الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حیض کے احکام و مسائل
10. باب الْقَدْرِ الْمُسْتَحَبِّ مِنَ الْمَاءِ فِي غُسْلِ الْجَنَابَةِ وَغُسْلِ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ فِي حَالَةٍ وَاحِدَةٍ وَغُسْلِ أَحَدِهِمَا بِفَضْلِ الآخَرِ:
10. باب: غسل جنابت کے لیے پانی کی مستحب مقدار، اور شوہر اور بیوی کا ایک برتن سے پانی لے کر ایک حالت میں غسل کرنا، اور ایک کا دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنا۔
حدیث نمبر: 726
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغتسل من إناء، هو الفرق من الجنابة ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ مِنْ إِنَاءٍ، هُوَ الْفَرَقُ مِنَ الْجَنَابَةِ ".
امام مالک نے ابن شہاب (زہری) سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نےحضرت عائشہ ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے، جو ایک فرق (تین صاع یا ساڑھےتیرہ لٹر) کا تھا، غسل جنابت فرمایا کرتے تھے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فرق کے برتن سے غسل جنابت فرمایا کرتے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 319

   صحيح البخاري301عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا والنبي من إناء واحد كلانا جنب يأمرني فأتزر فيباشرني وأنا حائض يخرج رأسه إلي وهو معتكف فأغسله وأنا حائض
   صحيح البخاري263عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا والنبي من إناء واحد من جنابة
   صحيح البخاري7339عائشة بنت عبد اللهيوضع لي ولرسول الله هذا المركن فنشرع فيه جميعا
   صحيح البخاري261عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا والنبي من إناء واحد تختلف أيدينا فيه
   صحيح البخاري250عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا والنبي من إناء واحد من قدح يقال له الفرق
   صحيح البخاري5956عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا والنبي من إناء واحد
   صحيح مسلم732عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله من إناء بيني وبينه واحد فيبادرني حتى أقول دع لي دع لي
   صحيح مسلم726عائشة بنت عبد اللهيغتسل من إناء هو الفرق من الجنابة
   صحيح مسلم747عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله من إناء واحد لا أزيد على أن أفرغ على رأسي ثلاث إفراغات
   صحيح مسلم731عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله من إناء واحد تختلف أيدينا فيه من الجنابة
   صحيح مسلم730عائشة بنت عبد اللهتغتسل هي والنبي في إناء واحد يسع ثلاثة أمداد أو قريبا من ذلك
   صحيح مسلم727عائشة بنت عبد اللهيغتسل في القدح وهو الفرق أغتسل أنا وهو في الإناء الواحد
   جامع الترمذي1755عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله من إناء واحد له شعر فوق الجمة ودون الوفرة
   جامع الترمذي123عائشة بنت عبد اللهاغتسل النبي من الجنابة ثم جاء فاستدفأ بي فضممته إلي ولم أغتسل
   سنن أبي داود238عائشة بنت عبد اللهيغتسل من إناء واحد هو الفرق من الجنابة
   سنن أبي داود98عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله في تور من شبه
   سنن أبي داود77عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله من إناء واحد ونحن جنبان
   سنن النسائى الصغرى236عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله من إناء واحد
