الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
80. بَابُ إِذَا كَانَ بَيْنَ الإِمَامِ وَبَيْنَ الْقَوْمِ حَائِطٌ أَوْ سُتْرَةٌ:
80. باب: جب امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی دیوار حائل ہو یا پردہ ہو (تو کچھ قباحت نہیں)۔
(80) Chapter. If there is a wall or a Sutra between the Imam and followers.
حدیث نمبر: Q729
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال الحسن: لا باس ان تصلي وبينك وبينه نهر، وقال ابو مجلز: ياتم بالإمام وإن كان بينهما طريق او جدار إذا سمع تكبير الإمام.وَقَالَ الْحَسَنُ: لَا بَأْسَ أَنْ تُصَلِّيَ وَبَيْنَكَ وَبَيْنَهُ نَهْرٌ، وَقَالَ أَبُو مِجْلَزٍ: يَأْتَمُّ بِالْإِمَامِ وَإِنْ كَانَ بَيْنَهُمَا طَرِيقٌ أَوْ جِدَارٌ إِذَا سَمِعَ تَكْبِيرَ الْإِمَامِ.
‏‏‏‏ اور امام حسن بصری نے فرمایا کہ اگر امام کے اور تمہارے درمیان نہر ہو جب بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور ابومجلز تابعی نے فرمایا کہ اگر امام اور مقتدی کے درمیان کوئی راستہ یا دیوار حائل ہو جب بھی اقتداء کر سکتا ہے بشرطیکہ امام کی تکبیر سن سکتا ہو۔

حدیث نمبر: 729
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد، قال: اخبرنا عبدة، عن يحيى بن سعيد الانصاري، عن عمرة، عن عائشة، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل في حجرته وجدار الحجرة قصير، فراى الناس شخص النبي صلى الله عليه وسلم، فقام اناس يصلون بصلاته فاصبحوا فتحدثوا بذلك، فقام الليلة الثانية فقام معه اناس يصلون بصلاته، صنعوا ذلك ليلتين او ثلاثا حتى إذا كان بعد ذلك جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يخرج فلما اصبح ذكر ذلك الناس فقال: إني خشيت ان تكتب عليكم صلاة الليل".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فِي حُجْرَتِهِ وَجِدَارُ الْحُجْرَةِ قَصِيرٌ، فَرَأَى النَّاسُ شَخْصَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ أُنَاسٌ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ فَأَصْبَحُوا فَتَحَدَّثُوا بِذَلِكَ، فَقَامَ اللَّيْلَةَ الثَّانِيَةَ فَقَامَ مَعَهُ أُنَاسٌ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، صَنَعُوا ذَلِكَ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا حَتَّى إِذَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَخْرُجْ فَلَمَّا أَصْبَحَ ذَكَرَ ذَلِكَ النَّاسُ فَقَالَ: إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْكُمْ صَلَاةُ اللَّيْلِ".
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدہ بن سلیمان نے یحییٰ بن سعید انصاری کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اپنے حجرہ کے اندر (تہجد کی) نماز پڑھتے تھے۔ حجرے کی دیواریں پست تھیں اس لیے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر دوسروں سے کیا۔ پھر جب دوسری رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں اس رات بھی کھڑے ہو گئے۔ یہ صورت دو یا تین رات تک رہی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ رہے اور نماز کے مقام پر تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ڈرا کہ کہیں رات کی نماز (تہجد) تم پر فرض نہ ہو جائے۔ (اس خیال سے میں نے یہاں کا آنا ناغہ کر دیا)۔

Narrated `Aisha: Allah's Apostle used to pray in his room at night. As the wall of the room was LOW, the people saw him and some of them stood up to follow him in the prayer. In the morning they spread the news. The following night the Prophet stood for the prayer and the people followed him. This went on for two or three nights. Thereupon Allah's Apostle did not stand for the prayer the following night, and did not come out. In the morning, the people asked him about it. He replied, that he way afraid that the night prayer might become compulsory.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 696


