الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
82. بَابُ إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلاَةِ:
82. باب: تکبیر کا واجب ہونا اور نماز کا شروع کرنا۔
(82) Chapter. The necessity of saying the Takbir, i.e., Allahu Akbar (Allah is the Most Great) and the commencement of As-Salat (the prayer).
حدیث نمبر: 732
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني انس بن مالك الانصاري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فجحش شقه الايمن، قال انس رضي الله عنه: فصلى لنا يومئذ صلاة من الصلوات وهو قاعد فصلينا وراءه قعودا، ثم قال لما سلم:" إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا سجد فاسجدوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده فقولوا: ربنا ولك الحمد".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيُّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا فَجُحِشَ شِقُّهُ الْأَيْمَنُ، قَالَ أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَصَلَّى لَنَا يَوْمَئِذٍ صَلَاةً مِنَ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ قُعُودًا، ثُمَّ قَالَ لَمَّا سَلَّمَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ".
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے یہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعیب نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے اور (گر جانے کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں پہلو میں زخم آ گئے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ اس دن ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز پڑھائی، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، اس لیے ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو اور جب وہ «سمع الله لمن حمده‏» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو۔

Narrated Anas bin Malik Al-Ansari: Allah's Apostle rode a horse and fell down and the right side of his body was injured. On that day he prayed one of the prayers sitting and we also prayed behind him sitting. When the Prophet finished the prayer with Taslim, he said, "The Imam is to be followed and if he prays standing then pray standing, and bow when he bows, and raise your heads when he raises his head; prostrate when he prostrates; and if he says "Sami`a l-lahu liman hamidah", you should say, "Rabbana wa laka l-hamd.:
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 699


   صحيح البخاري732أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا سجد فاسجدوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد
   صحيح البخاري733أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا
   صحيح البخاري805أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع
   صحيح البخاري378أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا وإذا سجد فاسجدوا وإن صلى قائما فصلوا قياما ونزل لتسع وعشرين فقالوا يا رسول الله إنك آليت شهرا الشهر تسع وعشرون
   صحيح البخاري689أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا صلى قائما فصلوا قياما فإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد وإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون
   صحيح البخاري1114أنس بن مالكجعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد
   صحيح مسلم921أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا سجد فاسجدوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد وإذا صلى قاعدا فصلوا قعودا أجمعون
   جامع الترمذي361أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد وإذا سجد فاسجدوا وإذا صلى قاعدا فصلوا قعودا أجمعون
   سنن أبي داود601أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون
   سنن النسائى الصغرى1062أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد
   سنن النسائى الصغرى833أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا لك الحمد وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون
   سنن النسائى الصغرى795أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا سجد فاسجدوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا لك الحمد
   سنن ابن ماجه1238أنس بن مالكالإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد وإذا سجد فاسجدوا وإذا صلى قاعدا فصلوا قعودا أجمعين