   سنن النسائى الصغرى234عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله من إناء واحد من الجنابة
   سنن النسائى الصغرى345عائشة بنت عبد اللهتغتسل مع رسول الله في الإناء الواحد
   سنن النسائى الصغرى410عائشة بنت عبد اللهيغتسل في الإناء وهو الفرق أغتسل أنا وهو من إناء واحد
   سنن النسائى الصغرى233عائشة بنت عبد اللهيغتسل وأنا من إناء واحد نغترف منه جميعا
   سنن النسائى الصغرى232عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله من إناء واحد هو قدر الفرق
   سنن النسائى الصغرى72عائشة بنت عبد اللهتغتسل مع رسول الله في الإناء الواحد
   سنن النسائى الصغرى412عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله من إناء واحد من الجنابة
   سنن النسائى الصغرى235عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا وهو منه
   سنن النسائى الصغرى240عائشة بنت عبد اللهدعي لي وأقول أنا دع لي
   سنن النسائى الصغرى416عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله من هذا فإذا تور موضوع مثل الصاع أو دونه فنشرع فيه جميعا أفيض على رأسي بيدي ثلاث مرات وما أنقض لي شعرا
   سنن النسائى الصغرى414عائشة بنت عبد اللهدعي لي وأقول أنا دع لي
   سنن النسائى الصغرى413عائشة بنت عبد اللهأنازع رسول الله الإناء أغتسل أنا وهو منه
   سنن النسائى الصغرى411عائشة بنت عبد اللهيغتسل وأنا من إناء واحد نغترف منه جميعا
   سنن النسائى الصغرى229عائشة بنت عبد اللهيغتسل في القدح وهو الفرق أغتسل أنا وهو في إناء واحد
   سنن ابن ماجه604عائشة بنت عبد اللهنغتسل من إناء واحد فلا أزيد على أن أفرغ على رأسي ثلاث إفراغات
   سنن ابن ماجه376عائشة بنت عبد اللهأغتسل أنا ورسول الله من إناء واحد
   بلوغ المرام107عائشة بنت عبد اللهكنت اغتسل انا ورسول الله من إناء واحد تختلف ايدينا فيه من الجنابة. متفق عليه،‏‏‏‏ وزاد ابن حبان: وتلتقي
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم44عائشة بنت عبد اللهيغتسل من إناء هو الفرق من الجنابة
   صحيح مسلم727عائشة بنت عبد اللهيغتسل في القدح، وهو الفرق، وكنت اغتسل انا وهو في الإناء الواحد
   المعجم الصغير للطبراني116عائشة بنت عبد الله كنت أغتسل أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد ، فأقول : أبق لي أبق لي
   المعجم الصغير للطبراني121عائشة بنت عبد الله كنت أغتسل أنا ورسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من إناء واحد فى تور من شبه فيقول : أبق لي ، أبق لي
   المعجم الصغير للطبراني147عائشة بنت عبد الله تغتسل مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من إناء واحد
   مسندالحميدي159عائشة بنت عبد اللهكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغتسل في القدح وهو الفرق وكنت أغتسل أنا وهو من إناء واحد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 44  
´غسل جنابت کے پانی کی مقدار`
«. . . عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغتسل من إناء هو الفرق من الجنابة . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت ایک برتن سے کرتے تھے جسے «فَرَقُ» کہتے ہیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 44]

تخریج:
[وأخرجه مسلم 319، من حديث مالك به ورواه البخاري 250، من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ غسل جنابت میں ساڑھے سات کلو پانی کافی ہے اور ایک صاع (ڈھائی کلو) سے غسل بھی جائز ہے۔