   صحيح البخاري729عائشة بنت عبد اللهخشيت أن تكتب عليكم صلاة الليل
   صحيح البخاري924عائشة بنت عبد اللهلم يخف علي مكانكم لكني خشيت أن تفرض عليكم فتعجزوا عنها
   صحيح البخاري1129عائشة بنت عبد اللهخشيت أن تفرض عليكم
   صحيح البخاري2012عائشة بنت عبد اللهخشيت أن تفترض عليكم فتعجزوا عنها
   صحيح البخاري2011عائشة بنت عبد اللهصلى وذلك في رمضان
   صحيح مسلم1783عائشة بنت عبد اللهرأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن تفرض عليكم قال وذلك في رمضان
   صحيح مسلم1784عائشة بنت عبد اللهلم يخف علي شأنكم الليلة ولكني خشيت أن تفرض عليكم صلاة الليل فتعجزوا عنها
   سنن أبي داود1373عائشة بنت عبد اللهرأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن يفرض عليكم وذلك في رمضان
   سنن النسائى الصغرى1605عائشة بنت عبد اللهرأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن يفرض عليكم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم151عائشة بنت عبد اللهقد رايت الذى صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا اني خشيت ان يفرض عليكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 151  
´نفل نماز باجماعت پڑھنا`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى فى المسجد فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة او الرابعة فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم. فلما اصبح قال: قد رايت الذى صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا اني خشيت ان يفرض عليكم وذلك فى رمضان . . .»
. . .سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں (رات کی) نماز (تراویح) پڑھی تو (بعض) لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (آپ کے پیچھے) نماز پڑھی، پھر آنے والی رات جب آپ نے نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہو گئے، پھر تیسری یا چوتھی رات کو (بہت) لوگ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس (نماز پڑھانے کے لیے) باہر تشریف نہ لائے، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے (رات کو) جو کیا وہ میں نے دیکھا تھا لیکن میں صرف اس وجہ سے تمہارے پاس نہ آیا کیونکہ مجھے خوف ہو گیا تھا کہ یہ (قیام) تم پر فرض نہ ہو جائے۔ یہ واقعہ رمضان میں ہوا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 151]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1129، ومسلم 761، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ نماز تراویح سنت ہے واجب یا فرض نہیں ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 759/174 و الموطأ رواية يحييٰ 113/1 ح 247]
➋ چونکہ اب فرضیت کا خوف زائل ہو گیا ہے لہذا نماز تراویح با جماعت افضل ہے۔ دیکھئے: [الموطأ حديث: 29، تفقه 1، البخاري 2009، ومسلم 759/173]
➌ اس پر اجماع ہے کہ نوافل (تراویح وغیرہ) میں نہ اذان ہے اور نہ اقامت۔ [التمهيد 108/8]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بہت زیادہ مہربان اور شفیق تھے۔
➎ علمائے کرام کا تراویح کی تعداد میں بہت اختلاف ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 113/8، وعمدة القاري للعيني 126/11، والحاوي للفتاوي 338/1، والفهم لما اشكل من تلخيص كتاب مسلم 389/2، وسنن الترمذي 806]
قرطبی (متوفی 656 ھ) نے کہا:
اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئے، انھوں نے اس مسئلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سابق سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم:390/2]
➏ بیس تراویح پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔ امام شافعی نے فرمایا: اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور (یہ) مجھے زیادہ پسند ہے۔ [ملخصاً / مقريزي كي مختصر قيام اليل للمروزي ص202، 203، تعداد ركعات قيام رمضان كا جائزه ص 85]
➐ اس حدیث سے صحابہ کرام کا شوق عبادت ظاہر ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 36   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1373  
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی تو آپ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی رات کو بھی پڑھی تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی پھر تیسری رات کو بھی لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہی نہیں، جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے تمہارے عمل کو دیکھا، لیکن مجھے سوائے اس اندیشے کے کسی اور چیز نے نکلنے سے نہیں روکا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے ۱؎ اور یہ بات رمضان کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1373]
1373. اردو حاشیہ: فائدہ: صحیح بخاری میں تیسری رات بھی نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ دیکھئے [صحیح بخاری، الجمعة، حدیث:924]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1373   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:729  
729. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد اپنے حجرے میں پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ حجرے کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں، اس لیے لوگوں نے نبی ﷺ کی شخصیت کو دیکھ لیا اور کچھ لوگ نماز کی اقتدا کرنے کے لیے آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ پھر صبح کو انہوں نے دوسروں سے اس کا ذکر کیا۔ بعد ازاں دوسری رات نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ اس رات بھی آپ کی اقتدا میں کھڑے ہو گئے۔ یہ صورت حال دو یا تین راتوں تک رہی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ بیٹھ رہے اور نماز کے لیے تشریف نہ لائے۔ اس کے بعد صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ کہیں نماز شب تم پر فرض نہ کر دی جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:729]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ امام اور مقتدیوں کے درمیان دیوار یا راستہ حائل ہوتو بھی اقتدا صحیح ہے بشرطیکہ امام کی تکبیر خود سنے یا کوئی دوسرا سنادے۔
دور حاضر میں لاؤڈ سپیکر نے اس مشکل کو کافی حد تک آسان کردیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تائید میں احادیث وآثار پیش کیے ہیں۔
احناف نے مسجد اور صحراء کا فرق کرکے تکلف سے کام لیا ہے۔
(2)
حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ آپ کے گھر سے متعلق ہے کیونکہ اس میں حجرے کی دیواروں کا ذکر ہے، چنانچہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے حجروں میں سے کسی ایک حجرے میں نماز شب پڑھا کرتے تھے، البتہ بعض شارحین نے اس سے مراد جائے اعتکاف لی ہے اور جدار سے مراد بوریوں کی دیوار لی ہے، جیسا کہ آئندہ روایات میں اس کا ذکر ہے۔
ہمارے نزدیک یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، کیونکہ جدار سے مراد بوریوں کی دیوار ہو، یہ بہت بڑا مجاز ہے جس کی مثال کلام عرب میں نہیں ملتی۔
والله أعلم۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ حجرے کے اندر نماز پڑھتے تھے اور لوگوں نے آپ کی اقتدا باہر کھڑے ہوکر کی، آپ کے اور لوگوں کے درمیان دیوار حائل تھی اسے برقرار رکھا گیا، لہٰذا ایسا کرنا جائز ہے۔
(فتح الباري: 278/2)
وهو المقصود.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 729   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.