الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
35. بَابُ اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ:
35. باب: دو یا زیادہ آدمی ہوں تو جماعت ہو سکتی ہے۔
(35) Chapter. Two or more than two persons are considered as a group (for the congregational prayers).
حدیث نمبر: 658
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثنا يزيد بن زريع، قال: حدثنا خالد، عن ابي قلابة، عن مالك بن الحويرث، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا حضرت الصلاة فاذنا واقيما، ثم ليؤمكما اكبركما".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انہوں نے مالک بن حویرث سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کا وقت آ جائے تو تم دونوں اذان دو اور اقامت کہو، پھر جو تم میں بڑا ہے وہ امام بنے۔

Narrated Malik bin Huwairith: Prophet said (to two persons), "Whenever the prayer time becomes due, you should pronounce Adhan and then Iqama and the older of you should lead the prayer."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 627


   صحيح البخاري6008مالك بن الحويرثارجعوا إلى أهليكم فعلموهم ومروهم وصلوا كما رأيتموني أصلي وإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم ثم ليؤمكم أكبركم
   صحيح البخاري7246مالك بن الحويرثارجعوا إلى أهليكم فأقيموا فيهم وعلموهم ومروهم وذكر أشياء أحفظها أو لا أحفظها وصلوا كما رأيتموني أصلي فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم
   صحيح البخاري685مالك بن الحويرثلو رجعتم إلى بلادكم فعلمتموهم مروهم فليصلوا صلاة كذا في حين كذا وصلاة كذا في حين كذا وإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم
   صحيح البخاري819مالك بن الحويرثلو رجعتم إلى أهليكم صلوا صلاة كذا
   صحيح البخاري658مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فأذنا وأقيما ثم ليؤمكما أكبركما
   صحيح البخاري2848مالك بن الحويرثأذنا وأقيما وليؤمكما أكبركما
   صحيح البخاري631مالك بن الحويرثارجعوا إلى أهليكم فأقيموا فيهم وعلموهم ومروهم وذكر أشياء أحفظها أو لا أحفظها وصلوا كما رأيتموني أصلي فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم
   صحيح البخاري628مالك بن الحويرثارجعوا فكونوا فيهم وعلموهم وصلوا فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم
   صحيح البخاري630مالك بن الحويرثإذا أنتما خرجتما فأذنا ثم أقيما ثم ليؤمكما أكبركما
   صحيح مسلم1535مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم ثم ليؤمكم أكبركم
   صحيح مسلم1538مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فأذنا ثم أقيما وليؤمكما أكبركما
   جامع الترمذي205مالك بن الحويرثإذا سافرتما فأذنا وأقيما وليؤمكما أكبركما
   سنن أبي داود589مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فأذنا ثم أقيما ثم ليؤمكما أكبركما سنا
   سنن النسائى الصغرى670مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فأذنا ثم أقيما ثم ليؤمكما أحدكما
   سنن النسائى الصغرى635مالك بن الحويرثإذا سافرتما فأذنا وأقيما وليؤمكما أكبركما
   سنن النسائى الصغرى782مالك بن الحويرثإذا سافرتما فأذنا وأقيما وليؤمكما أكبركما
   سنن النسائى الصغرى636مالك بن الحويرثارجعوا إلى أهليكم فأقيموا عندهم وعلموهم ومروهم إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم
   سنن ابن ماجه979مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فأذنا وأقيما وليؤمكما أكبركما
   بلوغ المرام155مالك بن الحويرث‏‏‏‏إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم احدكم
   بلوغ المرام259مالك بن الحويرث صلوا كما رأيتموني أصلي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 155  
´نماز کے لیے اذان کہنا`
«. . . وعن مالك بن الحويرث رضي الله عنه قال: قال لنا النبي صلى الله عليه وآله وسلم: إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم احدكم . . .»
. . . سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ارشاد فرمایا جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی آدمی تمہیں بلانے کے لیے اذان کہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 155]

راوئ حدیث:
(سیدنا مالک بن حویرث لیثی رضی اللہ عنہ) حویرث کی حا پر ضمہ، واؤ پر فتحہ، یا ساکن اور راء مکسور ہے۔ ان کی کنیت ابوسلمان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حصول تعلیم دین کے لیے آئے تھے اور بیس روز تک آپ کے پاس قیام کیا۔ جب واپس جانے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستے میں جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور جو تم میں سے عمر میں بڑا ہو وہ جماعت کرائے۔ اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ مسافروں کو بھی اذان اور جماعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کو برتری اور فضیلت حاصل ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 155   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 628  
´سفر میں ایک ہی شخص اذان دے`
«. . . عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِي، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً وَكَانَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمَّا رَأَى شَوْقَنَا إِلَى أَهَالِينَا، قَالَ:" ارْجِعُوا فَكُونُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَصَلُّوا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ . . .»
. . . مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم (بنی لیث) کے چند آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں بیس راتوں تک قیام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اپنے گھر پہنچنے کا شوق محسوس کر لیا تو فرمایا کہ اب تم جا سکتے ہو۔ وہاں جا کر اپنی قوم کو دین سکھاؤ اور (سفر میں) نماز پڑھتے رہنا۔ جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 628]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں وضاحت فرمائی کہ سفر میں ایک اذان کہنی چاہئے اور دلیل میں حدیث پیش فرمائی کہ جب تم گھر کی طرف لوٹو ان کو اسلام کے احکام سکھاؤ نماز پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے۔۔۔۔
تطبیق کی صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ سفر میں بھی اذان کہنی چاہئے کیوں کہ وہ لوگ ابھی بالفعل سفر میں تھے اور لازم ہوا اذان دینا بھی کیوں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه مطابقة للترجمة مع ان ظاهره يخالفها لقوله، فكونوا فيهم و علموهم فاذا سيدنا فظاهره ان ذالك بعد وضوء لهم الى اهلهم و تعليمهم، لكن المصنف اشار الى الرواية الاتية فى الباب الذى بعد هذا فان فيها اذا انتما خرجتما فاذنا» [فتح الباري ج2، ص141]
ظاہر میں ترجمۃ الباب اس قول کے مخالف نظر آتا ہے کہ گھر والوں کو دین سکھاؤ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو اذان کہو لیکن حقیقت میں (مخالفت نہیں ہے کیوں کہ) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری روایت کی طرف اشارہ فرمایا جو اس کے بعد والے باب میں مرقوم ہے کہ جب تم دونوں سفر کو نکلو تو اذان دیا کرو پھر اقامت کہا: کرو۔
لہٰذا یہ بات واضح ہوئی کہ باب میں جو سفر کا ذکر فرمایا ہے مصنف کا اشارہ دوسری حدیث کی طرف ہے جس میں واضح طور پر یہ حکم ہے کہ سفر میں بھی آپ کو اذان دینی چاہئے۔

◈ ابن الملقن اور ابن المنیر رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ:
حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ان کے احوال کی وجہ سے کہ جب آپ اپنے گھر کو لوٹیں (تو اذان دیں نماز کے لئے) نہ کہ سفر میں۔۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کلام قاصر نہیں ہے اس پر بلکہ یہ عام ہے ان کے لئے کہ جب سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے (سفر میں) یعنی مؤذن کے اذان کا حکم اس وقت سے ہی ہو گیا جب صحابہ نے سفر کا قصد فرمایا۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ ديكهئے: [التوضيح، ج6، ص378، المتواري، ص94]

فائدہ نمبر 1:
امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک کئی مؤذن رکھنے جائز ہیں لیکن مناسبت یہ ہے کہ سب ایک بار اذان نہ دیں بلکہ ایک بعد دوسرا اذان دے اور اگر مسجد بڑی ہو تو جائز ہے کہ ہر طرف میں ایک ایک مؤذن اذان دے خواہ ایک ہی وقت میں ہوں اسی طرح اگر شہر بڑا ہو اور اس کے کنارے دور دور ہوں تو ہر طرف ایک ایک مؤذن ایک وقت میں اگر اذان دے تو وہ بھی جائز ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب علم اور فضیلت میں سب برابر ہوں تو بڑی عمر والا امام بنے اور اذان میں بڑے چھوٹے کا کچھ لحاظ نہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امامت اذان سے افضل ہے۔ «والله اعلم بالصواب» [فيض الباري از علامه ابوالحسن سيالكوٹي ج3، ص736]

