الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تقدیر کے بیان میں
The Book of Al-Qadar (Divine Preordainment)
15. بَابُ: {قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلاَّ مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا} قَضَى:
15. باب: سورۃ التوبہ کی اس آیت «قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا» کا بیان۔
(15) Chapter. “Say: ‘Nothing shall ever happen to us except what Allah has ordained for us’..." (V.9:15)
حدیث نمبر: Q6619
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قضى، قال مجاهد: بفاتنين بمضلين إلا من كتب الله انه يصلى الجحيم قدر فهدى قدر الشقاء والسعادة وهدى الانعام لمراتعها".قَضَى، قَالَ مُجَاهِدٌ: بِفَاتِنِينَ بِمُضِلِّينَ إِلَّا مَنْ كَتَبَ اللَّهُ أَنَّهُ يَصْلَى الْجَحِيمَ قَدَّرَ فَهَدَى قَدَّرَ الشَّقَاءَ وَالسَّعَادَةَ وَهَدَى الْأَنْعَامَ لِمَرَاتِعِهَا".
‏‏‏‏ «قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا‏» اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئیے کہ ہمیں صرف وہی درپیش آئے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے۔ اور مجاہد نے «بفاتنين‏» کی تفسیر میں کہا کہ تم کسی کو گمراہ نہیں کر سکتے مگر اس کو جس کی قسمت میں اللہ نے دوزخ لکھ دی ہے اور مجاہد نے آیت «‏‏‏‏والذى قدر فهدى‏» کی تفسیر میں کہا کہ جس نے نیک بختی اور بدبختی سب تقدیر میں لکھ دی اور جس نے جانوروں کو ان کی چراگاہ بتائی۔

حدیث نمبر: 6619
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، اخبرنا النضر، حدثنا داود بن ابي الفرات، عن عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، ان عائشة رضي الله عنها، اخبرته: انها سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الطاعون؟ فقال:" كان عذابا يبعثه الله على من يشاء فجعله الله رحمة للمؤمنين، ما من عبد يكون في بلد يكون فيه، ويمكث فيه لا يخرج من البلد، صابرا محتسبا، يعلم انه لا يصيبه إلا ما كتب الله له، إلا كان له مثل اجر شهيد".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ؟ فَقَالَ:" كَانَ عَذَابًا يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ فَجَعَلَهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، مَا مِنْ عَبْدٍ يَكُونُ فِي بَلَدٍ يَكُونُ فِيهِ، وَيَمْكُثُ فِيهِ لَا يَخْرُجُ مِنَ الْبَلَدِ، صَابِرًا مُحْتَسِبًا، يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ، إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ".
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو نضر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن یعمر نے بیان کیا اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عذاب تھا اور اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اسے بھیجتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا، کوئی بھی بندہ اگر کسی ایسے شہر میں ہے جس میں طاعون کی وبا پھوٹی ہوئی ہے اور اس میں ٹھہرا ہے اور اس شہر سے بھاگا نہیں صبر کئے ہوئے ہے اور اس پر اجر کا امیدوار ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس تک صرف وہی چیز پہنچ سکتی ہے جو اللہ نے اس کی تقدیر میں لکھ دی ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔

Narrated `Aisha: I asked Allah's Apostle about the plague. He said, "That was a means of torture which Allah used to send upon whom-so-ever He wished, but He made it a source of mercy for the believers, for anyone who is residing in a town in which this disease is present, and remains there and does not leave that town, but has patience and hopes for Allah's reward, and knows that nothing will befall him except what Allah has written for him, then he will get such reward as that of a martyr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 77, Number 616