➋ اس حدیث کی دوسری سندوں سے ثابت ہوتا ہے کہ (رات کے اندھیرے میں) شوہر اور بیوی کا (غسل خانے میں) اکٹھے نہانا جائز ہے۔
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ جب غسل جنابت کرتے تو پہلے دائیں ہاتھ پر پانی بہا کر اسے دھوتے پھر اپنی شرمگاہ دھوتے پھر کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے پھر اپنا چہرہ دھوتے اور آنکھوں میں پانی ڈالتے، پھر دایاں ہاتھ دھوتے پھر بایاں ہاتھ دھوتے پھر سر دھوتے پھر غسل کرتے اور اپنے اوپر پانی بہاتے تھے۔ [موطأ امام مالك، رواية يحييٰ 1 / 45 ح98 وسنده صحيح]
➍ غسل سے پہلے استنجاء اور نماز والا وضو مسنون ہے۔ ديكهئے: [صحيح بخاري: 266، 248، 249]
➎ غسل سے فارغ ہونے کے بعد پاؤں دھونا مسنون ہے۔ ديكهئے: [صحيح بخاري: 265]
➏ غسل سے فارغ ہونے کے بعد جسم خشک کرنے کے لئے کپڑا استعمال نہ کرنا مسنون ہے۔ ديكهئے: [صحيح بخاري: 266] تاہم سردی وغیرہ کی وجہ سے اگر جسم خشک کرنے کے لئے تولیہ وغیرہ استعمال کر لیا جائے تو آثار صحابہ اور فہم سلف صالحین کی رُو سے جائز۔ ديكهئے: [الاوسط لابن المنذر 419/1، 416 و مسائل ابي داؤد ص 12]
➐ غسل جنابت کے وضو میں اگر سر کا مسح نہ کیا جائے تو بھی جائز ہے۔ ديكهئے: [سنن النسائي: 422 وسنده صحيح غريب]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 34   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 77  
´میاں بیوی کا اکٹھے نہا لینے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں`
«. . .عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ وَنَحْنُ جُنُبَانِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے اور ہم دونوں جنبی ہوتے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 77]
فوائد و مسائل:
➊ میاں بیوی شرعی لحاظ سے ایک دوسرے کا لباس ہیں اس لیے دونوں کے اکٹھے نہا لینے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
➋ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے برتن سے پانی لیا تو وہ عورت کا مستعمل ہو گیا۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی لیتے تو وہ ان کا مستعمل ہو جاتا۔ معلوم ہوا کہ بقیہ پانی کا استعمال جائز ہے خواہ عورت کا ہو یا مرد کا۔ بالخصوص جبکہ وہ دانا اور سمجھدار ہوں اور نامعقول طور پر پانی میں چھینٹے نہ ڈالتے ہوں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 77   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 238  
´پانی کی اس مقدار کا بیان جو غسل کے لیے کافی ہوتا ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ هُوَ الْفَرَقُ مِنَ الْجَنَابَةِ . . .»
. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت ایک ایسے برتن سے کرتے تھے جس کا نام فرق ہے۔ . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي مِقْدَارِ الْمَاءِ الَّذِي يُجْزِئُ فِي الْغُسْلِ: 238]
فوائد و مسائل:
«فرق» تانبے کا ایک برتن ہوتا تھا جس سے چیزیں بھر کر ناپی جاتی تھیں۔ رطل کے حساب سے اس کا وزن سولہ رطل بنتا تھا۔ صحیح مسلم میں سفیان بن عیینہ سے اس کی کمیت کو تین صاع بیان کیا گیا ہے۔ راقم مترجم نے اپنے ہاں موجود مد سے اس کا حساب لگایا تو ہمارے رائج الوقت پیمانے سے اس کی کمیت نو لیٹر اور چھ ملی لیٹر بنتی ہے۔ سنن ابی داود حدیث [95] کے فوائد میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