فائدہ نمبر 2:
مذکورہ بالا حدیث پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت دی تو آپ نے ان کے گھر والوں کو بھی نماز کی تعلیم دینے کا حکم دیا اس میں نکتہ یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہوتا تو لازماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں فرق کے بارے میں آگاہی فرما دیتے مگر حدیث میں نماز کا طریقہ عام ہے۔ لہٰذا مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الاراء کتاب تاریخ صغیر میں فرماتے ہیں! «كانت ام الدرداء تجلس فى صلاتها جلسة الرجل وكانت فقيهة .» [تاريخ الصغير ص96]
یعنی ام درداء جو فقیہ تھیں نماز میں مردوں کی طرح بیٹھا کرتی تھیں، ہماری معلومات کے مطابق عورتوں کی نماز کو تین جگہوں پر مردوں کی نماز سے مختلف کیا جاتا ہے۔
➊ رفع الیدین میں مرد کانوں تک اور عورت کاندھے تک ہاتھ اٹھائیں۔
➋ عورت سینے پر اور مرد ناف پر ہاتھ باندھے۔
➌ عورت سجدے میں پیٹ رانوں سے چمٹا لے جب کہ مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں۔
ان تینوں مسائل اور تخصیص کی احناف کے پاس کوئی صریح اور غیر مجروح روایت کے طور پر موجود نہیں ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
احناف کہتے ہیں کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور عورتیں کندھوں تک عورت اور مرد کی نماز میں فرق کا یہ حکم کسی حدیث میں وارد نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج2، ص222]

◈ امام شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔ اسی طرح مقدار رفع میں بھی فرق کرنے کی کوئی صریح دلیل منقول نہیں ہے جیسا کہ حنفیہ کا مذہب ہے کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور خواتین کندھوں تک۔ حنفیہ کے پاس اس طرق کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ [نيل الاوطار شرح منتقي الاخبار ج2، ص198]
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالیشان پر بھی غور کیا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«صلوا كما رايتموني اصلي» [صحيح البخاري: 631]
نماز اسی طرح سے پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو

مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کرنے والی روایت کا مختصر سا جائزہ:
«عن ابن عمر مرفوعاً اذا جلست المراة فى الصلاة . . . . . . . .» [بيهقي 2/223]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو دائیں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ (کرے) تو اہنا پیٹ اپنی رانوں سے ملائے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ اسے دیکھ کر فرماتے ہیں اے (فرشتو) گواہ ہو جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔
↰ اس کی سند میں راوی محمد بن القاسم البلحی کا ذکر حالت معلوم نہیں ہے تفصیل کے لئے لسان المیزان لابن حجر رحمہ اللہ [ت 7997] اس روایت کا دوسرا راوی عبید بن محمد اسرفی ہے اس کے حالات نا معلوم ہیں۔
لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [السنن الكبري، 2/ 222]
➋ دوسری پیش کی جانے والی تصویر کا حال: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں خواتین کس طرح پڑھا کرتی تھی (نماز) تو انہوں نے فرمایا: پہلے چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں۔ [جامع المسانيد 1؍400]

جامع المسانید محمود الخوارزمی کی کتاب ہے اس کی سند میں کئی راویوں کے حالات نامعلوم ہیں۔ مثلاً:
➊ ابراھیم بن مہدی اس کو محدثین نے جھوٹا کہا ہے۔
➋ زر بن نجح البصری کے حالات نہیں ملے۔
➌ علی بن محمد البزار کے حالات نہیں مل سکے۔
➍ قاضی عمر بن الحسن بن علی الاشنانی مختلف فیہ راوی ہے۔
◈ امام دار قطنی فرماتے ہیں:
«و كان يكذب» [التقريب: 257، ديكهئے سوالات الحاكم للدار قطني: 252]
اور وہ جھوٹ بولتا تھا
لہٰذا یہ روایت مردود ہے استدلال کے قابل نہیں ان روایات کے علاوہ اور بھی روایات ہیں مگر کوئی بھی کلام سے خالی نہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 178   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 635  
