الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
The Book of Virtues
9. باب إِثْبَاتِ حَوْضِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصِفَاتِهِ:
9. باب: حوض کوثر کا بیان۔
Chapter: The Cistern Of Our Prophet (SAW) And Its Attributes
حدیث نمبر: 5976
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن ابي الخير ، عن عقبة بن عامر : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، خرج يوما، فصلى على اهل احد صلاته على الميت، ثم انصرف إلى المنبر، فقال: " إني فرط لكم، وانا شهيد عليكم، وإني والله لانظر إلى حوضي الآن، وإني قد اعطيت مفاتيح خزائن الارض، او مفاتيح الارض، وإني والله ما اخاف عليكم ان تشركوا بعدي، ولكن اخاف عليكم ان تتنافسوا فيها ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَرَجَ يَوْمًا، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: " إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَتَنَافَسُوا فِيهَا ".
لیث نے یزید بن ابی حبیب سے، انھوں نے ابو الخیر سے، انھوں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور اہل احد پر اسی طرح نماز جنازہ پڑھی جس طرح میت پر پڑھی جاتی ہے، پھر آپ پلٹ کر منبر پر تشریف فرما ہو ئے اور فرما یا: "میں حوض پر تمھا را پیش رو ہو ں گا اور میں تم پر گواہی دینے والا ہوں گا اور میں، اللہ کی قسم!جیسے اب بھی اپنے حوض کو دیکھ رہا ہو ں گا۔مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں یا (فرمایا:) زمین کی چابیاں عطا کی گئیں اور اللہ کی قسم!میں تمھا رے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ میرے بعد تم شرک کرو گے۔لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم ان (خزانوں کے معاملے) میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرو گے (کہ ان میں سے کو ن زیادہ فائدہ اٹھا تا اور زیادہ دولت مندی کا مظاہرہ کرتا ہے۔) "
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن (گھر) سے نکلے اور شہدائے احد کے لیے، میت کی طرح دعا کی پھر منبر کی طرف پلٹے اور فرمایا: میں تمہارا پیش رو ہوں اور میں تمہارے بارے میں گواہی دوں گا اور میں اللہ کی قسم، اب اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں یا زمین کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں اللہ کی قسم! میں اپنے بعد تمہارے شرک کرنے کا خطرہ محسوس نہیں کرتا، لیکن مجھے تمہارے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ تم دنیا میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو گے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2296

   صحيح البخاري3596عقبة بن عامرإني فرطكم وأنا شهيد عليكم إني والله لأنظر إلى حوضي الآن أعطيت خزائن مفاتيح الأرض وإني والله ما أخاف بعدي أن تشركوا ولكن أخاف أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري6426عقبة بن عامرإني فرطكم وأنا شهيد عليكم الله لأنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض الله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي ولكني أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري4085عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكني أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري6590عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري1344عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح مسلم5976عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تتنافسوا فيها
   سنن النسائى الصغرى1956عقبة بن عامرإني فرط لكم وأنا شهيد عليكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4085  
´ارشاد نبوی کہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے`
«. . . عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ , ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ:" إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ , وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ , أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا . . .»
. . . عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا (آپ حوض کوثر نے یوں فرمایا) «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ (دونوں جملوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4085]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4085کا باب: «بَابُ أُحُدٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ:»
ترجمہ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے احد پہاڑ کی فضیلت ذکر فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے۔
اور ذیل میں تین احادیث ذکر فرمائیں، دو احادیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، جس میں واضح طور پر باب سے حدیث کی مناسبت موجود ہے، تیسری حدیث جو کہ سیدنا عقبہ بن عامر الجھنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں باب سے مناسبت لفظ «أحد» کے ساتھ ہے، یعنی ترجمۃ الباب میں احد کا ذکر ہے اور حدیث میں بھی لفظ احد مذکور ہے، لہٰذا نسبت لفظی موجود ہے۔

چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة لا تاتي الا من حديث إن احد مذكور فيه» [عمدة القاري للعيني: 438/17]
یعنی ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت لفظ «أحد» میں مذکور ہے۔
لہٰذا یہ مناسبت ظاہری ہے، یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں پہلا لفظ «أحد» اور دوسرا جزء لفظ «يحبنا» علامہ عینی اور دیگر شارحین کو وضاحت سے لفظ «أحد» کی مناسبت واضح ہوئی، مگر ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء لفظ «يحبنا» سے کوئی مناسبت دکھلائی نہیں دیتی، لیکن اگر غور کیا جائے تو «يحبنا» کی مناسبت حدیث میں موجود ہے، مگر بہت گہری سوچ کے بعد، امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت پر داد دینی چاہیے، آپ نے بڑے ہی دقیق انداز میں ایک بہت باریک چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اس میں حوض کوثر کا ذکر ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حوض کوثر سے وہی حضرات پانی پئیں گے جو جنتی ہوں گے، جن کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اتباع سے گہرا ہو گا، کیونکہ سنت سے دور رہنے والے اور بدعتی کو یہ پانی نصیب نہ ہو گا، لہٰذا حوض کوثر، جنت کی بہت بڑی نعمت ہے، بعین اسی طرح یہ احد پہاڑ کا تعلق بھی آخرت کے ساتھ قائم ہے، وہ کس طرح؟
امام ابن شبہ رحمہ اللہ تاریخ المدینہ میں مرفوعاً ذکر فرماتے ہیں کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے مزید روایت میں اضافہ ہے کہ:
«ان احدا هذا لعلي باب من أبواب الجنة .» اس کی سند میں یحییٰ بن عبداللہ متروک ہے۔ مگر مسند احمد کی حدیث اس مسئلے پر شاہد ہے۔
مذکورہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ احد پہاڑ کا بھی تعلق جنت سے ہے، بعین اسی طرح جس طرح سے حوضِ کوثر کا تعلق بھی جنت ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أن الحب من الجانبين على حقيقته وظاهره لكون أحد من جبال الجنة كما يثبت فى حديث أبى عبس بن جبر مرفوعا جبل أحد يحبنا و نحبه و هو من جبال الجنة [فتح الباري لابن حجر: 322/7]
حقیقتاً اور ظاہراً یہ محبت (پہاڑ کی) دونوں جانب ہے، (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس سے محبت ہے، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے محبت کرتا ہے، یہ پہاڑ احد کا جنت کے پہاڑوں میں سے ہے، جیسا کہ حدیث مروی ہے، ابوعبس بن جبر سے مرفوعاً یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے اور وہ (احد) جنت کے پہاڑوں میں سے ہے۔
حافظ صاحب کے اس بیان سے اور پیش کردہ حدیث سے ہماری بیان کی ہوئی مناسبت میں مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اب ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء «يحبنا» سے حدیث کی مناسبت واضح ہوئی کہ جس طرح حدیث کی اتباع اور بدعت سے بچنے والا ہی حوض کوثر سے پانی پیئے گا، بعین اسی طرح سے حدیث سے محبت رکھنے والا ہی احد پہاڑ سے محبت رکھے گا، لہٰذا احد پہاڑ کی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے محبت کی دلیل ہے اور جو شخص سنت کی اتباع اور اس کی محبت میں اپنی زندگی بسر کرے گا تو یقیناً وہ حوض کوثر سے مستفید ہو گا، لہٰذا یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔

فائدہ:
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ امت محمدیہ کبھی بھی شرک میں ملوث نہیں ہو گی، چاہے وہ سجدے کرے، چاہے وہ منت و مرادیں قبر والوں سے وابستہ رکھے، الغرض کسی بھی حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی شرک میں مبتلا نہ ہوں گے اور وہ اپنے اس موقف کی تائید میں مذکورہ بالا حدیث اللہ کی قسم میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم شرک کرو گے سے استدلال کو اخذ کرتے ہیں۔
محترم قارئین! اس حدیث سے پوری امت کو مواحد ثابت کرنا ایک بہت بڑی غلط فہمی یا پھر بہت بڑی خیانت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ہرگز یہ مطلب اخذ نہیں ہوتا کہ امت جو چاہے کرتی پھرے، لیکن وہ کبھی بھی شرک کے جرم کا ارتکا ب نہیں کرے گی، اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، نمبر ایک، مذکورہ بالا حدیث کا تعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہے، اور دوم، قرآن مجید کی آیات اور دیگر احادیث واضح طور پر اس مسئلہ پر دال ہیں کہ امت سے کئی لوگ شرک کریں گے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ .» [12-يوسف:106]
ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود بھی مشرک ہیں۔
سورۃ یوسف کی آیت قیامت تک کے مسلمانوں کو مخاطب کرتی ہے اور یہ آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ مشرک مسلمانوں میں قیامت تک ہوں گے، بلکہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر غور کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مسئلے کو اپنی حدیث کے ذریعہ حل فرمایا ہے۔
چنانچہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ اپنی سنن میں حدیث کا ذکر فرماتے ہیں:
«وان مما أتخوف صلى امتي أئمة مضلين، وستعبد قبائل من أمتي الأوثان وستلحق قبائل من أمتي بالمشركين .» [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن: 3952]
مجھے اپنی امت کے بارے میں (سب سے زیادہ) گمراہ کرنے والے لیڈروں کا خوف ہے، میری امت کے کچھ قبیلے اوثان (بتوں) کی پوجا کریں گے اور میری امت کے کچھ قبائل مشرکوں سے مل جائیں گے۔
اس حدیث میں امت کے بارے میں صاف طور پر واضح کیا گیا ہے کہ امت کے کچھ لوگ بتوں کی پوجا کریں گے، یاد رکھیں! بتوں کی پوجا سے مراد مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ ہر وہ شے ہے، جسے اللہ کے علاوہ پوجا جائے، چاہے وہ بت ہو، قبر ہو، بزرگ ہو، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق امت کے کچھ لوگ مشرک ہو جائیں گے، اب رہا مسئلہ کہ کن لوگوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی امت میں شرک کا ڈر نہیں ہے؟ اس کے بارے میں جواب دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وان أصحابه لا يشركون بعده فكان كذالك .» فتح الباري لابن حجر: 762/6
(حدیث سے مراد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شرک نہ کریں گے، (لہٰذا حدیث کے مطابق) ایسا ہی ہوا تھا۔

امام قرطبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أنه قد أمن على جملة أصحابه ان يبدلوا دين الإسلام بدين الشرك .» [المفهم 93/6]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس بات سے امن دیا کہ وہ دین اسلام کو چھوڑ کر شرک کی طرف مائل ہوں، (یعنی صحابہ کبھی شرک کی طرف نہیں جائیں گے، یہ امن انہیں نصیب ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے)۔
لہٰذا شرک سے امن صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو تھا، جو مکمل طور پر مواحد تھے اور جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اسی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جس حدیث میں شرک کرنے کی نفی ہے، اس حدیث سے مراد صحابہ ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں ہی فوت ہوئے، لہٰذا اس سے مراد کلی امت نہیں ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 51   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5976  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
صلاته علی الميت:
آپ نے اپنی زندگی کے آخری دور میں،
تمام شہداء کے لیے،
میت کی طرح انتہائی اخلاص اور تضرع سے دعا فرمائی اور یہ دعا مسجد میں کی گئی،
اس لیے نماز سے فراغت کے بعد آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اگلی باتیں ارشاد فرمائیں اور شہدائے اُحد کی قبور تو میدان اُحد میں ہی تھیں،
وہاں منبر کہاں سے آ گیا،
اس لیے علامہ انور شاہ نے لکھا ہے کہ روایات کے تتبع اور تلاش سے مجھ پر یہ حقیقت کھلی ہے کہ آپ نے یہ دعا اپنے وفات کے سال مسجد نبوی میں کی،
اس طرح آپ نے زندوں کی طرح مردوں کو بھی الوداع فرمایا،
(فیض الباری ج 1 ص 478)
۔
جنگ اور تین ہجری کو ہوئی اور آپ کی وفات ربیع الاول 11ھ میں ہوئی،
نماز اتنے عرصہ کے بعد تو نہیں پڑھی جاتی۔
انی قد اعطيت مفاتيح خزائن الارض او مفاتيح الارض:
مجھے زمین کے خزانوں کی یا زمین کی کنجیاں دے دی گئی ہیں،
آپ کی اس پیش گوئی کے مطابق مسلمانوں نے تمام علاقوں کو فتح کیا اور کسریٰ و قیصر کے خزانوں کے مالک بنے اور اب بھی ہر قسم کے قدرتی اسباب و ذرائع معیشت مسلمان ملکوں میں موجود ہیں،
لیکن بدقسمتی سے مسلمان ان سے صحیح فائدہ نہیں اٹھا رہے۔
ما أخاف عليكم ان تشركوا بعدی:
مجھے یہ اندیشہ نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے،
مقصد یہ ہے کہ آپ کی امت مجموعی اعتبار سے اسلام سے برگشتہ نہیں ہو گی یا جاہلیت کے دور والا شرک دوبارہ پیدا نہیں ہو گا کہ لوگ شرک کو اپنا دین قرار دیں،
اگر کچھ لوگ شرک میں مبتلا ہو جائیں تو وہ اس کو شرک تسلیم ہی نہیں کرتے اور اسلام کو ہی اپنا دین تصور کرتے ہیں اور انفرادی طور پر اگر کچھ لوگ مرتد ہوئے ہیں تو اکثریت کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اور بقول امام ابی اس کا مخاطب صحابہ کرام ہی کہ ان کے بارے میں یہ خطرہ نہ تھا۔
(تکملہ ج 4 ص 505)
لكن اخاف عليكم ان تنافسوا فيها:
لیکن دنیا کے خزانوں اور دنیوی مال و دولت میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا اندیشہ ہے اور یہ چیز باہمی حسد و بغض اور دشمنی کا باعث بنتی ہے،
جس سے اخلاق اور اعمال میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور آپ نے جس چیز کے اندیشے کا اظہار فرمایا تھا،
آج وہی چیز امت کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہی ہے،
دین و ایمان اتفاق و اتحاد ہر چیز اس کی بھینٹ چڑھ رہی ہے،
جیسا کہ اگلی روایت میں اس کی صراحت آ رہی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5976   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.