   صحيح البخاري3474عائشة بنت عبد اللهعذاب يبعثه الله على من يشاء وأن الله جعله رحمة للمؤمنين ليس من أحد يقع الطاعون فيمكث في بلده صابرا محتسبا يعلم أنه لا يصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر شهيد
   صحيح البخاري5734عائشة بنت عبد اللهعذابا يبعثه الله على من يشاء فجعله الله رحمة للمؤمنين فليس من عبد يقع الطاعون فيمكث في بلده صابرا يعلم أنه لن يصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر الشهيد
   صحيح البخاري6619عائشة بنت عبد اللهعذابا يبعثه الله على من يشاء فجعله الله رحمة للمؤمنين ما من عبد يكون في بلد يكون فيه ويمكث فيه لا يخرج من البلد صابرا محتسبا يعلم أنه لا يصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر شهيد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6619  
6619. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: طاعون ایک عذاب تھا اللہ جس پر چاہتا اسے نازل کرتا لیکن اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کے حق میں اسے باعث رحمت بنا دیا ہے لہذا جو شخص طاعون میں مبتلا ہو اور یہ یقین رکھتا ہو جو کچھ اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے اس کے علاوہ اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی، پھر صبر کے ساتھ ثواب کی امید میں اسی شہر میں پڑا رہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6619]
حدیث حاشیہ:
طاعون ایک ورم سے شروع ہوتا ہے جو بغل یا گردن میں ظاہر ہوتا ہے اس سے بخار ہوکر آدمی جلد ہی مرجاتاہے۔
اللہ أحفظنا آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6619   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6619  
6619. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: طاعون ایک عذاب تھا اللہ جس پر چاہتا اسے نازل کرتا لیکن اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کے حق میں اسے باعث رحمت بنا دیا ہے لہذا جو شخص طاعون میں مبتلا ہو اور یہ یقین رکھتا ہو جو کچھ اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے اس کے علاوہ اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی، پھر صبر کے ساتھ ثواب کی امید میں اسی شہر میں پڑا رہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6619]
حدیث حاشیہ:
(1)
طاعون ایک پھوڑے سے شروع ہوتا ہے جو بغل یا گردن پر نکلتا ہے، اس کی وجہ سے بخار ہوتا ہے اور انسان جلدی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔
طاعون جیسی تکلیف دہ بیماری دنیا میں اپنے اسباب ہی سے آتی ہے لیکن اس بیماری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے باعث رحمت بنا دیا گیا ہے جس کی چند شرائط ہیں:
٭ جب اس کے شہر میں طاعون آئے تو ڈر کر وہاں سے بھاگ نہ جائے کیونکہ ڈر کر بھاگنا اس کی پختگی اور تقدیر پر اعتماد کے خلاف ہے۔
٭ شہر میں رہنا بھی ہو تو صابر بن کر رہے کسی کاروباری یا برادری کی مجبوری سے نہ ہو۔
٭ وہاں رہتے ہوئے ثواب کی نیت کو شامل کر لے کیونکہ اعمال میں نیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔
٭ یہ عقیدہ رکھے کہ جو اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے نہ تو اس کے خلاف ہو سکتا ہے اور نہ اس سے فرار ہی ممکن ہے۔
اگر ان شرائط کی ادائیگی کے بعد وہاں موت آ گئی تو اسے شہید کا ثواب ملے گا۔
(2)
بہرحال رضا بالقضاء کے عقیدے سے انسان کی زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مثلاً:
تقدیر پر ایمان لانے سے بندے پر مصائب آسان ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، بندۂ مومن ان مصائب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان سمجھتا ہے اور صبر کرتا ہے۔
٭ ایمان بالقدر سے انسان ہمیشہ اپنی زندگی کے لیے نیک اعمال کی تمنا اور اچھے کردار کی جستجو کرتا ہے، اسی کو تقدیر کا فیصلہ قرار دیتا ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہر وقت مصروف رہتا ہے۔
٭ تقدیر پر ایمان کے نتیجے میں بندے سے صحیح افعال صادر ہوتے ہیں اور اچھے اوصاف پیدا ہوتے ہیں، نیز وہ راہ حق میں دین کی حمایت کے لیے خطرات مول لیتا ہے اور اس پر لوگوں کو آمادہ کرتا ہے۔
٭ ایمان بالقدر کے ذریعے سے انسان مایوسی اور ناامیدی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا، نیز نقصان اور پریشانی کے وقت خودکشی جیسی لعنت کو گلے نہیں لگاتا۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث میں مقصود یہ ہے کہ انسان کو جو تکلیف بھی پہنچتی ہے وہ پہلے سے اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلہ شدہ ہے۔
انسان کو چاہیے کہ اس پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے اجروثواب کی امید رکھے۔
(فتح الباري: 627/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6619   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.