الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
ایمان کا بیان
حدیث نمبر: 64
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: جاء ناس من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسالوه: إنا نجد في انفسنا ما يتعاظم احدنا ان يتكلم به. قال: «او قد وجدتموه» قالوا: نعم. قال: «ذاك صريح الإيمان» . رواه مسلم ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ. قَالَ: «أَو قد وجدتموه» قَالُوا: نعم. قَالَ: «ذَاك صَرِيح الْإِيمَان» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چند صحابہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ سے دریافت کیا: ہم اپنے دلوں میں ایسے وسوسے پاتے ہیں کہ انہیں بیان کرنا ہم بہت گراں سمجھتے ہیں۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم بھی ایسا محسوس کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا، جی ہاں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تو صریح ایمان ہے۔
 اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (132 / 209)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح مسلم340عبد الرحمن بن صخرذاك صريح الإيمان
   سنن أبي داود5111عبد الرحمن بن صخرأوقد وجدتموه قالوا نعم قال ذاك صريح الإيمان
   مشكوة المصابيح64عبد الرحمن بن صخرذاك صريح الإيمان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 64  
´ایمان کی علامت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ. قَالَ: «أَو قد وجدتموه» قَالُوا: نعم. قَالَ: «ذَاك صَرِيح الْإِيمَان» . رَوَاهُ مُسلم . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مقدسہ میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ بعض دفعہ ہم اپنے دلوں میں ایسی باتیں پاتے ہیں کہ زبان پر لانا بھی بعض لوگ برا جانتے ہیں یعنی زبان سے کہنے کو بھی جائز نہیں سمجھتے عمل کرنا تو درکنار؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ایسی باتوں کو پاتے ہو جنہیں زبان سے کہنے کو بھی برا جانتے ہو؟ ان لوگوں نے عرض کیا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ظاہر ایمان ہے۔ یعنی ایمان دار ہونے کی یہ ظاہری علامت ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 64]

تخریج:
[صحيح مسلم 340]

فقہ الحدیث:
➊ برے وسوسوں سے نفرت کرنا خالص ایمان کی نشانی ہے۔
➋ ذاتی و خفیہ مسائل کے لئے علمائے حق کی طرف رجوع کرنا تاکہ وہ کتاب و سنت کا حکم بتا دیں، بالکل صحیح طریقہ ہے۔
➌ صحابہ کرام ایمان کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
➍ برے وسوسوں سے بچنے کے لئے ہر وقت کتاب و سنت پر عمل اور اذکار صحیحہ و کلمات طیبہ میں مصروف رہنا چاہئیے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 64   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 74  
´شیطان اور فرشتے کا انسان پر تصرف`
«. . . وَعَن بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلشَّيْطَانَ لَمَّةً بِابْنِ - [28] - آدَمَ وَلِلْمَلَكِ لَمَّةً فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيْطَانَ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَكْذِيبٌ بِالْحَقِّ وَأَمَّا لَمَّةُ الْمَلَكِ فَإِيعَادٌ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّهُ من الله فليحمد اللَّهَ وَمَنْ وَجَدَ الْأُخْرَى فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ثُمَّ قَرَأَ (الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ ويأمركم بالفحشاء) ‏‏‏‏الْآيَة) ‏‏‏‏أخرجه التِّرْمِذِيّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيث حسن غَرِيب ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان کا انسان پر تصرف ہے اور فرشتے کا بھی انسان پر تصرف حاصل ہے۔ شیطان کا تصرف تو یہ ہے کہ وہ انسان کو برائی کا وعدہ دیتا اور حق کے جھٹلانے پر آمادہ کراتا ہے اور فرشتے کا تصرف یہ ہے کہ وہ نیکی کا وعدہ کرتا اور حق کی تصدیق کراتا ہے۔ پس جو اس پر جو اس بات کو اپنے دل میں پائے تو اسے یہ جان لینا چاہئے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے اور اس پر اللہ کی تعریف کرے اور جو دوسری بات پائے یعنی برے وسوسہ کا دل میں پیدا ہونا۔ تو اس کو شیطان کی طرف سے کہنا چاہئے اور اس شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی کہ «الشيطان يعدكم الفقر ويأمركم بالفحشاء» شیطان تم کو محتاجی کا وعدہ دیتا اور گناہ کی باتوں کا حکم دیتا ہے۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس کو غریب کہا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 74]

تخریج:
[سنن ترمذي 2988]

تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
اسے ترمذی [2988] کے علاوہ نسائی [الكبريٰ: 11051] اور ابن حبان [الاحسان: 993 دوسرا نسخه: 997] نے بھی روایت کیا ہے۔
اس روایت کے بنیادی راوی عطاء بن السائب آخری عمر میں حافظے کی خرابی کی وجہ سے اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ دیکھئے: [نهاية الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط 71] اور الکواکب النیرات [ص319]
◈ ابوحاتم الرازی نے کہا:
«اختلط بأخرة»
وہ (عطاء بن السائب) آخر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ [علل الحديث 2؍242 ح2220]

عطاء بن السائب کے اختلاط سے پہلے درج ذیل راویوں نے ان سے روایت سنی ہے۔
① شعبہ
② سفیان الثوری
③ حماد بن زید
④ حماد بن سلمہ عند الجمہور
⑤ ہشام الدستوائی عند ابی داود
⑥ سفیان بن عیینہ
⑦ ایوب السختیانی
⑧ زہیر
⑨ زائدہ بن قدامہ
⑩ اعمش۔
دیکھئے: الکواکب النیرات مع الشرح [ص319 تا 335]
روایت مذکورہ کے راوی ابوالاحوص سلام بن سلیم کا عطاء بن السائب سے سماع قبل از اختلاط ثابت نہیں ہے۔

تنبیہ
①: سنن الترمذی کے قدیم قلمی نسخے میں «هٰذا حديث حسن غريب» لکھا ہوا ہے۔ دیکھئے: [ص194]

تنبیہ
②: یہ روایت بعض ضعیف سندوں سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ «والله اعلم»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 74   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5111  
´وسوسہ دور کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ آئے، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنے دلوں میں ایسے وسوسے پاتے ہیں، جن کو بیان کرنا ہم پر بہت گراں ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے اندر ایسے وسوسے پیدا ہوں اور ہم ان کو بیان کریں، آپ نے فرمایا: کیا تمہیں ایسے وسوسے ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: یہ تو عین ایمان ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5111]
فوائد ومسائل:

ان خیالات سے ایسے اوہام کی طرف اشارہ ہے جن میں شیطان انسان کو دھیرے دھیرے اس سوال کی طرف لاتا ہے کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا؟

صاحب ایمان کا اپنے ایمان کے بارے میں چوکنا رہنا اس کے خالص ایمان دار ہونے کی علامت ہے اور ایسے خیالات کا آجانا کوئی مضر نہیں۔
بشرط یہ کہ انسان انہیں دفع۔
(دور) کرنے میں کوشاں رہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5111   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.