➋ کچھ احادیث میں ہے کہ پانی کی یہ مقدار صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال فرمائی اور کچھ میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نے۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع یا سوا صاع سے غسل کر لیا کرتے تھے، تو ان میں تطبیق آسان ہے کہ یہ مختلف احوال اور مواقع کا بیان ہے۔ اس باب کی احادیث میں یہ بات خاص قابل ملاحظہ ہے کہ ایک برتن سے غسل فرمایا۔ اور ہم غسل کر لیا کرتے تھے۔ یعنی اس سے مزید پانی اور دوسرا برتن طلب نہیں کرتے تھے۔ بخلاف ہمارے عام معمولات کے جس میں اسراف ہوتا ہے۔ مذکورہ روایات میں بیان کی گئی مقدار اگرچہ حتمی نہیں ہے تاہم مستحب ضرور ہے کہ انسان اسی قدر پانی پر کفایت کرے اور اسراف سے احتراز کرے۔

ملحوظ:
امام احمد کا آخری مقولہ قابل حل ہے کہ صاع بھرنے کا پیمانہ ہے اور رطل وزن کرنے کا۔ ایک صاع میں پانچ رطل اور تہائی رطل غلہ یا کھجور وغیرہ آتی ہے، مگر سائل نے جب کہا کہ مدینے کی صیحانی کھجور بھاری ہوتی ہے۔ تو فرمایا کہ یقیناًً عمدہ کھجور ہے۔ پھر آپ نے کہا کہ میں نہیں جانتا۔ غالباً عبارت مختصر رہ گئی ہے اس لیے سمجھا گیا ہے کہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ اس کا بھاری ہونا پانی کی کاشت کی وجہ سے ہوتا ہے یا کسی اور وجہ سے ہے؟ میں نہیں جانتا۔ جملے کی دوسری توجیہ یہ بھی ہے جسے صاحب بذل المجھود نے ذکر کیا ہے کہ صیحانی کھجور سے صدقہ فطر ادا کریں تو وزن میں بھاری ہونے کے باعث (پانچ رطل اور تہائی رطل) صاع بھرنے سے کم رہ جاتی ہے، تو کیا اس وزن سے صدقہ درست ہو گا؟ آپ نے کہا: کھجور تو عمدہ ہے، مگر معلوم نہیں کہ صدقہ ادا ہوا یا نہیں۔ «والله اعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 238   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 107  
´میاں بیوی دونوں اکٹھے ایک برتن سے غسل کر سکتے ہیں`
«. . . وعنها رضي الله عنها قالت: كنت اغتسل انا ورسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من إناء واحد تختلف ايدينا فيه من الجنابة . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے یہ روایت بھی ہے کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت کر لیا کرتے تھے۔ اس برتن میں ہمارے ہاتھ یکے بعد دیگرے داخل ہوتے تھے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 107]

لغوی تشریح:
«تَخْتَلِفُ أَيْدِينَا فِيهِ» کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ ایک دوسرے کے بعد برتن میں داخل ہوتے تھے، مثلاً: پہلے میرا ہاتھ داخل ہوتا تو بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا، یا پھر پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ داخل ہوتا تو بعد میں میرا۔
«مِنْ الْجَنَابَةِ» جنابت کی وجہ سے۔ اس میں غسل کرنے کی وجہ بیان ہوئی ہے کہ غسل کس وجہ سے کرتے تھے؟
«تَلْتَقِي» ایک دوسرے سے مل جاتے، چھو جاتے۔ جب ایک ہی برتن میں یکے بعد دیگرے ہاتھ داخل ہوں گے تو ان کا باہمی طور پر دوسرے کے ساتھ چھو جانا غسل کے لیے باعث نقصان نہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ میاں بیوی دونوں اکٹھے ایک برتن سے غسل کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے میں کوئی قباحت اور مضائقہ نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 107   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 261  
´غسل کے برتن میں جنبی کا ہاتھ ڈالنا`
«. . . عن عائشة، قالت:" كنت اغتسل انا والنبي صلى الله عليه وسلم من إناء واحد تختلف ايدينا فيه . . .»
. . . وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن میں اس طرح غسل کرتے تھے کہ ہمارے ہاتھ باری باری اس میں پڑتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 261]

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کے باب قائم کرنے میں مقصد یہ ہے کہ اگر جنبی کے ہاتھ پر کوئی اور غلاظت یا گندگی نہ ہو اور ہاتھ دھونے سے پہلے برتن میں ہاتھ ڈال دے تو پانی نجس نہ ہو گا کیوں کہ جنابت نجاست حکمی ہے نہ حقیقی کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «ان المومن لا ينجس» مومن یقیناً نجس نہیں ہوتا۔

ذیل میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث نقل فرمائی کے سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک برتن سے غسل فرمایا کرتے تھے اور ان دونوں کے ہاتھ باری باری برتن میں پڑتے تھے جو اس بات کی دلیل ہے کہ غسل کی ابتداء میں دونوں نے اپنے ہاتھوں کو غسل کے برتن میں ڈالا ہو گا، لہٰذا مناسبت یہ ہے کہ اگر ہاتھوں پر نجاست نہ ہو تو برتن میں بغیر ہاتھ دھوئے ہوئے ڈالنا کسی قباحت کا سبب نہیں ہے اور اگر ہاتھ میں کچھ لگا ہوا ہے تو برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ہاتھوں پر لگی نجاست دھو ڈالے جیسا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت کا غسل کرنے لگتے تو (پہلے) اپنا ہاتھ دھوتے۔ [صحيح البخاري كتاب الغسل رقم 263]

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مذکورہ بالا ترجمة الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ اس میں جنبی کے لئے جواز ہے غسل کے برتن میں غسل سے قبل ہاتھ ڈالنے کو جب کہ اس میں اور کوئی گندگی نہ لگی ہو جیسا کہ (روایت میں ہے) ہمارے ہاتھ اس میں باری باری پڑتے تھے (غسل کے برتن میں، جو کہ اس بات پر دلالت ہے کہ غسل کا پانی (ہاتھ ڈالنے سے) مفسد نہیں ہوا اور نہ ہی نجس۔ [ارشاد الساري، ج1، ص456۔]

بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمة الباب اور حدیث میں استنباط کچھ یوں ہے کہ غسل کے برتن میں ہاتھ ڈالنا جائز ہے، تمام بدن کے حدث کو رفع کرنے سے قبل۔ [مناسبات تراجم البخاري ص42]
«قال المهلب: اشار البخاري الى ان يد الجنب اذا كانت نظيفة جاز له ادخالها الاناء قبل ان يغسله لانه ليس بشئ من اعضاۂ نجسا بسبب كونه جنباً» [فتح الباري، ج1، ص373]

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جنبی کا ہاتھ اگر صاف ہو (یعنی کوئی نجاست نہ لگی ہو) تو غسل کے برتن میں اس کا ہاتھ ڈالنا جائز ہے، غسل سے قبل ایسا نہیں ہے کہ جنابت کی وجہ سے وہ برتن میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 140   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 250  
´ غسل میں پانی کی مقدار`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنْ قَدَحٍ، يُقَالُ لَهُ الْفَرَقُ " . . . .»
. . . انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کیا کرتے تھے اس برتن کو فرق کہا جاتا تھا۔ (نوٹ: فرق کے اندر 6.298 کلو گرام ہوتا ہے۔) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ غُسْلِ الرَّجُلِ مَعَ امْرَأَتِهِ: 250]

تخريج الحديث:
[184۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 2 باب غسل الرجل مع امرأته 250، مسلم 319، ابن ماجه 376]
لغوی توضیح:
«الْفَرَق» وہ برتن جس میں تین صاع سما جائیں۔ «صَاع» ایک پیمانہ ہے جو تقریباً اڑھائی کلو گرام کا ہوتا ہے اور اس میں چار مد ہوتے ہیں اور «مُـــدْ» ایک اور ایک تہائی رطل کا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ان احادیث میں پانی کی ایک عمومی مقدار کا تذکرہ ہے، یہ مقدار متعین نہیں کہ اس سے زیادہ یا کم پانی استعمال ہی نہیں کیا جا سکتا بلکہ حسب ضرورت اس سے زیادہ پانی بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، تاہم اسراف سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 184   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 72  
´جنبی کے (غسل سے) بچے ہوئے پانی کا حکم۔`
عروہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھیں۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 72]
72۔ اردو حاشیہ: جنبی کے استعمال کے بعد بچا ہوا پانی قابل استعمال ہے، وہ پلید نہیں ہو گا، چاہے جنبی مرد ہو یا عورت، دونوں کے لیے حکم برابر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 72   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 410  
´جس پانی سے غسل کیا جائے اس کے عدم تحدید کی دلیل۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن سے جس کا نام فرق تھا غسل کرتے تھے، اور میں اور آپ دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 410]
410۔ اردو حاشیہ:
➊ باب پر دلالت آخری ٹکڑے سے ہے۔ جب دو افراد اکٹھے ایک برتن سے غسل کر رہے ہوں تو ضروری نہیں کہ دونوں یکساں پانی استعمال کریں۔ لازماً کمی بیشی ہو گی۔ یہی باب کا عنوان ہے کہ غسل کے لیے پانی کی کوئی مقدار مقرر نہیں۔
