الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تقدیر کے بیان میں
The Book of Al-Qadar (Divine Preordainment)
10. بَابُ: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} :
10. باب: آیت اور وہ خواب جو ہم نے تم کو دکھایا ہے، اسے ہم نے صرف لوگوں کے لیے آزمائش بنایا ہے، کی تفسیر۔
(10) Chapter. The Statement of Allah: “...And We made not the vision which We showed you [O Muhammad as an actual eye witness and not a dream on the night of Al-Isra], but a trial for the mankind...” (V.17:60)
حدیث نمبر: 6613
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما:" وما جعلنا الرؤيا التي اريناك إلا فتنة للناس سورة الإسراء آية 60، قال: هي رؤيا عين اريها رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة اسري به إلى بيت المقدس"، قال:" والشجرة الملعونة في القرآن، قال: هي شجرة الزقوم".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ: هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ"، قَالَ:" وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ، قَالَ: هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس‏» اور وہ رؤیا جو ہم نے تمہیں دکھایا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ کے متعلق کہا کہ اس سے مراد آنکھ کا دیکھنا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معراج کی رات دکھایا گیا تھا۔ جب آپ کو بیت المقدس تک رات کو لے جایا گیا تھا، کہا کہ قرآن مجید میں «الشجرة الملعونة» سے مراد «زقوم‏.‏» کا درخت ہے۔

Narrated Ibn `Abbas: (regarding the Verse) "And We granted the vision (Ascension to the heavens "Miraj") which We showed you (O Muhammad as an actual eye witness) but as a trial for mankind.' (17.60): Allah's Apostle actually saw with his own eyes the vision (all the things which were shown to him) on the night of his Night Journey to Jerusalem (and then to the heavens). The cursed tree which is mentioned in the Qur'an is the tree of Az-Zaqqum.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 77, Number 610


   صحيح البخاري4716عبد الله بن عباسوما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس قال هي رؤيا عين أريها رسول الله ليلة أسري به والشجرة الملعونة
   صحيح البخاري6613عبد الله بن عباسوما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس
   صحيح البخاري3888عبد الله بن عباسوما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس
   جامع الترمذي3134عبد الله بن عباسوما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس قال هي رؤيا عين أريها النبي ليلة أسري به إلى بيت المقدس الشجرة الملعونة في القرآن هي شجرة الزقوم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6613  
´آیت اور وہ خواب جو ہم نے تم کو دکھایا ہے، اسے ہم نے صرف لوگوں کے لیے آزمائش بنایا ہے`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ: هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ"، قَالَ:" وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ، قَالَ: هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس‏» اور وہ رؤیا جو ہم نے تمہیں دکھایا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ کے متعلق کہا کہ اس سے مراد آنکھ کا دیکھنا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معراج کی رات دکھایا گیا تھا۔ جب آپ کو بیت المقدس تک رات کو لے جایا گیا تھا، کہا کہ قرآن مجید میں «الشجرة الملعونة» سے مراد «زقوم‏.‏» کا درخت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْقَدَرِ: 6613]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6613 کا باب: «بَابُ: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب قرآن مجید کی آیت پر مبنی ہے کہ وہ خواب جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا وہ آزمائش تھا لوگوں کے لیے، تحت الباب اسی آیت کو پیش فرمایا گیا مگر آیت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کا ذکر کیا گیا ہے اور «الشجرة الملعونة» کا بھی ذکر فرمایا۔ لہذا ترجمۃ الباب کی مناسبت اس حدیث سے کس طرح ہو سکتی ہے؟ کیونکہ بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو کس انداز سے قائم ہوگا واضح نہیں ہوتا اور خواب کا ذکر باب میں کیا گیا اور تحت الباب زقوم کے درخت کا، لہذا اس موقع پر مناسبت کا پہلو اجاگر نہیں ہوتا۔ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه دخول هذا الحديث فى كتاب القدر الإشارة إلى أن الله قدر على المشركين التكذيب لرؤيا نبيه الصادق فكان ذالك زيادة فى طغيانهم حيث قالوا: كيف يسير إلى بيت المقدس فى ليلة واحدة ثم يرجع فيها؟ وكذالك جعل الشجرة الملعونة زيادة فى طغيانهم حيث قالوا: كيف يكون فى النار شجرة و النار تحرق الشجر؟ و فيه خلق الله الكفر و دواعي الكفر من الفتنة.» (1)
اس حدیث کو کتاب القدر میں نقل کرنے کی وجہ اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالی نے مشرکین کے لیے مقدر کر رکھا ہے کہ وہ اس کے نبی کی رویائے صادقہ کی تکذیب کریں، تو یہ ان کی طغیان اور سرکشی میں زیادتی ہے، جب کہا گیا کہ کس طرح ایک ہی رات میں بیت المقدس میں جا کر واپس آ گئے؟ اسی طرح سے «شجرة ملعونة» کو ان کی سرکشی میں زیادتی کا سبب بنایا، جب اعتراض لگایا گیا کہ جہنم (جو آگ کے انگاروں سے عبارت ہے) میں درخت کیسے باقی رہ سکتا ہے، آگ نے اسے جلایا نہیں؟ اس میں اللہ تعالی کی خلقت کا انکار ہے اور یہ دواعی الکفر ہے فتنہ سے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجه دخوله فى أبواب القدر من ذكر الفتنة، و أن الله تعالى هو الذى جعلها، وقد قال موسى عليه السلام: ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ وَتَهْدِي مَنْ تَشَاءُ﴾ [الأعراف: 155] (2)
