2757   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.