الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: کھانوں کے بیان میں
The Book of Foods (Meals)
27. بَابُ مَا كَانَ السَّلَفُ يَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِهِمْ وَأَسْفَارِهِمْ مِنَ الطَّعَامِ وَاللَّحْمِ وَغَيْرِهِ:
27. باب: سلف صالحین اپنے گھروں میں اور سفروں میں جس طرح کا کھانا میسر ہوتا اور گوشت وغیرہ محفوظ رکھ لیا کرتے تھے۔
(27) Chapter. What our predecessors used to store of food, meat, etc., in their houses and carry with them while on a journey.
حدیث نمبر: Q5423
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقالت عائشة واسماء:" صنعنا للنبي صلى الله عليه وسلم وابي بكر سفرة".وَقَالَتْ عَائِشَةُ وَأَسْمَاءُ:" صَنَعْنَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأَبِي بَكْرٍ سُفْرَةً".
اور عائشہ رضی اللہ عنہما اور اسماء رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے (مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے سفر ہجرت کے لیے) توشہ تیار کیا تھا (جسے ایک دستر خوان میں باندھ دیا گیا تھا)۔

حدیث نمبر: 5423
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا خلاد بن يحيى، حدثنا سفيان، عن عبد الرحمن بن عابس، عن ابيه، قال: قلت لعائشة:" انهى النبي صلى الله عليه وسلم ان تؤكل لحوم الاضاحي فوق ثلاث؟ قالت: ما فعله إلا في عام جاع الناس فيه، فاراد ان يطعم الغني الفقير، وإن كنا لنرفع الكراع فناكله بعد خمس عشرة، قيل: ما اضطركم إليه؟ فضحكت، قالت: ما شبع آل محمد صلى الله عليه وسلم من خبز بر مادوم ثلاثة ايام حتى لحق بالله". وقال ابن كثير، اخبرنا سفيان، حدثنا عبد الرحمن بن عابس بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ:" أَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُؤْكَلَ لُحُومُ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ؟ قَالَتْ: مَا فَعَلَهُ إِلَّا فِي عَامٍ جَاعَ النَّاسُ فِيهِ، فَأَرَادَ أَنْ يُطْعِمَ الْغَنِيُّ الْفَقِيرَ، وَإِنْ كُنَّا لَنَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَنَأْكُلُهُ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ، قِيلَ: مَا اضْطَرَّكُمْ إِلَيْهِ؟ فَضَحِكَتْ، قَالَتْ: مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ". وَقَالَ ابْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ بِهَذَا.
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ صرف ایک سال اس کا حکم دیا تھا جس سال قحط پڑا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا تھا (اس حکم کے ذریعہ) کہ جو مال والے ہیں وہ (گوشت محفوظ کرنے کے بجائے) محتاجوں کو کھلا دیں اور ہم بکری کے پائے محفوظ رکھ لیتے تھے اور اسے پندرہ پندرہ دن بعد کھاتے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کرنے کے لیے کیا مجبوری تھی؟ اس پر ام المؤمنین رضی اللہ عنہا ہنس پڑیں اور فرمایا آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر کبھی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے۔ اور ابن کثیر نے بیان کیا کہ ہمیں سفیان نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی۔

Narrated `Abis: I asked `Aisha "Did the Prophet forbid eating the meat of sacrifices offered on `Id-ul-Adha for more than three days" She said, "The Prophet did not do this except in the year when the people were hungry, so he wanted the rich to feed the poor. But later we used to store even a trotter of a sheep to eat it fifteen days later." She was asked, "What compelled you to do so?" She smiled and said, "The family of Muhammad did not eat to their satisfaction white bread with meat soup for three successive days till he met Allah."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 65, Number 334


