تخریج: «أخرجه البخاري، المكاتب، باب ما يجوز من شروط المكاتب، حديث:2561، ومسلم، العتق، باب إنما الولاء لمن أعتق، حديث:1504.»
تشریح:
اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں: مثلاً: 1.غلام اور اس کے مالک و آقا کے درمیان متعین رقم اور مقرر مدت کی صورت میں مکاتبت جائز ہے۔
2.اگر کوئی دوسرا شخص غلام کی طے شدہ رقم ادا کر دے اور اسے آزادی دے دے تو ایسا بھی جائز ہے۔
اس کے ترکہ و میراث کا حقدار یہ آزاد کرنے والا ہوگا۔
3.اگر غلام اپنی مکاتبت کی رقم ادا کرنے کے لیے کسی صاحب حیثیت سے سوال کرے تو یہ جائز ہے۔
4.مکاتبت کی رقم قسط وار ادا کی جا سکتی ہے۔
5. اگر مستحق آدمی سوال کرے تو اس کی مدد کرنی چاہیے۔
6. ناجائز شرط اگر عائد کرنے کی کوشش کی جائے تو اس شرط کی کوئی شرعی حیثیت نہیں‘ اعتبار صرف شرعی شرط کا ہوگا۔
7. اس حدیث سے باہمی مشورہ کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔
بیوی شوہر سے مشورہ طلب کرے تو شوہر کو صحیح مشورہ دینا چاہیے۔
8. جس مسئلے کا لوگوں کو علم نہ ہو وہ مسئلہ عوام کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔
مسئلہ کسی کا نام لے کر نہیں بلکہ عمومی صورت میں بیان کرنا چاہیے۔
9. عوام سے خطاب کرنے کے موقع پر سب سے پہلے خالق کائنات کی حمد و ثنا کرنی چاہیے‘ پھر اپنا مدعا و مقصد بیان کرنا چاہیے۔
10.کسی سے درخواست و استدعا کرنے کا بھی یہی اسلوب و انداز ہونا چاہیے۔
11.مکاتب لونڈی اور غلام کو فروخت کرنا جائز ہے۔
امام احمد و امام مالک رحمہما اللہ کا یہی مذہب ہے۔
وضاحت:
«حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا»
”با
“ پر فتحہ اور
”را
“ کے نیچے کسرہ ہے‘ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی اور مغیث‘ جو کہ آل ابو احمد بن جحش کے غلام تھے‘ کی بیوی تھی۔
جب یہ آزاد ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے خاوند مغیث
(جو کہ ابھی غلام ہی تھا) کو چھوڑ دیا تھا۔