الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book on Zakat
14. باب مَا جَاءَ فِي الصَّدَقَةِ فِيمَا يُسْقَى بِالأَنْهَارِ وَغَيْرِهِ
14. باب: نہر وغیرہ سے سینچائی کر کے پیدا کی گئی فصل کی زکاۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 640
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن، حدثنا سعيد بن ابي مريم، حدثنا ابن وهب، حدثني يونس، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم " انه سن فيما سقت السماء والعيون او كان عثريا العشر وفيما سقي بالنضح نصف العشر ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ سَنَّ فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرَ وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفَ الْعُشْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ جاری فرمایا کہ جسے بارش یا چشمے کے پانی نے سیراب کیا ہو، یا عثری یعنی رطوبت والی زمین ہو جسے پانی دینے کی ضرورت نہ پڑتی ہو تو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جسے ڈول سے سیراب کیا جاتا ہو اس میں دسویں کا آدھا یعنی بیسواں حصہ زکاۃ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 55 (1483)، سنن ابی داود/ الزکاة 11 (1596)، سنن النسائی/الزکاة 25 (2490)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 17 (1812)، (تحفة الأشراف: 6977) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1817)

   صحيح البخاري1483عبد الله بن عمرفيما سقت السماء والعيون أو كان عثريا العشر ما سقي بالنضح نصف العشر
   جامع الترمذي640عبد الله بن عمرسن فيما سقت السماء والعيون أو كان عثريا العشر فيما سقي بالنضح نصف العشر
   سنن أبي داود1596عبد الله بن عمرفيما سقت السماء والأنهار والعيون أو كان بعلا العشر فيما سقي بالسواقي والنضح فنصف العشر
   سنن ابن ماجه1817عبد الله بن عمرفيما سقت السماء والأنهار والعيون أو كان عثريا العشر فيما سقي بالنضح نصف العشر
   المعجم الصغير للطبراني418عبد الله بن عمرفيما سقت السماء العشر فيما سقي بالنضح نصف العشر
   سنن النسائى الصغرى2490عبد الله بن عمرفيما سقت السماء والأنهار والعيون أو كان بعلا العشر ما سقي بالسواني أو النضح نصف العشر
   بلوغ المرام495عبد الله بن عمر‏‏‏‏فيما سقت السماء والعيون او كان عثريا العشر وفيما سقي بالنضح نصف العشر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1817  
´غلوں اور پھلوں کی زکاۃ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو غلہ اور پھل بارش، نہر، چشمہ یا زمین کی تری (سیرابی) سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جسے جانوروں کے ذریعہ سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1817]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بعل نمی سے سراب ہونے والا، یعنی جسے بارش اور آبپاشی کی ضرورت نہ ہو جیسے دریا کے قریب کی زمین میں اگنے والی فصل ہوتی ہے۔
اسی طرح کھجور کے درختوں کی جڑیں بھی بہت گہرائی میں چلی جاتی ہیں تو بعض علاقوں میں ان کو آب پاشی کی ضرورت نہیں رہتی۔
ایسی پیداوار میں دسواں حصہ زکاۃ ہے۔

(2)
سَوَانِی کا واحد سَانِیَة ہے، یعنی وہ اونٹنی جس پر لاد کر پانی لایا جائے۔
آج کل بعض مقامات پر ٹینکروں یا پائپ لائنوں کے ذریعے سے پانی پہنچایا جاتا ہے جس پر کافی خرچ آتا ہے یہ بھی اسی حکم میں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1817   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 495  
´زمین کو مختلف ذرائع سے سیراب کرنے کی صورت میں زکاۃ (عشر) کی نوعیت بھی مختلف ہے`
