الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
The Book of the Times (of Prayer)
20. بَابُ : مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ تَأْخِيرِ الْعِشَاءِ
20. باب: عشاء کو تاخیر سے پڑھنے کے استحباب کا بیان۔
Chapter: What Is Recommended Regarding Delaying Isha
حدیث نمبر: 532
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن الحسن، ويوسف بن سعيد، واللفظ له، قالا: حدثنا حجاج، عن ابن جريج، قال: قلت لعطاء: اي حين احب إليك ان اصلي العتمة إماما او خلوا؟ قال: سمعت ابن عباس، يقول: اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة بالعتمة حتى رقد الناس واستيقظوا ورقدوا واستيقظوا. فقام عمر، فقال: الصلاة الصلاة، قال عطاء: قال ابن عباس: خرج نبي الله صلى الله عليه وسلم كاني انظر إليه الآن يقطر راسه ماء واضعا يده على شق راسه، قال: واشار، فاستثبت عطاء كيف وضع النبي صلى الله عليه وسلم يده على راسه، فاوما إلي، كما اشار ابن عباس فبدد لي عطاء بين اصابعه بشيء من تبديد ثم وضعها فانتهى اطراف اصابعه إلى مقدم الراس، ثم ضمها يمر بها كذلك على الراس حتى مست إبهاماه طرف الاذن مما يلي الوجه ثم على الصدغ وناحية الجبين لا يقصر ولا يبطش شيئا إلا كذلك، ثم قال:" لولا ان اشق على امتي لامرتهم ان لا يصلوها إلا هكذا".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، وَيُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قال: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: أَيُّ حِينٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَنْ أُصَلِّيَ الْعَتَمَةَ إِمَامًا أَوْ خِلْوًا؟ قال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ بِالْعَتَمَةِ حَتَّى رَقَدَ النَّاسُ وَاسْتَيْقَظُوا وَرَقَدُوا وَاسْتَيْقَظُوا. فَقَامَ عُمَرُ، فَقَالَ: الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: خَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ الْآنَ يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى شِقِّ رَأْسِهِ، قَالَ: وَأَشَارَ، فَاسْتَثْبَتُّ عَطَاءً كَيْفَ وَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، فَأَوْمَأَ إِلَيَّ، كَمَا أَشَارَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَبَدَّدَ لِي عَطَاءٌ بَيْنَ أَصَابِعِهِ بِشَيْءٍ مِنْ تَبْدِيدٍ ثُمَّ وَضَعَهَا فَانْتَهَى أَطْرَافُ أَصَابِعِهِ إِلَى مُقَدَّمِ الرَّأْسِ، ثُمَّ ضَمَّهَا يَمُرُّ بِهَا كَذَلِكَ عَلَى الرَّأْسِ حَتَّى مَسَّتْ إِبْهَامَاهُ طَرَفَ الْأُذُنِ مِمَّا يَلِي الْوَجْهَ ثُمَّ عَلَى الصُّدْغِ وَنَاحِيَةِ الْجَبِينِ لَا يُقَصِّرُ وَلَا يَبْطُشُ شَيْئًا إِلَّا كَذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ لَا يُصَلُّوهَا إِلَّا هَكَذَا".