   صحيح البخاري5423عائشة بنت عبد اللهتؤكل لحوم الأضاحي فوق ثلاث ما شبع آل محمد من خبز بر مأدوم ثلاثة أيام حتى لحق بالله
   صحيح البخاري5570عائشة بنت عبد اللهلا تأكلوا إلا ثلاثة أيام
   صحيح مسلم5103عائشة بنت عبد اللهعن أكل لحوم الضحايا بعد ثلاث
   سنن أبي داود2812عائشة بنت عبد اللهنهيت عن إمساك لحوم الضحايا بعد ثلاث نهيتكم من أجل الدافة التي دفت عليكم كلوا وتصدقوا وادخروا
   سنن النسائى الصغرى4436عائشة بنت عبد اللهنهيت للدافة التي دفت كلوا وادخروا وتصدقوا
   سنن ابن ماجه3159عائشة بنت عبد اللهعن لحوم الأضاحي لجهد الناس ثم رخص فيها
   سنن ابن ماجه1570عائشة بنت عبد اللهرخص في زيارة القبور
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم349عائشة بنت عبد الله نهى رسول الله عن اكل لحوم الضحايا بعد ثلاث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 349  
´قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھایا جا سکتا ہے`
«. . . 309- وعن عبد الله بن أبى بكر عن عبد الله بن واقد أنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أكل لحوم الضحايا بعد ثلاث، فقال عبد الله بن أبى بكر: فذكرت ذلك لعمرة بنت عبد الرحمن فقالت: صدق، سمعت عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم تقول: دف ناس من أهل البادية حضرة الأضحى فى زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ادخروا الثلاث وتصدقوا بما بقي، قالت: فلما كان بعد ذلك، قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، لقد كان الناس ينتفعون بضحاياهم ويجملون منها الودك ويتخذون منها الأسقية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وما ذاك؟، أو كما قال، قالوا: يا رسول الله، نهيت عن إمساك لحوم الضحايا بعد ثلاث، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما نهيتكم من أجل الدافة التى دفت عليكم، فكلوا وتصدقوا وادخروا. . . .»
. . . عبداللہ بن واقد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع فرمایا، عبداللہ بن ابی بکر (راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ پھر میں نے اس بات کا ذکر عمرہ بنت عبدالرحمٰن (رحمہا اللہ) سے کیا تو انہوں نے کہا: اُس (عبداللہ بن واقد) نے سچ کہا:، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کے وقت کچھ (خانہ بدوش) لوگ مدینہ آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دن (گوشت کا) ذخیرہ کرو اور باقی صدقہ کر دو۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: یا رسول اللہ! لوگ اپنی قربانیوں سے فائدہ اٹھاتے تھے، چربی پگھلاتے اور (کھالوں کی) مشکیں بناتے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے تین دنوں سے زیادہ قربانیوں کا گوشت روکے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں ان لوگوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو تمہارے پاس (مدینہ میں) آئے تھے۔ پس (اب) کھاؤ، صدقہ کرو اور ذخیرہ کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 349]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1971، من حديث مالك به ● وفي روايته يحيي بن يحيي: للثلاث]
۔ تفقه
➊ علماء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ تین دنوں سے زیادہ، قربانی کا گوشت کھانے اور ذخیر کرنے سے ممانعت والا حکم منسوخ ہے دیکھئے [التمهيد 216/3] ۔
➋ حافظ ابن عبد البر نے فرمایا کہ جس طرح قرآن میں ناسخ و منسوخ ہے اسی طرح حدیث میں بھی ناسخ و منسوخ ہے اور یہ اوامر ونواہی (احکام) میں تخفیف و مصالح وغیرہما کے لئے ہوتا ہے۔ اخبار سابقہ میں قطعاً نسخ نہیں ہوتا۔ روافض اور خوارج نے اس کا انکار کرکے یہود کی موافقت کی ہے اور یاد رہے کہ یہ بدأ کہتے ہیں یہ عقیدہ صریحاً کفر ہے۔
➌ ممانعت کے بعد جو حکم ہوتا ہے وہ اباحت پر محمول ہوتا ہے۔ [التمهيد 217/3]