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم88أنس بن مالكركب فرسا فصرع عنه فجحش شقه الايمن فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد وصلينا وراءه قعودا فلما انصرف قال: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا اجمعون
   مسندالحميدي1223أنس بن مالك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 88  
´نماز کے بعد کتاب و سنت کی تعلیم دینا `
«مالك عن ابن شهاب عن أنس بن مالك: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه فجحش شقه الأيمن فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد وصلينا وراءه قعودا فلما انصرف قال: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون.»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس سے گر گئے پس آپ کا دایاں پہلو چھل گیا۔ پھر آپ نے نمازوں میں سے ایک نماز بیٹھ کر پڑھائی اور ہم نے آپ کے پیچھے (وہ) نماز بیٹھ کر پڑھی۔ جب آپ (فارغ ہو کر ہماری طرف) پھرے تو فرمایا: امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو۔ جب وہ (رکوع سے) اٹھ جائے تو تم (بھی) اٹھ جاؤ۔ جب وہ «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 88]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 135/1، ح 302، كتاب 8 باب 5 حديث 16، التمهيد 129/6، الاستذكار: 273، أخرجه البخاري 689، أخرجه مسلم 411/79، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشکل کشا نہیں۔۔۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں۔۔۔
➌ رکوع و سجود اور نماز کے ظاہری افعال میں امام کی اقتدأ کرنا چاہئے إلا یہ کہ تخصیص کی واضح دلیل ہو مثلاً مسبوق کے لئے امام کا سلام پھیرنا واجب الاقتدأ نہیں ہے۔
➎ نماز کے بعد کتاب و سنت کی تعلیم دینا مسنون ہے۔
➎ اگر شرعی عذر نہ ہو تو نماز کھڑے ہو کر پڑھنا ضروری ہے۔
➏ جب امام کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدیوں کو بیٹھ کر نماز پڑھنی چاہئے۔ بعض علماء اس حدیث کو منسوخ سمجھتے ہیں لیکن دوسرے علماء اسے منسوخ نہیں سمجھتے۔
◈ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بیٹھ کر نماز پڑھو۔ [صحيح مسلم: 413 ترقيم دارالسلام: 928]
◈ ایک دفعہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیماری کی وجہ سے بٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگوں نے اپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 326/1 ح 7173 وسنده صحيح، و صححه ابن حجر فى فتح الباري 76/2 تحت ح 689] اس سے معلوم ہوا کہ منسوخ ہونے کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔
◈ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے بیماری میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور مقتدیوں کو حکم دیا کہ بیٹھ کر نماز پڑھو تو انہوں نے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ دیکھئے: [الاوسط لا بن المنذر 206/4، اثر: 4045 وسنده صحيح و صححه الحافظ ابن حجر فى فتح الباري 176/2]
◈ عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے لوگوں کو اسی پر پایا ہے کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھتا تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھتے۔ [مصنف عبدالرزاق 443/2 ح 4089]
◈ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو لوگ اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے۔ دیکھئے: [مسائل الامام أحمد بن حنبل و اسحاق بن راهويه، روايته اسحاق بن منصور الكوسج: 348، سنن الترمذي: 361]
◈ اہل الحدیث کے ایک گروہ کا یہی قول ہے۔ [الاعتبار فى بيان الناسخ و المنسوخ من الآثار للحازمي ص 111]
➐ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض وفات والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک امام کھڑے ہوکر نماز پڑھائے اور لوگ کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہوں تو پھر پہلا امام آ جائے اور بیٹھ کر نماز پڑھائے تو لوگ کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھیں گے۔ اس خاص جزیئے سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
➑ راجح یہی ہے کہ امام، مقتدی اور منفرد سب «سمع الله لمن حمده ربنا والك الحمد» پڑھیں۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ اس کے قائل تھے کہ مقتدی بھی «سمع الله لمن حمده» کہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 253/1 ح 2600 وسنده صحيح]
◈ امام ابن سیرین کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذ قال الإمام: سمع الله لمن حمده، فليقل من وراءه: سمع الله لمن حمده» جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو اس کے مقتدی کو بھی «سمع الله لمنن حمده» کہنا چاہئے [سنن الدراقطني 339/1 ح 1270، وسنده حسن لذاته] ۔ یہ روایت موقوفاً بھی حسن ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 1   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 795  