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا: عشاء کی امامت کرنے یا تنہا پڑھنے کے لیے کون سا وقت آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم کو کہتے سنا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء مؤخر کی یہاں تک کہ لوگ سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے (پھر) سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے، تو عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہنے لگے: صلاۃ! صلاۃ! تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے۔ گویا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور آپ اپنا ہاتھ سر کے ایک حصہ پر رکھے ہوئے تھے۔ راوی (ابن جریج) کہتے ہیں: میں نے عطاء سے جاننا چاہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر کیسے رکھا؟ تو انہوں نے مجھے اشارہ کے ذریعہ بتایا جیسا کہ ابن عباس نے انہیں اشارہ سے بتایا تھا، عطاء نے اپنی انگلیوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ کیا، پھر اسے رکھا یہاں تک کہ ان کی انگلیوں کے سرے سر کے اگلے حصہ تک پہنچ گئے، پھر انہیں ملا کر سر پر اس طرح گزارتے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں انگوٹھے کان کے کناروں کو جو چہرہ سے ملا ہوتا ہے چھو لیتے، پھر کنپٹی اور پیشانی کے کناروں پر پھیرتے، نہ دیر کرتے نہ جلدی سوائے اتنی تاخیر کے - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اپنی امت کے لیے دشوار نہیں سمجھتا تو انہیں حکم دیتا کہ وہ اسی قدر تاخیر سے عشاء پڑھیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 24 (571)، والتمنی 9 (7239)، صحیح مسلم/المساجد 39 (642)، (تحفة الأشراف: 5915)، مسند احمد 1/221، 366، سنن الدارمی/الصلاة 19 (1251) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري7239عبد الله بن عباسلولا أن أشق على أمتي أو على الناس
   صحيح مسلم1452عبد الله بن عباسلولا أن يشق على أمتي لأمرتهم أن يصلوها
   سنن النسائى الصغرى533عبد الله بن عباسإنه الوقت لولا أن أشق على أمتي
   سنن النسائى الصغرى532عبد الله بن عباسلولا أن أشق على أمتي لأمرتهم أن لا يصلوها إلا هكذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 532  
´عشاء کو تاخیر سے پڑھنے کے استحباب کا بیان۔`
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا: عشاء کی امامت کرنے یا تنہا پڑھنے کے لیے کون سا وقت آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم کو کہتے سنا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء مؤخر کی یہاں تک کہ لوگ سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے (پھر) سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے، تو عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہنے لگے: صلاۃ! صلاۃ! تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے۔ گویا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور آپ اپنا ہاتھ سر کے ایک حصہ پر رکھے ہوئے تھے۔ راوی (ابن جریج) کہتے ہیں: میں نے عطاء سے جاننا چاہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر کیسے رکھا؟ تو انہوں نے مجھے اشارہ کے ذریعہ بتایا جیسا کہ ابن عباس نے انہیں اشارہ سے بتایا تھا، عطاء نے اپنی انگلیوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ کیا، پھر اسے رکھا یہاں تک کہ ان کی انگلیوں کے سرے سر کے اگلے حصہ تک پہنچ گئے، پھر انہیں ملا کر سر پر اس طرح گزارتے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں انگوٹھے کان کے کناروں کو جو چہرہ سے ملا ہوتا ہے چھو لیتے، پھر کنپٹی اور پیشانی کے کناروں پر پھیرتے، نہ دیر کرتے نہ جلدی سوائے اتنی تاخیر کے - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اپنی امت کے لیے دشوار نہیں سمجھتا تو انہیں حکم دیتا کہ وہ اسی قدر تاخیر سے عشاء پڑھیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 532]
532 ۔ اردو حاشیہ:
لوگ سوگئے۔ اس سونے سے مراد وہ نیند ہے جس سے شعور اور ادراک ختم نہیں ہوتا جسے ہماری زبان میں اونگھ کہتے ہیں، یعنی سخت اونگھ آگئی، بیٹھے، کھڑے اور لیٹے تمام حالتوں میں یہ حالت طاری ہو سکتی ہے کیونکہ یہاں حقیقی نیند، جس سے ادراک اور انسانی شعور ختم ہو جاتا ہے، مراد لینا درست نہیں لگتا کیونکہ اس میں وضو ٹوٹ جاتا ہے، خواہ وہ جس حالت میں بھی آئی ہو۔
➋رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہا کر تشریف لائے تھے اور اپنے سر کے بالوں سے پانی نچوڑ رہے تھے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عطاء رحمہ اللہ نے اشارے سے سمجھایا اور تفصیل سے ہاتھ گزار کر واضح کیا۔ سر کے لمبے بالوں سے اسی طرح پانی نچوڑا جاتا ہے۔
اگر خطرہ نہ ہوتا معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقتدی حضرات کو تاخیر میں مشقت ہو تو نماز جلدی پڑھنا مستحب ہے ورنہ دیر سے پڑھنا اچھا ہو گا۔ نمازوں کے اوقات کی وسعت دراصل لوگوں کی مجبوریوں کے پیش نظر ہے۔ واللہ اعلم۔
➍سلف صالحین نمازوں کو ان کے اولیٰ اور افضل اوقات میں پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔
➎مفتی پر لازم ہے کہ اپنے فتوے کو قرآن و سنت کے دلائل سے مزین کرے اور سائل کے لیے ضروری ہے وہ جواب کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنے تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ کر کماحقہ آگے بیان کر سکے۔ (6)امت محمدیہ کی فضیلت ہے کہ نماز عشاء کو صرف اس امت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جیسا کہ سنن ابوداود کی روایت میں ہے: «فإنکم قد فضلتم بھا علی سائر الامم ولم تصلھا امة قبلکم» یقیناًً تمہیں اس نماز (عشاء) کے ذریعے سے تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے، تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ [سنن أبی داود، الصلاة، حدیث: 421]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 532   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.