فَرَقُ تین صاع کا ہوتا ہے۔ اور ایک صاع تقریباً اڑھائی کلو کا ہوتا ہے۔ بعض احادیث میں غسل کے لیے ایک صاع کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاری، حدیث251]
اور بعض میں ڈیڑھ صاع کا ذکر ملتا ہے۔ دیکھیے: [سنن النسائی، الطہارة، حدیث227]
ان احادیث میں باہم کوئی تعارض نہیں بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ غسل میں کم سے کم پانی استعمال کیا کرتے تھے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث232 اور اس کا فائدہ)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 410   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 411  
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہم اس سے لپ (بھربھر کر) لیتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 411]
411۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں سوید بن نصر اور قتیبہ بن مالک۔ قتیبہ نے حدیث بیان کرتے وقت یوں کہا: «كَانَ يَغْتَسِلُ وَأَنَا» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں اکٹھے غسل کیا کرتے تھے۔ جبکہ سوید بن نصر نے یوں کہا: «كنت أغسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم» میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکٹھے غسل کیا کرتے تھے۔ صرف لفظی تقدیم و تاخیر ہے، معنیٰ میں کوئی فرق نہیں۔ یہ محدثین کی دیانت اور حفظ کا کمال ہے کہ انہوں نے ا یسے معمولی لفظی فرق کو بھی نہ صرف یاد رکھا بلکہ اس کی وضاحت بھی فرما دی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 411   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 413  
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتن کے سلسلے میں کھینچا تانی کر رہی ہوں، میں اور آپ دونوں اسی سے غسل کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 413]
413۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے، حدیث235 اور اس کا فائدہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 413   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 414  
´شوہر اور بیوی کے ایک ساتھ غسل کرنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک برتن سے غسل کرتے تھے، میں چاہتی کہ آپ سے پہلے میں نہا لوں اور آپ چاہتے کہ مجھ سے پہلے آپ نہا لیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: تم میرے لیے چھوڑ دو، اور میں کہتی: آپ میرے لیے چھوڑ دیجئیے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 414]
414۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بھی امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں، محمد بن بشار اور سوید بن نصر۔ دونوں کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے۔ معنی میں کوئی فرق نہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس لفظی فرق کی بھی وضاحت فرما دی۔ مزید دیکھیے: حدیث240کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 414   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 416  
´غسل کے وقت عورت کے سر کے بال نہ کھولنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں اس برتن سے غسل کرتے تھے، تو میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہاں ایک ڈول رکھا ہوا تھا جو ایک صاع کے برابر تھا، یا اس سے کچھ کم، (اور وہ اسی کی طرف اشارہ کر رہی تھیں) (وہ کہہ رہی تھیں کہ) ہم دونوں غسل ایک ساتھ شروع کرتے، تو میں اپنے سر پر اپنے ہاتھوں سے تین مرتبہ پانی بہاتی، اور میں اپنا بال نہیں کھولتی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 416]
416۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے، حدیث242اور اس کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 416   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 229  
´کتنا پانی آدمی کے غسل کے لیے کافی ہو گا؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدح (ٹب) سے غسل کرتے تھے، اور اس کا ۱؎ نام فرق ہے، اور میں اور آپ دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 229]
229۔ اردو حاشیہ:
حدیث میں «فَرَق» کا لفظ ہے۔ یہ حجازی صاع کے لحاظ سے تین صاع کا ہوتا ہے جس کا وزن تقریباً ساڑھے سات کلو کے برابر بنتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 229   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 232  
´غسل کے لیے پانی کی تحدید نہ ہونے کا ذکر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دونوں) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، اور وہ فرق کے بقدر ہوتا تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 232]
232۔ اردو حاشیہ:
