الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سلامتی اور صحت کا بیان
9. باب بَيَانِ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ لِمَنْ رُئِيَ خَالِيًا بِامْرَأَةٍ وَكَانَتْ زَوْجَةً أَوْ مَحْرَمًا لَهُ أَنْ يَقُولَ هَذِهِ فُلاَنَةُ. لِيَدْفَعَ ظَنَّ السَّوْءِ بِهِ:
9. باب: جو شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہو اور دوسرے شخص کو دیکھے تو اس سے کہہ دے کہ میری بی بی یا محرم ہے تاکہ اس کو بدگمانی نہ ہو۔
حدیث نمبر: 5679
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وعبد بن حميد ، وتقاربا في اللفظ، قالا: اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن علي بن حسين ، عن صفية بنت حيي ، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم معتكفا فاتيته ازوره ليلا، فحدثته ثم قمت لانقلب، فقام معي ليقلبني، وكان مسكنها في دار اسامة بن زيد فمر رجلان من الانصار، فلما رايا النبي صلى الله عليه وسلم اسرعا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " على رسلكما إنها صفية بنت حيي "، فقالا: سبحان الله يا رسول الله، قال: " إن الشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم، وإني خشيت ان يقذف في قلوبكما شرا او قال شيئا ".وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، وتقاربا في اللفظ، قالا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ ، قالت: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا، فَحَدَّثْتُهُ ثُمَّ قُمْتُ لِأَنْقَلِبَ، فَقَامَ مَعِيَ لِيَقْلِبَنِي، وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ "، فَقَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَرًّا أَوَ قَالَ شَيْئًا ".
معمر نے زہری سے، انھوں نے علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت صفیہ بنت حی (ام الومنین رضی اللہ عنہا) سے روایت کی، کہا: ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، میں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو آئی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کیں، پھر میں لوٹ جانے کو کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے پہنچا دینے کو میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور میرا گھر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی مکان میں تھا۔ راہ میں انصار کے دو آدمی ملے جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ جلدی جلدی چلنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہے۔ وہ دونوں بولے کہ سبحان اللہ یا رسول اللہ! (یعنی ہم بھلا آپ پر کوئی بدگمانی کر سکتے ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح پھرتا ہے اور میں ڈرا کہ کہیں تمہارے دل میں برا خیال نہ ڈالے (اور اس کی وجہ سے تم تباہ ہو)۔
حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے، میں رات کو آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے آئی اور آپ سے گفتگو کرتی رہی، پھر میں واپس جانے کے لیے اٹھی تو آپ بھی میرے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ مجھے رخصت کریں اور اس (صفیہ) کا گھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کے احاطہ میں تھا تو دو انصاری گزرے، جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، تیز تیز چلنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے معمول کی چال چلو، یہ صفیہ بنت حیی ہے۔ انہوں نے کہا، سبحان اللہ، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہیں وہ تمہارے دلوں میں بدگمانی نہ ڈال دے۔ یا فرمایا: کوئی وسوسہ نہ پیدا کر دے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2175

   صحيح البخاري7171صفية بنت حييالشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم
   صحيح البخاري3101صفية بنت حييالشيطان يبلغ من الإنسان مبلغ الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا
   صحيح البخاري6219صفية بنت حييالشيطان يجري من ابن آدم مبلغ الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما
   صحيح البخاري3281صفية بنت حييالشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما سوءا
   صحيح البخاري2039صفية بنت حييالشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم
   صحيح البخاري2038صفية بنت حييالشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم وإني خشيت أن يلقي في أنفسكما شيئا
   صحيح البخاري2035صفية بنت حييالشيطان يبلغ من الإنسان مبلغ الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا
   صحيح مسلم5679صفية بنت حييالشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما شرا
   سنن أبي داود2470صفية بنت حييالشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم فخشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا
   سنن أبي داود4994صفية بنت حييالشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم فخشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا
   سنن ابن ماجه1779صفية بنت حييالشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 68  
´انسان کے جسم میں جن داخل ہونا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الانسان مجْرى الدَّم» . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان انسان کی رگوں میں اس طرح جاری ہے جس طرح خون تمام رگوں میں جاری ہے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 68]

تخریج:
[صحیح مسلم 5678]

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان کے جسم میں جن داخل ہو سکتا ہے اور اسے طرح طرح کے وسوسوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
➋ یہ روایت صحیح بخاری میں موجود نہیں ہے۔
بخاری [2038] اور مسلم [5679] نے اس مفہوم کی روایت سیدہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا سے بیان کر رکھی ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 68   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1779  
´معتکف کے گھر والے مسجد میں آ کر اس سے مل سکتے ہیں۔`
ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئیں، اور آپ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے، عشاء کے وقت کچھ دیر آپ سے باتیں کیں، پھر اٹھیں اور گھر جانے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ انہیں پہنچانے کے لیے اٹھے، جب وہ مسجد کے دروازہ پہ پہنچیں جہاں پہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ تھی تو قبیلہ انصار کے دو آدمی گزرے، ان دونوں نے آپ کو سلام کیا، پھر چل پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی جگہ ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1779]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اعتکاف کرنے والے سے دوسرے لوگ مل جل سکتے ہیں اور ضروری بات چیت کر سکتے ہیں۔

