الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
75. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الْغَضَبِ وَالشِّدَّةِ لأَمْرِ اللَّهِ:
75. باب: خلاف شرع کام پر غصہ اور سختی کرنا۔
(75) Chapter. What is allowed to say when one is angry or harsh for Allah’s sake.
حدیث نمبر: 6111
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية، عن نافع، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: بينا النبي صلى الله عليه وسلم يصلي راى في قبلة المسجد نخامة فحكها بيده فتغيظ، ثم قال" إن احدكم إذا كان في الصلاة، فإن الله حيال وجهه، فلا يتنخمن حيال وجهه في الصلاة".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي رَأَى فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ نُخَامَةً فَحَكَّهَا بِيَدِهِ فَتَغَيَّظَ، ثُمَّ قَالَ" إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا كَانَ فِي الصَّلَاةِ، فَإِنَّ اللَّهَ حِيَالَ وَجْهِهِ، فَلَا يَتَنَخَّمَنَّ حِيَالَ وَجْهِهِ فِي الصَّلَاةِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی جانب منہ کا تھوک دیکھا۔ پھر آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے صاف کیا اور غصہ ہوئے پھر فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: While the Prophet was praying, he saw sputum (on the wall) of the mosque, in the direction of the Qibla, and so he scraped it off with his hand, and the sign of disgust (was apparent from his face) and then said, "Whenever anyone of you is in prayer, he should not spit in front of him (in prayer) because Allah is in front of him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 132


   صحيح البخاري753عبد الله بن عمرأحدكم إذا كان في الصلاة فإن الله قبل وجهه لا يتنخمن أحد قبل وجهه في الصلاة
   صحيح البخاري6111عبد الله بن عمرأحدكم إذا كان في الصلاة فإن الله حيال وجهه لا يتنخمن حيال وجهه في الصلاة
   صحيح البخاري406عبد الله بن عمرإذا كان أحدكم يصلي لا يبصق قبل وجهه فإن الله قبل وجهه إذا صلى
   صحيح البخاري1213عبد الله بن عمرالله قبل أحدكم فإذا كان في صلاته لا يبزقن أو قال لا يتنخمن ثم نزل فحتها بيده
   صحيح مسلم1223عبد الله بن عمرإذا كان أحدكم يصلي لا يبصق قبل وجهه فإن الله قبل وجهه إذا صلى
   سنن أبي داود479عبد الله بن عمرالله قبل وجه أحدكم إذا صلى لا يبزق بين يديه
   سنن النسائى الصغرى725عبد الله بن عمرإذا كان أحدكم يصلي لا يبصقن قبل وجهه فإن الله قبل وجهه إذا صلى
   سنن ابن ماجه763عبد الله بن عمرأحدكم إذا كان في الصلاة فإن الله قبل وجهه لا يتنخمن أحدكم قبل وجهه في الصلاة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم96عبد الله بن عمرإذا كان احدكم يصلي فلا يبصق قبل وجهه فإن الله قبل وجهه إذا صلى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 96  
´فاسق و فاجر کو امامت سے ہٹا دینا چاہئیے`
«. . . وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى بصاقا فى جدار القبلة فحكه: ثم اقبل على الناس فقال: إذا كان احدكم يصلي فلا يبصق قبل وجهه فإن الله قبل وجهه إذا صلى . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلے کی طرف دیوار پر تھوک دیکھا تو اسے کھرچ (کر صاف کر) دیا پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اپنے سامنے نہ تھوکے کیونکہ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اس کے سامنے اللہ ہوتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 96]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 406، ومسلم 547، من حديث مالك به]
تفقہ:
① قبلہ رخ تھوکنا حرام ہے۔
② ایک شخص کسی قبیلے کا امام تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں قبلے کی طرف تھوکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا یصلي لکم۔» یہ تمہیں نماز نہ پڑھائے۔ پھر اس نے بعد میں نماز پڑھانے کی کوشش کی تو لوگوں نے اسے روک دیا۔ [سنن ابي داود: 481 وسنده حسن و صححه ابن حسان: 334]