یعنی اس حدیث کو ابواب القدر میں نقل کرنے کی وجہ فتنہ سے ہے کہ اللہ تعالی نے یقینا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کو) ان کے لیے فتنہ (آزمائش) بنایا، جیسا کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کا فرمان نقل فرمایا کہ « ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ وَتَهْدِي مَنْ تَشَاءُ﴾ » [الأعراف: 155] ۔ علامہ مہلب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث کو کتاب القدر میں لانے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے لوگوں پر مہر لگا دی، جو مشرکین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیا کو جھٹلا رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو صادق ہیں آپ کی تکذیب کی وجہ سے انہیں فتنہ میں مبتلا کر دیا گیا اور ان کی سرکشی میں زیادتی بھی کر دی گئی، اسی طرح سے قرآن میں جو «شجرة الملعونة» ہے، وہ بھی لوگوں کے لیے فتنہ بنایا گیا ہے، ان کا یہ بھی اعتراض تھا کہ درخت کس طرح سے باقی رہے گا آگ میں جب کہ وہ یابس اور اخضر ہو، پس یہ (اعتراض) ان کے لیے فتنہ ہے اور ان کی گمراہی میں اضافے کا سبب بھی۔(2)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ترجمۃ الباب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خواب کا ذکر ہے جس کے ذریعے لوگوں کو آزمایا گیا، اور تحت الباب حدیث میں جس خواب کا ذکر ہے تو تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کو مشرکین جھٹلائیں گے اور جب وہ جھٹلائیں گے تو لازما ان پر جہنم واجب کر دی جائے گی جس میں زقوم کا درخت ہے جو گنہگاروں کا کھانا ہے۔ لہذا اس تطبیق سے ترجمۃ الباب سے بھی مناسب قائم ہو گی اور کتاب القدر سے بھی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 231   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3134  
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔`
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس» اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء و معراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے (بنی اسرائیل: ۶۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ۱؎ انہوں نے یہ بھی کہا «والشجرة الملعونة في القرآن» میں شجرہ «ملعونہ» سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3134]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء ومعراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے (بنی اسرائیل: 60)
2؎:
یعنی خواب میں سیر نہیں،
بلکہ حقیقی وجسمانی معراج تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3134   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6613  
6613. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے درج زیل آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: وہ منظر جو ہم نے آپ کو دکھایا ہے اسے ہم نے لوگوں کے لیے باعث آزمائش بنایا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اس سے مراد آنکھ سے دیکھنا ہے جو رسول اللہ ﷺ کو معراج کی رات دکھایا گیا جب آپ کو بیت المقدس تک رات کے وقت سیر کرائی گئی۔ قرآن مجید میں(الشجرة الملعونة) سے مراد زقوم کا درخت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6613]
حدیث حاشیہ:
بعض شارحین نے حدیث اور باب کی مطابقت اس توجیہ کے ساتھ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی تقدیر میں یہ بات لکھ دی تھی کہ وہ معراج کا قصہ جھٹلائیں گے اور اسی طرح سے ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6613   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6613  
6613. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے درج زیل آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: وہ منظر جو ہم نے آپ کو دکھایا ہے اسے ہم نے لوگوں کے لیے باعث آزمائش بنایا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اس سے مراد آنکھ سے دیکھنا ہے جو رسول اللہ ﷺ کو معراج کی رات دکھایا گیا جب آپ کو بیت المقدس تک رات کے وقت سیر کرائی گئی۔ قرآن مجید میں(الشجرة الملعونة) سے مراد زقوم کا درخت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6613]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں واقعۂ معراج کی طرف اشارہ ہے۔
یہ ایک خرق عادت واقعہ اور معجزہ تھا لیکن اس کا بہت مذاق اڑایا گیا، پھر جن کافروں نے بیت المقدس دیکھا تھا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھنا شروع کر دیے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے تمام پردے دور کر دیے اور آپ نے انہیں تمام سوالات کا جواب دیا۔
اب چاہیے تو یہ تھا کسی حسبی معجزے کے طلب گار کافر ایمان لے آتے لیکن کاتب ازلی نے ان کے لیے کفر ہی مقدر کیا تھا، اس لیے وہ پہلے سے بھی زیادہ سرکشی کی راہ اختیار کرنے لگے۔
(2)
واقعۂ معراج کی طرح تھوہر کے درخت کا آگ میں پیدا ہونا بھی ان کے لیے فتنہ بن گیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ آگ تو لکڑی کو جلا دیتی ہے، اس لیے درخت کا آگ میں پیدا ہونا کیسے ممکن ہے۔
اس درخت کو ملعون اس لیے کہا گیا کہ اس میں غذائیت نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ اس کے کانٹے بڑے سخت اور تیز ہوتے ہیں جو اہل دوزخ کی اذیت و تکلیف میں مزید اضافے کا باعث ہوں گے۔
(3)
واقعۂ معراج کے فتنہ بننے سے یہ بات ازخود ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا، روحانی یا کشفی نہیں تھا کیونکہ خواب میں تو ہر انسان ایسے یا اس سے بھی عجیب تر واقعات دیکھ سکتا ہے لیکن کبھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔
دراصل کفار مکہ نے واقعۂ معراج اور زقوم کی پیدائش کو عقل کے پیمانے سے ناپنے کی کوشش کی جو دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے۔
اسی طرح تقدیر کے معاملات کو عقل سے پرکھنا بھی گمراہی اور ضلالت ہے۔
دراصل اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی تقدیر میں یہ بات لکھ دی تھی کہ انہوں نے واقعۂ معراج کو خواہ مخواہ جھٹلانا ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6613   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.