(2)
اعتکاف والے سے اس کی بیوی بھی مسجد میں آ کر ملاقات کر سکتی ہے۔

(3)
متعکف کسی ضرورت سے اعتکا ف کی جگہ سے اٹھ کر مسجد کے دروازے تک جا سکتا ہے۔

(4)
عالم کو اپنی عزت و شرف کا خیال رکھنا چا ہیے اور لوگوں کو ایسا موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ شک وشبہ کا اظہا ر کریں۔

(5)
خاوند اپنی بیوی کا نام لے سکتا ہے اور اسے نام لے کر بلا بھی سکتا ہے۔

(6)
  ان دو صحابیو ں نے رسول اللہ ﷺ کی اس بات سے تکلیف محسوس کی کیونکہ انھیں محسوس ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتے۔

(7)
رسول اللہ ﷺ نے ان کا یہ احساس دور کر نے کے لئے وضاحت فرما دی کہ تم نے میرے بارے میں کوئی غلط بات نہیں سوچی لیکن شیطان وسوسہ ڈال سکتا ہے۔

(8)
نبی ﷺ کی یہ وضاحت اس لئے باعث رحمت تھی کیونکہ اس طرح شیطان کے وسوسے کا راستہ بند ہو گیا ورنہ نبی ﷺ کے بارے میں کوئی ایسی ویسی سوچ ایمان سے محرومی کا با عث بھی ہو سکتی تھی۔

(9)
تعجب کے موقعہ پر سبحان اللہ کہنا درست ہے۔

(10)
شیطان جنات میں سے ہونے کی وجہ سے انسان پر غیر محسوس طور پر اثر انداز ہوتا ہے اس لئے اس کا وسوسہ ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو انسان کے ایمان کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے ان وسوسوں کے شر سے بچنے کے لئے لاحول ولا قوۃ الا باللہ اور اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1779   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4994  
´حسن ظن کا بیان۔`
ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، میں ایک رات آپ کے پاس آپ سے ملنے آئی تو میں نے آپ سے گفتگو کی اور اٹھ کر جانے لگی، آپ مجھے پہنچانے کے لیے میرے ساتھ اٹھے اور اس وقت وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے گھر میں رہتی تھیں، اتنے میں انصار کے دو آدمی گزرے انہوں نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیزی سے چلنے لگے، آپ نے فرمایا: تم دونوں ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں ان دونوں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ کے رسول! (یعنی کیا ہم آپ کے سلسلہ میں بدگمانی کر سکتے ہیں) آپ نے فرمایا: شیطان آدمی میں اسی طرح پھرتا ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4994]
فوائد ومسائل:
1) اعتکاف کے دوران میں جائزہے کہ بیوی معتکف کو ملنے کے لئے آئےاور وہ آپس میں گفتگو کریں۔

2) معتکف اپنی فطری ضروریات کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔
مثلا قضائے حاجت یا ضروری غسل لے لئے جبکہ مسجد میں ان کا معقول انتظام نہ ہو، اسی طرح شدید بیماری کی حالت میں بھی جبکہ مسجد میں طبی امداد پہنچنے کے مواقع نہ ہوں تو اس قسم کے تمام حالات میں مسجد سے باہر جانا جائز ہے۔

3) انسان کو تہمت اور شبہے کے مقامات سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہیئے۔
نبیﷺ نے اپنی اہلیہ محترمہ کا تعارف کرا کے اس شہبے کا ازالہ فرما دیا۔

4) شیطان انسان کے جسم میں ایسے گردش کرتا ہے جیسے خون اس لیے اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے تعوذ (أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) بہت زیادہ بڑھنا چاہئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4994   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5679  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
علي رسلكما:
اپنی چال چلتے رہو،
سکون واطمینان سے چلو۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
اعتکاف میں بیٹھنے والے کے پاس اس کی بیوی جا کر گفتگو کر سکتی ہے اور وہ اسے رخصت کرنے کے لیے باہر آ سکتا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے انتہائی شفیق اور ہمدرد تھے،
ان کو ہر ایسے کام سے آگاہ کرتے تھے،
جو ان کے لیے گناہ کا باعث بن سکتا تھا اور انسان کو شیطان سے بچ کر رہنا چاہیے،
وہ انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور اس کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر کے اسے راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اور انصاریوں نے،
اس بات پر تعجب اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہ کوئی مسلمان آپ کے بارے میں بھی بدگمانی کا شکار ہو سکتا ہے،
سبحان اللہ کہا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5679   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.