معلوم ہوا کہ فاسق فاجر اور حدیث کی مخالفت کرنے والے شخص کو امامت سے ہٹایا جا سکتا ہے لہٰذا بدعتی کو کبھی امام نہیں بنانا چاہئے۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «مَنْ صَلَّى فَبَزَقَ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ جَاءَتْ بَزْقَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيْ وَجْهِهِ» جس شخص نے نماز پڑھی (اور) قبلے کی طرف تھوکا (تو) قیامت کے دن اس کا تھوک اس کے چہرے پر (لگا ہوا) ہو گا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/365 ح7455، وسنده صحيح]
④ اس حدیث سے بھی نماز کی عظمت ثابت ہوتی ہے۔
⑤ عالم ہو یا عامی، اپنی وسعت کے مطابق مسجد کی صفائی کرنا سنت ہے۔
⑥ اگر کسی شخص کو نماز میں تھوکنے کی ضرورت محسوس ہو تو اپنی چادر یا کپڑے میں تھوک لے۔
⑦ مسلمان کو کسی طرح بھی تکلیف پہنچانا جائز نہیں ہے۔
⑧ اس پر اجماع ہے کہ عملِ قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ دیکھئے [التمهيد 14/155]
⑨ اگر کوئی شخص کسی مجبوری یا بیماری کی وجہ سے لمبا سانس لیتا یا کھنکھارتا ہے تو اس سے نماز خراب نہیں ہوتی لیکن بعض لوگ عادت سے مجبور ہو کر یا ویسے ہی کھنکارتے رہتے ہیں، ان لوگوں کو ایسی حرکات سے اجتناب کرنا چاہئے۔
اس کے سامنے اللہ ہوتا ہے۔ سے مراد اس کے سامنے اللہ کا قبلہ ہوتا ہے۔‏‏‏‏ دیکھئے: [معالم السنن للخطابي 124/1]
لہٰذا اس حدیث سے معتزلہ کا یہ استدلال غلط اور باطل ہے کہ اللہ ہر جگہ بذاتہ موجود ہے کیونکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی تو پر کپڑے پر اور قدموں کے نیچے بھی تھوکنا جائز نہ ہوتا حالانکہ یہ بالاجماع جائز ہے۔ [التمهيد 157/14، نيز ديكهئے ح 460]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 205   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 725  
´مسجد میں قبلہ کی طرف تھوکنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ والی دیوار پر تھوک دیکھا تو اسے رگڑ دیا، پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے چہرہ کی جانب ہرگز نہ تھوکے، کیونکہ جب وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اللہ عزوجل اس کے چہرہ کے سامنے ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 725]
725 ۔ اردو حاشیہ: اللہ عزوجل اس کے سامنے ہوتا ہے۔ کیسے ہوتا ہے؟ جیسے اس کی شان عظیم کے لائق ہے۔ اس کا انکار درست نہیں اور نہ تاویل کرنا ہی مناسب ہے۔ اہل سنت و الجماعت اور محدثین رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل کے ظاہر الفاظ کا بھی یہی تقاضا ہے، اس لیے جب عام انسان سے ہم کلام ہوتے ہوئے اس کے سامنے تھوکنا اس کی توہین ہے تو نماز میں سامنے تھوکنا یقیناًً اللہ تعالیٰ کی توہین ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 725   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث763  
´مسجد میں تھوکنے اور ناک جھاڑنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار قبلہ پر بلغم دیکھا، اس وقت آپ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بلغم کھرچ دیا، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے تو اللہ اس کے سامنے ہوتا ہے، لہٰذا کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 763]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز میں بندہ اللہ تعالی کے حضور اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے لہٰذا اس وقت سامنے تھوکنا اس ادب واحترام کے منافی ہے جس کا اختیار کرنا ایسے موقعوں پر ضروری ہے۔

(2)
اللہ تعالی کے نمازی کے سامنے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔

(3)
اس سے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالی کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔
اس مسئلہ میں صحیح موقف یہی ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں سے اوپر عرش عظیم پر ہے لیکن اس کا علم قدرت اور رحمت ہر شے کو محیط ہے۔
محدثین کرام کا یہی مسلک ہےجس کے دلائل قرآن وحدیث میں اپنے اپنے مقام پر موجود ہیں جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ﴾ (طه: 5)
 وہ رحمٰن ہے جس نے عرش پر قرار پکڑا ہے۔
