الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
The Book of Ar-Riqaq (Softening of The Hearts)
2. بَابُ مَثَلِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ:
2. باب: آخرت کے سامنے دنیا کی کیا حقیقت ہے۔
(2) Chapter. The example of this world in contrast with the Hereafter.
حدیث نمبر: Q6415
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقوله تعالى: انما الحياة الدنيا لعب ولهو وزينة وتفاخر بينكم وتكاثر في الاموال والاولاد كمثل غيث اعجب الكفار نباته ثم يهيج فتراه مصفرا ثم يكون حطاما وفي الآخرة عذاب شديد ومغفرة من الله ورضوان وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور سورة الحديد آية 20.وَقَوْلِهِ تَعَالَى: أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الأَمْوَالِ وَالأَوْلادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُ الْغُرُورِ سورة الحديد آية 20.
‏‏‏‏ اس کا بیان اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الحدید میں) فرمایا بلاشبہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل کود کی طرح ہے اور زینت ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنے اور مال اولاد کو بڑھانے کی کوشش کا نام ہے، اس کی مثال اس بارش کی ہے جس کے سبزہ نے کاشتکاروں کو بھا لیا ہے، پھر جب اس کھیتی میں ابھار آتا ہے تو تم دیکھو گے کہ وہ پک کر زرد ہو چکا ہے۔ پھر وہ دانہ نکالنے کے لیے روند ڈالا جاتا ہے (یہی حال زندگی کا ہے) اور آخرت میں کافروں کے لیے سخت عذاب ہے اور مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی بھی ہے اور دنیا کی زندگی تو محض ایک دھوکے کا سامان ہے۔

حدیث نمبر: 6415
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم، عن ابيه، عن سهل، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" موضع سوط في الجنة خير من الدنيا وما فيها، ولغدوة في سبيل الله، او روحة خير من الدنيا وما فيها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَغَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں صبح کو یا شام کو تھوڑا سا چلنا بھی «الدنيا وما فيها» سے بہتر ہے۔

Narrated Sahl: I heard the Prophet saying, "A (small) place equal to an area occupied by a whip in Paradise is better than the (whole) world and whatever is in it; and an undertaking (journey) in the forenoon or in the afternoon for Allah's Cause, is better than the whole world and whatever is in it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 424


   صحيح البخاري6415سهل بن سعدموضع سوط في الجنة خير من الدنيا وما فيها غدوة في سبيل الله أو روحة خير من الدنيا وما فيها
   صحيح البخاري3250سهل بن سعدموضع سوط في الجنة خير من الدنيا وما فيها
   سنن ابن ماجه4330سهل بن سعدموضع سوط في الجنة خير من الدنيا وما فيها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4330  
´جنت کے احوال و صفات کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک کوڑے کی جگہ «دنيا وما فيها» سے بہتر ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4330]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
گھوڑے کو چلانے کے لیے سوار جو چابک اور کوڑا استعمال کرتا ہے۔
وہ زمین پہ رکھا جاتا ہے تو بہت کم جگہ گھیرتا ہے۔
دنیا میں اتنی سی زمین کی کوئی اہمیت نہیں لیکن جنت کا اتنا سا حصہ بھی بے انتہا قیمتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت کی نعمتیں ابدی ہے جبکہ دنیا کی بڑی سے بڑی دولت بھی ختم ہونے والی ہے۔

(2)
کرہ ارض کا رقبہ کروڑوں مربع میل ہے۔
انسان کے لیے اس کی مٹی بھی قیمتی ہے ہم زمین کا ایک چھوٹا سا خالی ٹکڑا لاکھوں روپے دے کر خریدتے ہے پھر اس پر مزید اخراجات کے بعد مکان تعمیر ہوتا ہے۔
زمین کے اندر بہت سی اقسام کی معدنیات کے پیش بہا خزانے موجود ہیں سونے کی ایک کان یا پیٹرول کے ایک کنویں کی قیمت کا اندازہ لگانا مشکل ہے جبکہ زمین میں سونے سے زیادہ قیمتی معدنیات کے عظیم ذخائر موجود ہیں۔
زمین میں موجود فصلوں درختوں جڑی بوٹیوں مویشیوں جنگلی جانوروں وغیرہ میں سے کسی ایک کی کل مقدار کی قیمت کا اندازہ لگانا چاہیں تو حساب ممکن نہیں۔
اسکے علاوہ جو سمندر میں حیوانی، نباتی اور معدنی دولت موجود ہے وہ خشکی کے خزانوں سے کہیں زیادہ ہے۔
ان تمام دولتوں کی مجموعی مقدار کسقدر ہوسکتی ہے؟ انسان اسکا سادہ سا اندازہ لگانے سے بھی عاجز ہے۔
لیکن یہ سب خزانے مل کر بھی جنت کے چند انچ کے ٹکڑے کی قیمت بھی نہیں بن سکتے۔

(3)
کم سے کم درجے کے جنتی کو جنت میں دنیا کی بڑی سے بڑی سلطنت سے کئی گنا زیادہ جگہ ملے گی۔
اس میں طرح طرح کے محلات بھی ہونگے۔
ہر قسم کے پھل اور میوے بھی ہونگے۔
اور بے شمار نعمتیں بھی ہونگی۔
کتنا کم عقل ہے انسان کہ دنیا کے معمولی سے مفاد پر اتنی عظیم دولت عزت عظمت اور شان قربان کردیتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4330   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6415  
6415. حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے:جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ دنیا وما فیھا سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں صبح کو یا شام کو چلنا بھی دنیا ومافیھا سے بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6415]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر جنت میں چھڑی رکھنے کی جگہ دنیا وما فیھا سے بہتر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوڑے سے کم تر چیز دنیا وما فیھا کے برابر ہے۔
یہی حقیقت ایک دوسری حدیث میں بیان ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال بس ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈبو کر نکال لے، پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس (انگلی)
کو لگ کر آئی ہے۔
(صحیح مسلم، الجنة و نعیمھا، حدیث: 7197 (2858)
مطلب یہ ہے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا اس قدر بے حقیقت اور بے حیثیت ہے جتنا کہ دریا کے مقابلے میں انگلی پر لگا ہوا پانی۔
(2)
یہ مثال بھی صرف سمجھانے کے لیے ہے ورنہ دنیا کی آخرت کے مقابلے میں یہ نسبت بھی نہیں ہے۔
دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب محدود اور متناہی اور اس کے مقابلے میں آخرت لامحدود اور لامتناہی ہے۔
محدود و متناہی اور لامحدود اور لامتناہی کے درمیان کوئی نسبت نہیں ہوتی۔
جب حقیقت یہ ہے تو وہ شخص کس قدر محروم ہے جو دنیا حاصل کرنے کے لیے تو خوب محنت کرے مگر آخرت کی تیاری کے لیے اسے کوئی فکر نہ ہو۔
واللہ المستعان (3)
اس سے بھی زیادہ وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک کان کٹے بکری کے مردہ بچے کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا:
تم میں سے کوئی ایک درہم کے بدلے اس مرے ہوئے بچے کو خریدنا پسند کرے گا؟ صحابہ نے کہا:
ہم تو اسے کسی قیمت پر خریدنا پسند نہیں کریں گے۔
آپ نے فرمایا:
اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جتنا ذلیل تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ ہے۔
(صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7418 (2957)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6415   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.