الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
The Book of Virtues
37. باب تَوْقِيرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرْكِ إِكْثَارِ سُؤَالِهِ عَمَّا لاَ ضَرُورَةَ إِلَيْهِ أَوْ لاَ يَتَعَلَّقُ بِهِ تَكْلِيفٌ وَمَا لاَ يَقَعُ وَنَحْوِ ذَلِكَ:
37. باب: بے ضرورت مسئلے پوچھنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 6116
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، اخبرنا إبراهيم بن سعد ، عن ابن شهاب ، عن عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن اعظم المسلمين في المسلمين جرما، من سال عن شيء، لم يحرم على المسلمين، فحرم عليهم من اجل مسالته ".حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ يُحَرَّمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَحُرِّمَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ ".
ابرا ہیم بن سعد نے ابن شہاب سے، انھوں نے عامر بن سعد سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمانوں کے حق میں مسلمانوں میں سے سب سے بڑا جرم وار وہ شخص ہے جو کسی ایسی چیز کے بارےمیں سوال کرے جو حرام نہیں کی گئی تو اس کے سوال کی بنا پر اسے حرا م کر دیا جائے۔
عامر بن سعد، اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے،جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں کرید کی،جو مسلمانوں پر حرام نہ تھی تو اس کےسوال کی بناء پر، ان پرحرام قرار دے دی گئی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2358

   صحيح البخاري7289سعد بن مالكأعظم المسلمين جرما من سأل عن شيء لم يحرم فحرم من أجل مسألته
   صحيح مسلم6116سعد بن مالكأعظم المسلمين في المسلمين جرما من سأل عن شيء لم يحرم على المسلمين فحرم عليهم من أجل مسألته
   صحيح مسلم6117سعد بن مالكأعظم المسلمين في المسلمين جرما من سأل عن أمر لم يحرم فحرم على الناس من أجل مسألته
   سنن أبي داود4610سعد بن مالكأعظم المسلمين في المسلمين جرما من سأل عن أمر لم يحرم فحرم على الناس من أجل مسألته
   مشكوة المصابيح153سعد بن مالكان اعظم المسلمين في لامسلمين جرما من سال عن شيء لم يحرم على الناس فحرم من اجل مسالته
   مسندالحميدي67سعد بن مالكأعظم المسلمين في المسلمين جرما من سأل عن أمر لم يحرم فحرم على الناس من أجل مسألته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 153  
´سب سے بڑا جرم کون؟`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «أَن أعظم الْمُسلمين فِي لامسلمين جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ على النَّاس فَحرم من أجل مَسْأَلته» . . .»
. . . سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سب سے زیادہ مجرم اور گنہگار وہ آدمی ہے جس نے کوئی ایسی چیز دریافت کی جو لوگوں پر پہلے سے حرام نہیں تھی لیکن اس کے پوچھنے اور دریافت کرنے سے وہ چیز حرام ہو گئی۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 153]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 7289]،
[صحيح مسلم 6116]

فقہ الحدیث:
➊ جس چیز کی ممانعت اور حرام ہونے کا ذکر کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت نہیں ہے تو ایسے دنیاوی امور میں اصل یہ ہے کہ یہ چیزیں مباح ہیں الا یہ کہ شریعت میں اس کی ممانت وارد ہو۔ دیکھئے: [فتح الباري 269/13]
➋ فضول سوالات کرنے سے اجتناب کرنا چاہئیے۔
➌ اس حدیث کا تعلق عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی دور نزول وحی کے ساتھ ہے۔
➍ ایسا کام کرنا جس سے دوسروں کو تکلیف ہو حرام ہے۔
➎ مسئلہ پوچھتے وقت مفاد عامہ کا خیال ضرور رکھنا چاہئیے۔
➏ سیاق و سباق اور حالات کے لحاظ سے بعض اوقات معمولی لغزش بھی بہت سنگین جرم بن جاتا ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 153   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4610  
´سنت پر عمل کرنے کی دعوت دینے والوں کے اجر و ثواب کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر حرام کر دی گئی ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4610]
فوائد ومسائل:
دین کے احکام جس طرح ایک عام آدمی کی سمجھ میں آسکتے ہیں، اسی طرح ان پر عمل کرنا چاہیے۔
اطاعت کے لیے یہ کافی ہے۔
خود ان احکام کے اندر مختلف پہلوؤں کو نکال کر سوال کرنے میں کئی قباحتیں ہیں۔
بغیر ضرورت بال کی کھال اتانے سے اپنے اور دوسروں کے لیے سخت دشواریاں پیدا ہوتی ہیں، ان سے احترازکرتے ہوئے صدق نیت سے آیات واحادیث کے سہل اور عام مفہوم پر عمل کرنا کافی ہے۔
قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ یہودیوں کو گائے ذبح کرنے کا حکم ملا۔
انہوں نے کیسی کس رنگ کی کس طرح کی گائے کے حوالے سے سوال کرنے شروع کردیے۔
ہر سوال سے گائے کی تخصیص ہوتی گئی اور اس طرح کی گائے ذبح کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔
اللہ تعالی نے اس طریقے کار کو یہود کے غلط طریق پر محمول فرمایا۔
حکم ملتے ہی اگر وہ حسن نیت سے کوئی ایک گائے ذبح کر دیتے تو اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے۔
بہت زیادہ سوالات کرنا کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا گیا بالخصوص ایسے سوالات جن کا عملی زندگی سے واسطہ نہ ہو۔
یا محض فرضی مسائل ہوں۔
اب اگرچہ حلت وحرمت کا دورتو نہیں، مگر علماء سے بھی لازمی اور ضروری سوالات ہی کرنے چاہییں جن کا تعلق حقیقت واقعہ سے ہو۔
فرضی صورتیں سوچ سوچ کر ان کے جواب مانگنا یا تلاش کرنا غیر صحت مند رویہ ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4610   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.