´سفر میں دو شخص ہوں تو ان کے اذان کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچا زاد بھائی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (دوسری بار انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ایک ساتھی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم دونوں سفر کرو تو دونوں اذان کہو ۱؎ اور دونوں اقامت کہو، اور جو تم دونوں میں بڑا ہو وہ امامت کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 635]
635 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر مسافر ایسی جگہ ہے جہاں اذان نہیں ہوتی یا سنائی نہیں دیتی تو اسے اذان کہہ کر نماز پڑھنی چاہیے۔ ایک سے زائد ہوں تو نماز باجماعت کرائیں، البتہ اگر اذان ہوتی ہے یا سنائی دیتی ہے تو پھر اذان دینا کوئی ضروری نہیں۔ «أذانُ الحيِّ يكفينا»
➋ اذان تو کوئی شخص بھی کہہ سکتا ہے چھوٹا ہو یا بڑا، عالم ہو یا عامی، مگر جماعت کے لیے مناسب یہ ہے کہ افضل ہو، علم میں یا عمر میں یا مرتبے میں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کے لیے بڑے کی قید لگائی جب کہ اذان کے لیے صرف یہ فرمایا کہ اذان کہو، یعنی تم میں اذان و اقامت ہونی چاہیے، کوئی ایک کہہ دے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 635   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 636  
´حضر میں دوسرے کی اذان پر آدمی کے اکتفاء کرنے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے، ہم نے آپ کے پاس بیس روز قیام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحیم (بہت مہربان) اور نرم دل تھے، آپ نے سمجھا کہ ہم اپنے گھر والوں کے مشتاق ہوں گے، تو آپ نے ہم سے پوچھا: ہم اپنے گھروں میں کن کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں؟ ہم نے آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا: تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ، (اور) ان کے پاس رہو، اور (جو کچھ سیکھا ہے اسے) ان لوگوں کو بھی سیکھاؤ، اور جب نماز کا وقت آ پہنچے تو انہیں حکم دو کہ تم میں سے کوئی ایک اذان کہے، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 636]
636 ۔ اردو حاشیہ:
➊ سابقہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: تم اذان کہو۔ اس سے غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ شاید سب اذان کہیں۔ یہ روایت وضاحت کرتی ہے کہ صرف ایک آدمی اذان کہے، دوسرے لوگ اسی کی اذان پر اکتفا کریں۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔
➋ احکام دین کا علم حاصل کرنا چاہیے اگرچہ اس کے لیے دور دراز کا سفر بھی کرنا پڑے۔
➌ دین سے ناواقف آدمی کو تعلیم دینا عالم پر فرض ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 636   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 670  
´ہر ایک کا اپنے لیے الگ الگ اقامت کہنے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اور میرے ایک ساتھی سے فرمایا: جب نماز کا وقت آ جائے تو تم دونوں اذان دو، پھر دونوں اقامت کہو، پھر تم دونوں میں سے کوئی ایک امامت کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 670]
670 ۔ اردو حاشیہ: ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ تم سب اذان کہو اور سب اقامت کہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی ایک شخص اذان اور اقامت کہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 635، 636) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف اسفار میں صرف ایک ہی اذان کہلوائی ہے، نیز سفر اور حضر کا فرق بھی معتبر نہیں، حکم ایک ہی ہے، لہٰذا اس حدیث سے امام نسائی رحمہ اللہ کا ہر آدمی کے لیے اقامت کی مشروعیت کا استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 670   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 782  
´امامت کے لیے عمردراز شخص کو آگے بڑھانے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچازاد بھائی (اور کبھی انہوں) نے کہا: میں اور میرے ایک ساتھی، دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم دونوں سفر کرو تو تم دونوں اذان اور اقامت کہو، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 782]
782 ۔ اردو حاشیہ: بڑی عمر والا امامت اس وقت کرائے گا جب سب علم میں برابر ہوں۔ یہ دونوں اکٹھے مسلمان ہوئے، اکٹھے آئے اور اکٹھے آپ کے پاس رہے، لہٰذا علم میں برابر تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 782   
    الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 6008  
´تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز کی ہئیت ایک جیسی ہے`
«. . . صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّيهُ . . .»