´امام کی اقتداء (پیروی) کرنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے اپنے داہنے پہلو پر گر پڑے، تو لوگ آپ کی عیادت کرنے آئے، اور نماز کا وقت آپ پہنچا، جب آپ نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 795]
795 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ارکان کی ادائیگی میں امامت سے سبقت کرنا تو ناجائز ہے لیکن برابری جائز ہے یعنی امام کے ساتھ ساتھ چلنے میں قباحت نہیں۔ یہ ایک احتمال ہے جو درست نہیں۔ جس طرح امام سے سبقت ناجائز ہے اسی طرح اس کی برابری بھی ممنوع ہے۔ اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ولا تركَعوا حتّى يركعَ……… ولا تسجُدوا حتّى يسجُدَ………» رکوع نہ کرو جب تک امام رکوع نہ کرے ……… اور نہ سجدہ کرو جب تک وہ سجدہ نہ کرے ……… [سنن أبى داود الصلاة حديث: 603]
یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ امام سے نہ سبقت جائز ہے اور نہ اس کی برابری۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 795   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 833  
´امام بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس سے گر گئے اور آپ کے داہنے پہلو میں خراش آ گئی، تو آپ نے کچھ نمازیں بیٹھ کر پڑھیں، ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ سلام پھیر کر پلٹے تو فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو، اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 833]
833 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیٹھ کر نماز شروع فرمائی تو صحابہ کھڑے تھے پھر نماز میں آپ نے بیٹھنے کا اشارہ فرمایا تو وہ بھی بیٹھ گئے۔ [صحیح مسلم الصلاة حدیث: 412]
➋ تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ اہل ظاہر نے ان الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے جالس امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنے کو واجب کہا ہے جب کہ اہل علم نے اس روایت کو اس روایت سے منسوخ قرار دیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی دائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے کیونکہ وہ مجمع عام میں آپ کی آخری نماز ہے۔ بعد والی روایت پہلی روایت کے لیے ناسخ ہے مگر اس میں اشکال ہے کہ بعد والی روایت فعلی ہے جب کہ پہلی روایت قولی ہے۔ قول و فعل کے تعارض کے وقت قول کو ترجیح دی جاتی ہے مگر پہلی روایت سے چونکہ بیٹھنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور دوسری روایت سے بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے کھڑے رہنے کا جواز ثابت ہوتا ہے اس لیے یہ فعل وجوب کا بہرحال ناسخ ہے البتہ امام احمد رحمہ اللہ اور بعض دیگر محدثین نے ان دونوں روایات میں یہ تطبیق دی ہے کہ اگر نماز کی ابتدا بیٹھنے سے ہوئی تو پھر مقتدیوں کو قولی روایت کے مطابق بیٹھ کر ہی نماز پڑھنی چاہیے لیکن اگر درمیان میں امام بیٹھے ابتدا کھڑے ہونے سے ہوئی ہو تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔ اس طرح دونوں روایات پر مل ہو جائے گا۔ یوں بھی تطبیق دی گئی ہے کہ پہلی روایت کے امر «فصلوا جلوسا» کو استحباب پر محمول کر لیا جائے یعنی بیٹھے امام کے پیچھے بہتر ہے کہ مقتدی بیٹھ کر نماز پڑھیں لیکن اگر کھڑے ہو کر بھی پڑھ لیں تو جائز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی روایت کو منسوخ کہنے کی بجائے یہ تطیق مناسب ہے تاکہ کوئی روایت عمل سے خالی نہ رہے۔ بہرحال امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کی توجیہ و تطبیق راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
➌ بعض لوگوں نے آخری جملے کے معنیٰ یہ کیے ہیں کہ جب امام قعدے کے لیے بیٹھے تو تم بھی بیٹھو۔ مگر یہ بات اپنی جگہ صحیح ہونے کے باوجود اس جملے کا صحیح مفہوم نہیں کیونکہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ فرما کر مقتدیوں کو بٹھانا اس کے خلاف ہے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم الصلاة حدیث: 412]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 833   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1062  
´مقتدی جب رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے؟`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے اپنے داہنے پہلو پر گر پڑے، تو لوگ آپ کی عیادت کرنے آپ کے پاس آئے کہ (اسی دوران) نماز کا وقت ہو گیا، (تو آپ نے انہیں نماز پڑھائی) جب آپ نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے، تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1062]