سیدنا سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو زمین آسمانی بارش اور چشموں سے سیراب ہوتی ہو یا رطوبت والی ہو اس میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے (عشر ہے) اور جو زمین پانی کھینچ کر سیراب کی جاتی ہو۔ اس میں بیسواں حصہ (نصف عشر) ہے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 495]
لغوی تشریح:
«فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ» اس سے مراد بارش، اولے، برف، شبنم وغیرہ ہے، اور یہ خبر مقدم ہے۔
«وَالْعُيُونُ» «عين» کی جمع ہے۔ ان چشموں کو کہتے ہیں جو زمین کا پیٹ چاک کر کے نکل آتے ہیں اور کبھی کبھی ان سے نہریں بن جایا کرتی ہیں اور بسا اوقات نالوں کی صورت میں پانی بہتا ہے اور ان سے پانی لینا آسان ہوتا ہے، نہ تو بار بار ان سے چلو بھرنے پڑتے ہیں اور نہ کسی آلے کے ذریعے سے نکالنے کا تکلف کرنا پڑتا ہے، بلکہ بغیر کسی مشقت و محنت کے ان کا پانی حاصل ہو جاتا ہے۔
«اَوْ كَانَ عَثَرِيّاً» عین اور ثا دونوں پر فتحہ را کے نیچے کسرہ اور یا پر تشدید ہے۔ وہ زمین جو اپنی جڑوں کے ذریعے سے پانی کھنیچ کر خوراک حاصل کر کے پروان چڑھتی ہے۔ زمین میں کیونکہ نمی ہوتی ہے اور پانی سطح زمین کے قریب ہوتا ہے، اس لیے وہ زمین بغیر سیراب کیے، بغیر نالوں کا تکلف کیے پانی حاصل کرلیتی ہے
«اَلَعشْرُ» مبتدا موخر ہے۔ عین پر ضمہ اور شین ساکن ہے۔ ایک چیز کے دس حصے کر لیے جائیں تو اس کا ایک جز عشر کہلائے گا۔
«وَفِيمَا سُقِيَ» صیغہ مجہول۔ اس زمین میں جسے سیراب کیا جائے۔
«بِاانَّصَحِ» نضح کے نون پر فتحہ اور ضاد ساکن ہے۔ اصل میں اس کے معنی ہیں: پانی کا چھڑکاو کرنا اور بہا دینا۔ یہاں وہ اونٹ مراد ہیں جن کے ذریعے سے پانی لاکر زمین سیراب کی جاتی ہے۔ اونٹ کی طرح بیل اور گدھے بھی مراد ہیں جن سے پانی حاصل کرنے کی خدمت لی جاتی ہے۔
«بَعْلً» ا یعنی «عَثَرِيًّا» کے بدلے «بَعْلًا» کا لفظ روایت کیا ہے۔ «بَعْل» کی با پر فتحہ اور عین ساکن ہے۔ اس سے مراد وہ زمین ہے جو سیراب کیے بغیر زمین کی نمی و رطوبت یا آسمانی بارش کے ذریعے سے سیراب ہوتی ہو۔ اس کے معنی بھی قریب قریب وہی ہیں جو «عثري» (نمی والی زمین) کے ہیں، یا پھر دونوں مترادف المعنی ہیں۔
«بِالسَّوَاني اَوِ النَّضْح سَوَانِي»، «سَانِيَةٌ» کی جمع ہے۔ عطف اس کا تقاضا کرتا ہے کہ «سَانِيَةَ» اور «نَضْح» کے معنی الگ الگ ہوں مگر عموماً علماء نے انہیں مترادف قرار دیا ہے جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے لیکن قابل اعتماد بات یہ ہے کہ «سائيه» جانوروں کے ذریعے سے پانی لاکر زمین کو سیراب کرنے کا نام ہے اور نضح عام ہے۔ اس جانوروں کے ساتھ ساتھ سیراب کرنے کے تمام ذرائع و آلات شامل ہیں۔ اس طرح عام عطف خاص پر ہے۔ اور خلاصہ کلام یہی ہے کہ جس زمین کا سیراب کرنا مشقت طلب اور باعث تھکاوٹ ہو۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمین کو مختلف ذرائع سے سیراب کرنے کی صورت میں زکاۃ (عشر) کی نوعیت بھی مختلف ہے، مثلاً: جو زمین مشقت طلب ذریعے سے سیراب ہو، جیسے اونٹ، بیل یا آدمی پانی نکال کر یا لا کر سیراب کرتے ہوں تو اس زمین کی پیداوار پر نصف عشر (بیسواں) حصہ ہے۔ اسی طرح اگر زمین کنوئیں اور ٹیوب ویل کے پانی سے یا پانی خرید کر سیراب کی جاتی ہو تب بھی نصف عشر (بیسواں حصہ) ہے۔ آج کل آبیانہ دے کر زمین سیراب کی جاتی ہے۔ یہ آبیانہ مشقت و محنت کے قائم مقام ہے، لہٰذا موجودہ نظام کے تحت نہری پانی سے سیراب کی جانے والی زمینوں کی پیداوار میں بھی بیسواں حصہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 495   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.