. . . اور بتاؤ اور تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/ بَابُ رَحْمَةِ النَّاسِ وَالْبَهَائِمِ:/ ح: 6008]
------------------
مرد اور عورت کی نماز میں فرق
------------------
سوال: حنفی حضرات مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں فرق روا رکھتے ہیں۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی جو کیفیت وہئیت بیان فرمائی ہے اسے ادا کرنے میں مرد و زن برابر ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ اُصَلِّيْ» [بخاري، كتاب الأذان: باب رحمة الناس والبهائم 6008، أحمد 52/5، إرواء الغليل 213]
تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
یاد رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز کی ہئیت ایک جیسی ہے، سب کے لیے تکبیر تحریمہ، قیام، ہاتھوں کا باندھنا، دعائے استفتاح کا پڑھنا، سورۂ فاتحہ، آمین، اس کے بعد کوئی اور سورت، پھر رفع الیدین، رکوع، قیام ثانی، رفع الیدین، سجدہ، جلسہ استراحت، قعدہ اولیٰ، تشہد، تحریک اصابع، قعدہ اخیرہ، تورک، درود اور اس کے بعد دعا، سلام اور ہر مقام پر پڑھی جانے والی مخصوص دعائیں سب ایک جیسی ہی ہیں۔
عام طور پر حنفی علماء کی کتابوں میں جو مردوں اور عورتوں کی نماز کا فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں صرف کندھوں تک، مرد حالت قیام میں زیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، حالت سجدہ میں مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں اور عورتیں اپنی رانیں پیٹ سے چپکا لیں، یہ فرق کسی بھی صحیح و صریح حدیث میں مذکور نہیں۔
چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وَاعْلَمْ اَنَّ هٰذِهِ السُّنَّةَ تَشْتَرِكُ فِيْهَا الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ وَلَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي الْفَرْقِ بَيْنَهُمَا فِيْهَا وَكَذَالَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي الْفَرْقِ بَيْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ فِيْ مِقْدَارِ الرَّفْعِ رُوِيَ عَنِ الْحَنَفِيَّةِ اَنَّ الرَّجُلَ يَرْفَعُ اِلَي الْاُذُنَيْنِ وَالْمَرْأَةُ اِلَي الْمَنْكِبَيْنِ لِاَنَّهُ اَسْتَرُ لَهَاوَلَا دَلِيْلَ عَلٰي ذٰلِكَ كَمَاعَرَفْتَ» [نيل الأوطار 198/2]
اور جان لیجیے کہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہیں اور ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی جو ان دونوں کے درمیان اس کے بارے میں فرق پر دلالت کرتی ہو اور نہ کوئی ایسی حدیث ہی وارد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اٹھانے کی مقدار کے فرق پر دلالت کرتی ہو۔ احناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک کیونکہ یہ اس کے لیے زیادہ ساتر ہے، لیکن اس کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔
شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي التَّفْرِقَهِ فِي الرَّفْعِ بَيْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ» [فتح الباري 222/2، عون المعبود 263/1]
مرد اور عورت کے درمیان تکبیر کے لئے ہاتھ اٹھانے کے فرق کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں۔
➋ مردوں اور عورتوں کو حالت قیام میں یکساں طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سینے پر باندھیں۔ خاص طور پر عورتوں کے لیے علیحدہ حکم دینا کہ صرف وہی سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد ناف کے نیچے باندھیں، اس کے متعلق حنفیوں کے پاس کوئی صریح اور صحیح حدیث موجود نہیں۔
علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں:
«فاعلم ان مذهب الامام ابي حنيفة ان الرجل يضع اليدين فى الصلاة تحت السرة و المرأة تضعهما علي الصدر ولم يرو عنه ولا عن اصحابه شيء خلاف ذٰلك» [تحفة الأحوذي 213/1]
پس جان لو کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے اور عورت سینہ پر، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی اور قول مروی نہیں۔
محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وضعهما علي الصدر الذى ثبت فى السنة وخلافه اما ضعيف او لا اصل له» [صفة صلاة النبى ص/ 88]