جبکہ حدیث میں اس کی دلیل مشہور ومعروف حدیث جاریہ ہے۔
حضرت معاویہ سلمی کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد پہاڑ اور جوانیہ کے درمیان میری بکریاں چرایا کرتی تھی۔
ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور بکریوں میں سے ایک کو اٹھا کر لے گیا۔ (مجھے اس کی غفلت پر غصہ آیا)
تو میں نے اس کو زور سے تھپڑ مارا۔ (پھر مجھے ندامت محسوس ہوئی)
تو میں نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان کردیا۔
نبی کریمﷺ نے بھی اسے سخت ناپسند کیا۔
میں نے خواہش ظاہر کی کہ کیا میں اسے آزاد نہ کردوں؟ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ لونڈی کو بلا لاؤں۔
جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا:
اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا:
اللہ تعالی آسمان میں ہے۔
آپ نے سوال کیا کہ میں کون ہوں؟ لونڈی نے جواب دیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
یہ سن کر آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں لونڈی کو آزاد کردوں کیونکہ یہ مومنہ ہے۔
 (صحيح مسلم، المساجد، باب تحريم الكلام في الصلاة۔
۔
۔
۔
۔
، حدیث: 537)

نيز الله تعالي اپنے علم، قدرت، رحمت اور حفاظت کے ساتھ اپنے نیک بندوں کا ساتھ دیتا ہے۔
فرمان الہی ہے:
﴿وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ﴾ (المائدة: 12)
اور اللہ نے فرمایا میں تمھارے ساتھ ہوں۔
 حافظ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں:
یعنی اپنی حفاظت اور مدد کے ساتھ۔
ارشاد باری تعالی ہے ﴿وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ﴾ (البقره: 19)
اور الله تعالی کافروں کو گھیرنے والا ہے (اپنی قدرت ومشیت سے۔)
حافظ ابن کثیر ؒ اللہ تعالی کے ارشاد مبارک:
﴿قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ﴾ (طه: 46)
 اللہ تعالی نے فرمایا:
تم بالکل خوف نہ کھاؤ میں تمھارے ساتھ ہوں اور سنتا دیکھتا رہوں گا ۔
کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
یعنی اپنی نصرت وتائید وحفاظت کے ساتھ تمھارے ساتھ رہوں گا۔
اس معنی کی وضاحت کے لیے ویگر فرامین الہی اور احادیث نبویہ بکثرت موجود ہیں۔
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَلِکَ۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 763   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6111  
6111. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ اس اثناء میں آپ نے مسجد میں قبیلے کی جانب بلغم دیکھا، آپ نے اسے دست مبارک میں صاف کیا اورغصے ہوئے، پھر فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے سامنے ہوتا ہے لہذا کوئی شخص دوران نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6111]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کو صاف ستھرا اور خوشبودار رکھنے کا حکم دیا ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 455)
کیونکہ مساجد، اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں ہیں۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1528(671)
ایک اور حدیث میں مسجد میں تھوکنے کو گناہ قرار دیا گیا ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے دفن کر دیا جائے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 415)
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلے کی جانب تھوک دیکھا تو آپ نے ایک شاخ سے اسے صاف کر دیا، پھر آپ نے اس بلغم والی جگہ پر خوشبو لگائی۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 485) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صرف اس لیے امامت سے الگ کر دیا تھا کہ اس نے مسجد میں قبلے کی جانب تھوک دیا تھا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 481)
ایسے حالات میں مسجد کے تقدس کو ماپال ہوتا دیکھ کر آپ کیسے خاموش رہ سکتے تھے، آپ کا غصہ برمحل اور اللہ تعالیٰ کے لیے تھا۔
جسے آپ نے امامت سے الگ کیا تھا، اسے فرمایا:
اس کام سے تو نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6111   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.