لہٰذا اب یہ جائز ہے کہ ساری قربانی کا گوشت خود کھایا جائے یا سارا صدقہ کر دیا جائے یا پھر ذخیرہ کرلیا جائے۔ بعض علماء اس گوشت کے تین حصے کرنا پسند کرتے تے: ایک تہائی خود کھایا جائے، ایک تہائی صدقہ کردیا جائے اور ایک تہائی ذخیرہ کرلیا جائے لیکن پہلی بات راجح ہے۔ نیز دیکھئے [سورة الحج: 28، 36]
➍ حج کے علاہ دوسرے مقامات مثلاً مدینہ اور ساری زمین پر قربانی کرنا مسنون و مشروع ہے لہٰذ بعض منکرین حدیث کا یہ دعویٰ کہ قربانی حج کے ساتھ مخصوص ہے، غلط ہے۔
➎ بات کی تصدیق یا تحقیق کے لئے کسی دوسرے کے سامنے بیان کرنا نہ صرف جائز بلکہ بہتر امر ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 309   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1570  
´قبروں کی زیارت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کی اجازت دی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1570]
اردو حاشہ:
فائده:
اجازت کا لفظ اسی لئے فرمایا ہے۔
کیونکہ نبی کریم ﷺ نے پہلے قبروں کی زیارت سے منع فرمایا تھا بعد میں اجازت دے دی جیسے کہ اگلی حدیث میں آرہا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1570   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5423  
5423. سیدنا عابس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا: صرف ایک سال منع تھا جس سال لوگ (قحط کے سبب) بھوکے تھے۔ آپ ﷺ نے ارادہ کیا کہ مال دار لوگ غریبوں کو گوشت کھلا دیں۔ ہم پائے رکھ لیتے تھے اور انہیں پندرہ دن کے بعد کھاتے تھے ان سے دریافت کیا گیا ایسا کرنے میں کیا مجبوری تھی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سوال پر ہنس پڑیں اور فرمایا کہ سیدنا محمد ﷺ کی آل اولاد نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی مسلسل تین دن تک کبھی نہیں کھائی تھی حتیٰ کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے۔ ابن کثیر نے کہا: ہمیں سفیان نے بتایا کہ ان سے عبدالرحمن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5423]
حدیث حاشیہ:
اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ غرض ہے کہ سفیان کا سماع عبدالرحمن سے ثابت ہو جائے۔
ابن کثیر کی روایت کو طبرانی نے وصل کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5423   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5423  
5423. سیدنا عابس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا: صرف ایک سال منع تھا جس سال لوگ (قحط کے سبب) بھوکے تھے۔ آپ ﷺ نے ارادہ کیا کہ مال دار لوگ غریبوں کو گوشت کھلا دیں۔ ہم پائے رکھ لیتے تھے اور انہیں پندرہ دن کے بعد کھاتے تھے ان سے دریافت کیا گیا ایسا کرنے میں کیا مجبوری تھی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سوال پر ہنس پڑیں اور فرمایا کہ سیدنا محمد ﷺ کی آل اولاد نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی مسلسل تین دن تک کبھی نہیں کھائی تھی حتیٰ کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے۔ ابن کثیر نے کہا: ہمیں سفیان نے بتایا کہ ان سے عبدالرحمن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5423]
حدیث حاشیہ:
(1)
طعام سے ہر وہ چیز مراد ہے جو کھائی جاتی ہو۔
اس حدیث میں پائے ذخیرہ کرنے کا بیان ہے۔
(2)
عنوان سے مناسبت واضح ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ تھا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا تاکہ مال دار لوگ غرباء و مساکین کو گوشت کھلائیں۔
اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا۔
(3)
سائل کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہنس پڑنا بطور تعجب تھا کہ آل رسول کی معیشت میں وسعت نہ تھی اور کئی کئی روز فاقے سے گزر جاتے تو مجبوری کا سبب دریافت باعث تعجب ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5423   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.