1062۔ اردو حاشیہ:
➊ جمہور اہل علم نے اس سے استدلال کیا ہے کہ مقتدی صرف «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ مقتدی کو «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» بھی کہنا چاہیے تاکہ امام کی اقتدا ہو جائے، پھر «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہے۔ بظاہر یہی موقف راجح ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» پڑھنے کی نفی نہیں۔ بلکہ اس میں تو «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کے محل کا تعین ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مقتدی امام کے سمع اللہ کے ساتھ یا اس سے قبل یہ کلمات نہ کہے بلکہ اس کے بعد کہے۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ آیا مقتدی بھی «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے اس حدیث میں کوئی صراحت نہیں بلکہ مقتدی کے لیے ان کلمات کی مشروعیت دوسری احادیث کے عموم سے اخذ ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے «صلُّوا كما رأيتُموني أصلِّي» نماز اسی طریقے سے پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئی الصلاۃ (نماز کو جلدی جلدی اور غلط طریقے سے پڑھنے والے) سے مخاطب ہو کر فرمایا: «إنه لا تتمُّ صلاةٌ لأحدٍ من الناسِ حتّى يتوضأ ……… ثمَّ يقولُ: سمِع اللهُ لمن حمِدَهُ، حتّى يستويَ قائمًا……» حقیقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے کسی ایک کی بھی نماز اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کرے ……، پھر سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے، یہاں تک کہ برابر اور اعتدال کے ساتھ کھڑا ہو جائے ……… [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 857، و صفة الصلاة، ص: 118] اس حدیث کی رو سے امام اور مقتدی وغیرہ سب ا کلمات کے کہنے کے مکلف ہیں۔ واللہ أعلم۔
«رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» بعض روایات میں بغیر واؤ کے آیا ہے۔ اور بعض میں اللھم اور واو کے اضافے کے ساتھ بھی، یعنی «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» اور «اللھم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» تینوں کلمات میں سے کوئی بھی کہے جا سکتے ہیں سب جائز ہے بہتر ہے کہ ادائیگی میں تنوع ہو۔ مزید دیکھیے: [صفة صلاة، النبي، ص: 118 للألباني]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1062   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1238  
´امام اس لیے مقرر ہوا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر گئے، تو آپ کے دائیں جانب خراش آ گئی، ہم آپ کی عیادت کے لیے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور ہم نے آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ «الله أكبر» کہے، تو تم بھی «الله أكبر» کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب «سمع الله لمن حمده‏» کہے، تو تم لوگ «ربنا ولك الحمد‏» کہو، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1238]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (جحش)
سے مراد ہلکا زخم ہے جس سے صرف جلد متاثر ہوتی ہے۔

(2)
اس سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ امام صرف (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه‏)
کہے اور مقتدی صرف (رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْد۔
۔
۔)

 کہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امامت کی حالت میں دونوں اذکار پڑھنا ثابت ہے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 878، 875)
اس لئے تقسیم اذکار والا موقف قوی محسوس نہیں ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1238   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 361  
´جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر پڑھیں۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر پڑے، آپ کو خراش آ گئی ۱؎ تو آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر آپ نے ہماری طرف پلٹ کر فرمایا: امام ہوتا ہی اس لیے ہے یا امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ «الله أكبر» کہے تو تم بھی «الله أكبر» کہو، اور جب وہ رکوع کرے، تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ «سمع الله لمن حمده‏» کہے تو تم «ربنا لك الحمد‏» کہو، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 361]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی دائیں پہلو کی جلد چھل گئی جس کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مشکل اور دشوار ہو گیا۔

2؎:
