الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
معاشرتی آداب کا بیان
8. باب كَرَاهَةِ قَوْلِ الْمُسْتَأْذِنِ أَنَا. إِذَا قِيلَ مَنْ هَذَا:
8. باب: جب کوئی باہر سے پکارے اور اندر سے پوچھیں کون ہے تو اس کے جواب میں اپنا نام لے، میں ہوں کہنا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 5635
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن شعبة ، عن محمد بن المنكدر ، عن جابر بن عبد الله ، قال: " اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فدعوت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " من هذا؟ "، قلت: انا، قال: فخرج، وهو يقول: انا انا ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قال: " أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَوْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ هَذَا؟ "، قُلْتُ: أَنَا، قَالَ: فَخَرَجَ، وَهُوَ يَقُولُ: أَنَا أَنَا ".
عبد اللہ بن ادریس نے شبعہ سے انھوں نے محمد بن منکدر سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہوا اور آواز دی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کون ہے"؟میں نے کہا: میں۔آپ باہر تشریف لا ئے اور آپ فرما رہے تھے َ"میں، میں (کیسا جواب ہے؟)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آیا اور آواز دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا، میں ہوں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے نکلے میں ہوں، میں ہوں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2155

   صحيح البخاري6250جابر بن عبد اللهمن ذا فقلت أنا فقال أنا أنا كأنه كرهها
   صحيح مسلم5635جابر بن عبد اللهمن هذا قلت أنا قال فخرج وهو يقول أنا أنا
   صحيح مسلم5636جابر بن عبد اللهمن هذا فقلت أنا فقال النبي أنا أنا
   جامع الترمذي2711جابر بن عبد اللهمن هذا فقلت أنا فقال أنا أنا كأنه كره ذلك
   سنن أبي داود5187جابر بن عبد اللهمن هذا قلت أنا قال أنا أنا كأنه كرهه
   سنن ابن ماجه3709جابر بن عبد اللهمن هذا فقلت أنا فقال النبي أنا أنا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3709  
´(گھر کے اندر داخل ہونے کے لیے) اجازت لینے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی تو آپ نے (مکان کے اندر سے) پوچھا: کون ہو؟ میں نے عرض کیا: میں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں، میں کیا؟ (نام لو)۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3709]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
اجازت طلب کرنے والے سے پوچھا جائےکون ہے؟ تو جواب میں اپنا نام یا لقب اور کنیت وغیرہ (جو چیز زیادہ معروف ہو)
بتانا چاہیے۔

(2)
نبی ﷺ کا میں میں فرمانا صحابی کے جواب پر ناپسندیدگی کا اظہار تھا یعنی یہ طریقہ درست نہیں۔

(3)
  دروازہ کھٹکھٹانا یا گھنٹی بجانا بھی اجازت طلب کرنے کے مفہوم میں داخل ہے۔
جب کوئی دروازے پر آ کر نام پوچھے تو سلام کر کے گفتگو کی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3709   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2711  
´گھر میں داخلہ کی اجازت لینے سے پہلے سلام کرنا (کیسا ہے؟)۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک قرض کے سلسلے میں جو میرے والد کے ذمہ تھا کچھ بات کرنے کے لیے آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو آپ نے کہا: کون ہے؟۔‏‏‏‏ میں نے کہا: میں ہوں، آپ نے فرمایا: میں میں (کیا ہے؟) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2711]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ اجازت طلب کرتے وقت اگر گھر والے یہ جاننا چاہیں کہ آنے والا کون ہے تو میں کہنے کے بجائے اپنا نام اور اگر کنیت سے مشہور ہے تو کنیت بتلائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2711   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5187  
´دستک دے کر اجازت لینا۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے قرضے کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، تو میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ نے پوچھا: کون ہے؟ میں نے کہا: میں ہوں آپ نے فرمایا: میں، میں (کیا؟) گویا کہ آپ نے (اس طرح غیر واضح جواب دینے) کو برا جانا۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5187]
فوائد ومسائل:

دروازہ کھٹکھٹانا بھی اجازت طلب کرنے کے معنٰی میں ہے اور صحیح ہے اور پھر کسی کے سامنے آنے پر السلام علیکم کہے۔


دستک کے جواب میں دستک دینے والے آدمی کو اپنا نام یا عرف بتانا چاہیےمیں میں کہنا خلاف ادب ہے اور ناکافی تعارف ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5187   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5635  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
جب کوئی شخص اجازت طلب کرے اور اہل خانہ پوچھیں،
تم کون ہو؟ تو جواب میں،
میں ہوں،
نہیں کہنا چاہیے،
کیونکہ آواز نہ پہچاننے کی بنا پر تو سوال ہوا تھا اور میں کہنے سے تو مقصد حاصل نہ ہو سکا،
نیز اس سے تکبر اور کبریائی کی بو آتی ہے کہ مجھے شناخت کروانے کی ضرورت نہیں ہے،
اس لیے ایسے موقع پر اجازت طلب کرنے والے کو اپنی مکمل شناخت کروانی چاہیے،
تاکہ کوئی ابہام نہ رہے اور اس کے ساتھ اس کے شایان شان سلوک کیا جا سکے،
اس لیے حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کرتے وقت کہا تھا،
یہ عبداللہ بن قیس اجازت طلب کر رہا ہے،
یہ ابو موسیٰ حاضر ہے،
یہ اشعری موجود ہے،
بعض دفعہ محض نام بتانے سے شناخت نہیں ہوتی،
اس لیے یہ لطیفہ پیش آیا تھا کہ امام زمخشری سے کسی نحوی نے اجازت طلب کی تو اس نے پوچھا،
تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا،
عمر (لیکن اس سے شناخت نہ ہو سکی)
تو زمخشری نے کہا،
واپس لوٹ جاؤ،
اجازت طلب کرنے والے نے کہا،
عمر منصرف نہیں ہے،
زمخشری نے کہا،
اگر اس کو نکرہ بنا دیا جائے تو وہ منصرف ہو جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5635   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.