استدلال لفظ تقریباً سے ہے، یعنی غسل کے لیے کوئی خاص مقدار معین نہیں، کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ پیچھے گزر چکا ہے کہ ایک «فرق» تقریباً تین صاع کا ہوتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 232   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 233  
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں (دونوں) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہم دونوں اس سے لپ سے ایک ساتھ پانی لیتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 233]
233۔ اردو حاشیہ:
➊ میاں بیوی کے اکٹھے نہانے پر کوئی عقلی اعتراض ہے نہ شرعی، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ غسل کرتے وقت پانی احتیاط سے استعمال کیا جائے اور اسے آلودہ ہونے سے بچایا جائے۔
➋ یہ بھی ثابت ہوا کہ جنبی کے ہاتھ ڈالنے سے پانی پلید نہیں ہو گا، نیز غسل جنابت سے بچے ہوئے پانی سے مزید غسل ہو سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 233   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 235  
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے خود کو دیکھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (پانی کے) برتن کے سلسلہ میں جھگڑ رہی ہوں (میں اپنی طرف برتن کھینچ رہی ہوں اور آپ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں) میں اور آپ (ہم دونوں) اسی سے غسل کرتے تھے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 235]
235۔ اردو حاشیہ:
اپنی اپنی طرف کھینچتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی آسانی سے اور قریب سے لیا جا سکے یا خوش طبعی کے طور پر۔ میاں بیوی میں ایسی کھینچا تانی ان کی باہمی بےتکلفی اور پیار محبت کی مظہر ہے، جو نہ شرعاً قبیح ہے، نہ عقلاً اور نہ عرفاً، بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 235   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 240  
´جنبی کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، (کبھی) آپ مجھ سے سبقت کر جاتے، اور کبھی میں آپ سے سبقت کر جاتی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: میرے لیے چھوڑ دو، اور میں کہتی: میرے لیے چھوڑ دیجئیے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 240]
240۔ اردو حاشیہ:
➊ میاں بیوی اکٹھے غسل کر رہے ہوں تو اس صورت حال کا پیدا ہونا کوئی قابل تعجب یا قابل اعتراض بات نہیں۔ خصوصاً جب کہ میاں بیوی کے درمیان خوش طبعی شریعت میں بھی قابل تعریف ہے۔
➋ اس روایت سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ آپ دونوں یکے بعد دیگرے پانی لیتے تھے جس نے بعد میں پانی لیا، اس نے جنبی کے بچے ہوئے پانی سے غسل کیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 240   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث376  
´ایک ہی برتن سے مرد اور عورت کے غسل کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 376]
اردو حاشہ:
ایک برتن سے غسل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک بڑے برتن میں پانی رکھا ہوا ہو۔
اور میاں بیوی دونوں اسی میں س پانی لےلے کر نہا لیں یہ جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 376   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 123  
´غسل کرنے کے بعد مرد عورت سے چمٹ کر گرمی حاصل کرے اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بسا اوقات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جنابت کا غسل فرماتے پھر آ کر مجھ سے گرمی حاصل کرتے تو میں آپ کو چمٹا لیتی، اور میں بغیر غسل کے ہوتی تھی۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 123]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی یہ حسن کے حکم میں ہے،
اس کے راوی حریث بن ابی المطر ضعیف ہیں (جیساکہ تخریج میں گزرا) اس لیے علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے،
لیکن ابو داود اور ابن ماجہ نے ایک دوسرے طریق سے اس کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے،
جو عبدالرحمن افریقی کے طریق سے ہے،
عبدالرحمن حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف ہیں،
لیکن دونوں طریقوں کا ضعف ایک دوسرے سے قدرے دور ہو جاتا ہے،
نیز صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے اس کے معنی کی تائید ہو جاتی ہے،
وہ یہ ہے:
ہم لوگ حائضہ ہوتی تھیں تو آپ ہمیں ازار باندھنے کا حکم دیتے،
پھر ہم سے چمٹتے تھے واللہ اعلم۔
نوٹ:

سند میں حریث ضعیف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 123   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 726  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
فرق:
تین صاع۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 726   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.