اور یہی راجح قول ہے،
اس حدیث میں مذکور واقعہ پہلے کا ہے،
اس کے بعد مرض الموت میں آپ ﷺ نے بیٹھ کر امامت کی تو ابو بکر اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھی،
اس لیے بیٹھ کر اقتداء کرنے کی بات منسوخ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 361   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 732  
732. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوئے (اور گر پڑے) تو آپ کی بائیں جانب کچھ زخمی ہو گئی۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہمیں ان دنوں آپ نے نمازوں میں سے جو نماز بھی پڑھائی وہ بیٹھ کر پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ، جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:732]
حدیث حاشیہ:
جب امام بخاری ؒ جماعت اور امامت کے ذکر سے فارغ ہوئے تو اب صفت نماز کا بیان شروع کیا۔
بعض نسخوں میں باب کے لفظ کے پہلے یہ عبارت ہے:
أبواب صفة الصلوٰة لیکن اکثر نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے۔
ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ اور شافعیہ اور مالکیہ سب کے نزدیک نماز کے شروع میں اللہ أکبر کہنا فر ض ہے اور کوئی لفظ کافی نہیں اور حنفیہ کے نزدیک کوئی لفظ جو اللہ کی تعظیم پر دلالت کرے کافی ہے۔
جیسے اللہ أجل یا اللہ أعظم (وحیدی)
مگر احادیث واردہ کی بنا پر یہ خیال صحیح نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 732   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:732  
732. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوئے (اور گر پڑے) تو آپ کی بائیں جانب کچھ زخمی ہو گئی۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہمیں ان دنوں آپ نے نمازوں میں سے جو نماز بھی پڑھائی وہ بیٹھ کر پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ، جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:732]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں تکبیر تحریمہ کے وجوب کو بیان کیا ہے، کیونکہ بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ ذکر اللہ کے بغیر نماز شروع کی جاسکتی ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو عادت کے طور پر اللہ اکبر کو ضروری نہیں سمجھتے، البتہ مطلق ذکر اللہ کو ضروری کہتے ہیں۔
امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ نماز میں داخل ہونے کے لیے تکبیر، یعنی اللہ اکبر کہنا ضروری ہے۔
اگرچہ اس روایت میں تکبیر کا ذکر نہیں، تاہم دوسری روایات میں صراحت ہے کہ جب امام اللہ أکبر کہے تو تم بھی اللہ أکبر کہو۔
اس میں تکبیر تحریمہ کو امر کے صیغے سے بیان کیا گیا ہے جو وجوب کےلیے ہے، پھر اس میں امام کی تکبیر کے ساتھ مقتدی کی تکبیر کو مشروط کیا گیا ہے، اس لیے امام کے ساتھ ہی تکبیر کہنا پڑے گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ افتتاحِ نماز اس تکبیر ہی ے ہوگا۔
اس طرح امام بخاری ؒ نے بیک وقت تکبیر تحریمہ کے وجوب اور افتتاح نماز کو بیان فرمایا ہے۔
چونکہ اگلی روایت میں بھی حضرت انس ؓ سے مروی ہے اور واقعہ بھی ایک ہی ہے اس بنا پر تکبیر کا اعتبار تمام روایات میں کیا جائے گا اگرچہ صراحت کے ساتھ کسی روایت میں اس کا ذکر موجود نہ ہو جیسا کہ پیش کردہ روایت میں ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث انس کے دونوں طریق ایک خاص مقصد کے پیش نظر بیان کیے ہیں:
پہلا طریق جو شعیب راوی سے ہےاس میں اختصار ہے، لیکن اس میں امام زہری ؒ کا حضرت انس ؓ سے سماع بیان ہوا ہے۔
دوسرا طریق جو لیث راوی سے ہے اس میں پہلی روایت کے اختصار کی تفصیل ہے۔
(فتح الباري: 282/2) (2)
نماز شروع کرنے سے پہلے خالص اللہ کے لیے اس کی نیت کرنا ضروری ہے جو دل کا فعل ہے اور نیت دل سے ہونی چاہیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ انھیں صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں۔
(البينة: 98: 5)
اور حدیث میں ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔
(صحیح البخاري، بدء الوحي، حدیث: 1)
نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرنا بدعت ہے کیونکہ ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ نماز کے لیے نیت کے ضروری ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔
امام بخاری ؒ نے کتاب الإیمان کے آخر میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
یہ ارشاد ایمان، وضو، نماز، زکاۃ وغیرہ تمام کو شامل ہے۔
(فتح الباري: 282/2)
واضح رہے کہ نیت، صحت نماز کے لیے شرط ہے، اس کے بغیر نماز صحیح نہ ہوگی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 732   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.