اور سینے پر ہاتھ باندھنا سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو عمل ہے وہ یا تو ضعیف ہے یاپھر بے اصل ہے۔
➌ حالت سجدہ میں مردوں کا اپنی رانوں کو پیٹ سے دور رکھنا اور عورتوں کا سمٹ کر سجدہ کرنا، یہ حنفی علماء کے نزدیک ایک مرسل حدیث کی بنیاد پر ہے، جس میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورتوں کا حکم اس بارے میں مردوں جیسا نہیں۔
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مُرْسَلٌ لَا حُجَّةَ فِيْهِ رَوَاهُ اَبُوْ دَاؤُدَ فِي الْمَرَاسِيْلِ» [صفة صلاة النبى ص/89]
یہ روایت مرسل ہے، جو قابل حجت نہیں۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اسے مراسیل میں یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے۔
لیکن یہ روایت منقطع ہے اور اس کی سند میں موجود ایک راوی سالم محدثین کے نزدیک متروک ہے۔
علامہ ابن الترکمانی حنفی نے اس روایت کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔ [الجوهر النقي على السنن الكبري للبيهقي 2/ 223]
اس کے متعلق حنفی علماء ایک اور روایت پیش کرتے ہیں، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے، اس طرح کہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردے کا موجب ہو۔ [بيهقي فى السنن الكبريٰ 222/2، 223]
اس روایت کے متعلق خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے صراحت کر دی ہے کہ اس جیسی ضعیف روایت سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک اثر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے:
«اِنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ نِسَاءَهُ يَتَرَبَّعْنَ فِي الصَّلَاةِ» [مسائل أحمد لابنه عبدالله ص/71]
وہ اپنی عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ نماز میں چار زانوں بیٹھیں۔
لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن عمر العمری راوی ضعیف ہے۔ [تقريب التهذيب 182]
پس معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عورتوں کے سجدہ کر نے کا مروج طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر اس طریقے کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشاد مروی ہیں، چند ایک یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
«لَايَنْبَسِطْ اَحَدُكُمْ ذِرَعَيْهِ اِنْبِسَاطَ الْكَلْبِ» [بخاري، كتاب الأذان: باب لايفترش زراعيه فى السجود 822]
تم میں سے کوئی بھی حالتِ سجدہ میں اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔
«اِعْتَدِلُوْا فِي السُّجُودِ، وَلَا يَفْتَرِشُ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ» [أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب صفة السجود 897]
سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔
غرض نماز کے اندر ایسے کاموں سے روکا گیا ہے جو جانوروں کی طرح کے ہوں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس طرح بیٹھنا جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے یا لومڑی کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنا یا جنگلی جانوروں کی طرح افتراش یا کتے کی طرح اقعاء یا کوے کی طرح ٹھونگے مارنا یا سلام کے وقت شریر گھوڑوں کی دم کی طرح ہاتھ اٹھانا یہ سب افعال منع ہیں۔ [زاد المعاد1/ 116]
پس ثابت ہوا کہ سجدہ کا اصل مسنون طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا تھا اور کتب احادیث میں یوں مروی ہے:
«إِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا» [بخاري، كتاب الأذان: باب سنة الجلوس فى التشهد 828]
جب آپ سجدہ کرتے تو اہنے ہاتھوں کو زمین پر نہ بچھاتے اور نہ اپنے پہلوؤں سے ہی ملاتے تھے۔
قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وارد ہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے ہیت نماز کا ‬ فرق مروی نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت سے جملہ امہات المؤمنین، صحابیات اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوتا تھا۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بسند صحیح ام درداء رضی اللہ عنہا کے متعلق نقل کیا ہے:
«انهاكانت تجلس فى صلاتها جلسة الرجل و كانت فقيهة» [التاريخ الصغير للبخاري 90]
وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے:
اس طرح نماز پڑھو، جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔ [بخاري: 6008]
اس حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں۔
پانچویں یہ کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحاب کرام، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور صلحائے امت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعوٰی کرتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کیا ہے۔ بلکہ امام ابوحنیفہ کے استاد امام ابراہیم نخعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے: «تَفْعَلُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ كَمَا يَفْعَلُ الرَّجُلُ» [ابن أبى شيبة 2/75/1]
نماز میں عورت بھی بالکل ویسے ہی کرے جیسے مرد کرتا ہے۔
جن علماء نے عورتوں کا نماز میں تکبیر کے لیے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا، قیام میں سینے پر ہاتھ باندھنا اور سجدے میں زمین کے ساتھ چپک جانا موجب ستر بیان کیا ہے وہ دراصل قیاس فاسد کی بنا پر ہے، کیونکہ جب اس کے متعلق قرآن و سنت خاموش ہیں تو کسی عالم کو یہ حق کہاں پہنچتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کر کے ازخود دین میں اضافہ کرے؟ البتہ نماز کی کیفیت و ہئیت کے علاوہ چند چیزیں مرد و عورت کی نماز میں مختلف ہیں:
➊ عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سر پر اوڑھنی لیں اور اپنے پاؤں بھی ڈھانپیں۔ اس کے بغیر بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ حدیث نبوی ہے:
«لَا يَقْبَلُ اللهُ صَلَاةَ الْحَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ» [ابن ماجه، كتاب الطهارة: باب إذاحاضت الجارة لم تصل إلابخمار 655، أبوداؤد 641، أحمد 150/6]
اللہ تعالیٰ کسی بھی بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔
لیکن مردوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھیں جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے:
«مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ» [بخاري، كتاب اللباس: باب ما أسفل من الكعبين فهو فى النار 5787]
تہ بند کاجو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا وہ آگ میں ہے۔
➋ عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو ان کے ساتھ پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو جائے، مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو۔
امام ابوبکر ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے مصنف میں اور امام حاکم رحمہ اللہ نے سیدنا عطا رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے:
«عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا اَنَّهَا كَانَتْ تَؤُمُّ النِّسَاءَ فَتَقُوْمُ مَعَهُنَّ فِي الصَّفِّ» [دارقطني 404/1]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔
اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں آتا ہے:
«انها امت النساء فقامت و سطهن» مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: [عون المعبود2/ 212]
انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔
➌ امام جب نماز میں بھول جائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں، جیسا کہ صحیح حدیث میں آتا ہے:
«التَّسْبِيْحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيْقُ لِلنِّسَاءِ» [بخاري، كتاب العمل فى الصلاة: بَابُ التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ 1203]
مردوں کے لیے سبحان اللہ اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے۔
➍ مرد کو نماز کسی صورت میں بھی معاف نہیں لیکن عورت کو حالت حیض میں فوت شدہ نماز کی قضا نہیں ہوتی جیسا کہ یہ مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
➎ اسی طرح عورتوں کی سب سے آخری صف ان کی پہلی صف سے بہتر ہوتی ہے اور مردوں کی پہلی صف ان کی آخری صف سے بہتر ہوتی ہے۔ [مسلم، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف وإقامتها وفضل الأول فالأول 440]
یہ تمام مسائل اپنی جگہ درست ہیں مگر قرآن و سنت سے ثابت شدہ فرق کو غیر ثابت شدہ کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ تفریقات علمائے احناف کی خود ساختہ ہیں جن کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں۔
   احکام و مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 196   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث979  
´کون شخص امامت کا زیادہ حقدار ہے؟`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، جب ہم واپس ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جب نماز کا وقت ہو جائے تو اذان و اقامت کہو، اور تم میں جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 979]
اردو حاشہ:
فوائد مسائل:

(1)
سفر میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔

(2)
دو آدمی بھی جماعت سے فرض نماز ادا کرسکتے ہیں۔

(3)
اذان یا اقامت کوئی بھی آدمی کہہ سکتا ہے خواہ بڑی عمروالا ہویا کم عمر۔

(4)
امامت کا زیادہ مستحق قرآن زیادہ جاننے والا ہے۔
لیکن چونکہ یہ دونوں صحابی اکھٹے ہی آئے تھے۔
لہذا قرآن کے علم میں دونوں برابر تھے۔
اس لئے رسول اللہﷺ نے عمر کا لحاظ فرمایا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 979   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 658  
658. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے اور تکبیر کہے پھر تم میں سے بڑی عمر والا امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:658]
حدیث حاشیہ:
اس سے پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ دوشخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو سفر کا ارادہ رکھتے تھے۔
انھیں دواصحاب کو آپ نے یہ ہدایت فرمائی تھی۔
اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ اگرصرف دو آدمی ہوں تو بھی نماز کے لیے جماعت کرنی چاہئیے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
المُرَاد بقوله أذنا أَي من أحب مِنْكُمَا أَن يُؤذن فليؤذن وَذَلِكَ لِاسْتِوَائِهِمَا فِي الْفضل وَلَا يعْتَبر فِي الْأَذَان السن بِخِلَاف الْإِمَامَة۔
(فتح الباری)
حافظ ابن حجر لفظ آذنا کی تفسیر کرتے ہیں کہ تم میں سے جو چاہے اذان دے یہ اس لیے کہ وہ دونوں فضیلت میں برابر تھے اور اذان میں عمر کا اعتبار نہیں۔
بخلاف امامت کے کہ اس میں بڑی عمر والے کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 658   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:658  
658. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے اور تکبیر کہے پھر تم میں سے بڑی عمر والا امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:658]
حدیث حاشیہ:
(1)
مذکورہ عنوان حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ایک حدیث ہے جسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 972)
امام بخاری ؒ کا یہ اصول ہے کہ اگر کوئی حدیث باعتبار لفظ ان کی شرط کے مطابق نہ ہو لیکن باعتبار معنی وہ صحیح ہو تو دیگر روایات سے اس کی تائید کرتے ہیں۔
آپ نے اسی اصول کے پیش نظر سنن ابن ماجہ کی حدیث کو عنوان قرار دیا ہے اور اپنی پیش کردہ روایت سے اس کے مضمون کو ثابت کیا ہے کہ جماعت کا اطلاق اگرچہ کم از کم تین پر ہوتا ہے مگر نماز میں دو پر بھی جماعت کا اطلاق ہوسکتا ہے، یعنی اگر دو آدمی باجماعت نماز ادا کریں تو بھی انھیں پوری جماعت کا ثواب ملے گا۔
(2)
امام بخاری کےاستدلال پر اعتراض کیا گیا ہے کہ حضرت مالک بن حویرث ؓ کے ہمراہ تو ان کے دیگر ساتھی بھی تھے۔
روایت میں صرف دو کا ذکر تصرف رواۃ معلوم ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ دو مختلف واقعات ہیں:
ایک دفعہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ آئے تھے اور دوسری دفعہ وہ اپنے ساتھی کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ جماعت کم از کم امام اور ماموم(مقتدی)
پر مشتمل ہوتی ہے، خواہ ماموم آدمی یا بچہ یا عورت ہو۔
(فتح الباري: 185/2) (3)
علم کے اعتبار سے وہ دونوں برابر تھے، اس لیے اذان اور تکبیر کے متعلق بلا تفریق کسی ایک کو یہ فریضہ سرانجام دینے کا حکم دیا لیکن امامت میں بڑی عمر والے کا لحاظ رکھا گیا ہے کیونکہ اگر نمازی علم وفضل میں برابر ہوں تو جماعت کے لیے بڑی عمر والے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 658   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.