الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قبلہ کے احکام و مسائل
The Book of the Qiblah
16. بَابُ : الصَّلاَةِ فِي الإِزَارِ
16. باب: تہبند میں نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Praying in an izar (waist wrap)
حدیث نمبر: 767
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا يحيى، عن سفيان، قال: حدثني ابو حازم، عن سهل بن سعد، قال: كان رجال يصلون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عاقدين ازرهم كهيئة الصبيان، فقيل للنساء:" لا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قال: كَانَ رِجَالٌ يُصَلُّونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَاقِدِينَ أُزْرَهُمْ كَهَيْئَةِ الصِّبْيَانِ، فَقِيلَ لِلنِّسَاءِ:" لَا تَرْفَعْنَ رُءُوسَكُنَّ حَتَّى يَسْتَوِيَ الرِّجَالُ جُلُوسًا".
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچوں کی طرح اپنا تہبند باندھے نماز پڑھ رہے تھے، تو عورتوں سے (جو مردوں کے پیچھے پڑھ رہی تھیں) کہا گیا کہ جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں تم اپنے سروں کو نہ اٹھاؤ۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 6 (362)، الأذان 136 (814)، العمل في الصلاة 14 (1215)، صحیح مسلم/الصلاة 29 (441)، سنن ابی داود/الصلاة 79 (630)، (تحفة الأشراف: 4681)، مسند احمد 3/433، 5/331 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري814سهل بن سعدلا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا
   صحيح البخاري362سهل بن سعدلا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا
   صحيح البخاري1215سهل بن سعدلا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا
   صحيح مسلم987سهل بن سعدلا ترفعن رءوسكن حتى يرفع الرجال
   سنن أبي داود630سهل بن سعدلا ترفعن رءوسكن حتى يرفع الرجال
   سنن النسائى الصغرى767سهل بن سعدلا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1215  
´نماز کے ارکان میں ایک دوسرے سے تقدیم و تاخیر کرنا`
«. . . عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ عَاقِدُو أُزْرِهِمْ مِنَ الصِّغَرِ عَلَى رِقَابِهِمْ، فَقِيلَ لِلنِّسَاءِ: لَا تَرْفَعْنَ رُءُوسَكُنَّ حَتَّى يَسْتَوِيَ الرِّجَالُ جُلُوسًا . . .»
. . . ان کو سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز اس طرح پڑھتے کہ تہبند چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی گردنوں سے باندھے رکھتے اور عورتوں کو (جو مردوں کے پیچھے جماعت میں شریک رہتی تھیں) کہہ دیا جاتا کہ جب تک مرد پوری طرح سمٹ کر نہ بیٹھ جائیں تم اپنے سر (سجدے سے) نہ اٹھانا . . . [صحيح البخاري/كتاب العمل في الصلاة: 1215]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کے ارکان میں ایک دوسرے سے تقدیم و تاخیر کرنا اور ایک دوسرے کے فعل کا انتظار کرنا جائز ہے اس سے نماز باطل نہیں ہوتی اس لیے کہ آپ نے عورتوں کو مردوں کا انتظار کرنے کا حکم دیا اور یہ مستلزم ہے اس بات کو کہ مرد تقدیم کریں اور عورتیں ان سے تاخیر کریں یعنی مرد پہلے سر اٹھائیں اور عورتیں پیچھے سر اٹھائیں یہی وجہ ہے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کی۔ ديكهئے: [فتح الباري، ج4، ص75]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ بات عورتوں کو حالت نماز میں کہی گئی یا نماز سے پہلے۔ شق اول سے معلوم ہوا کہ نمازی کو مخاطب کرنا اور نماز کے لیے کسی کا انتظار کرنا جائز ہے اور شق ثانی سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں انتظار کرنا جائز ہے۔
◈ مزید آپ فرماتے ہیں:
«ومحصل مراد البخاري أن الانتظار إن كان شرعيًا جازو إلا فلا»
حاصل کلام یہ ہے کہ کسی کا انتظار کرنا اگر شرعی ہے تو جائز ہے، ورنہ نہیں۔ [فتح الباري، ج4، ص76]

◈ علامہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ لازم نہیں ہے کہ یہ نماز میں ہی کہا جائے اور نہ ہی حدیث میں اس کی کوئی دلالت موجود ہے۔ بلکہ وہ ایک عام قل ہے چاہے نماز میں ہو یا نماز سے خارج۔ [حاشيه السندي، ج1، ص210]

◈ بدرالدین بن جماعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فقد أفاد المسألتين، خطاب المصلي، وامساك المصلي المريض بما لا يضر لأنه قيل لهن قبلن ولم ينكر عليهن وان كان الخطاب لهن قبل الصلاة فقد أفاد جواز الانتظار لأن النبى صلى الله عليه وسلم لم ينكر عليهن فى أمرهن بذالك ولعله كان هو الأمر به فنسي، وإذا كان الانتظار جائز فطلبه جائز والاصفاء إليه جائز» [مناسبات تراجم البخاري، ص54]

◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيه: جواز سبق المأمون بعضهم لبعض فى الأفعال ولا يضر ذالك»
اس حدیث میں اس کا جواب ہے کہ مقتدی اگر افعال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں تو (نماز) پر کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ [التوضيح، ج9، ص311]
مزید آپ ترجمۃ الباب اور حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یقیناًً یہ جائز ہے کہ (غیر نمازی) کہے عورتوں سے اپنے سر نہ اٹھانا جب تک کہ مرد حضرات نہ بیٹھ جائیں اور اس کی مثل حدیث: خواتین جلدی کرتیں اپنی جگہ سے ہٹنے کی جب کہ وہ نماز پڑھ چکی ہوتیں۔
ان تمام اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ اگر نمازی یا غیر نمازی، نمازی سے کہے آگے بڑھ جاؤ تو اس صورت میں اگر نمازی آگے بڑھ جائے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی۔

قلت: جیسا کہ تحویل قبلہ کے بعد مسجد میں نماز ہو رہی تھی اور غیر نمازی نے تحویل کی خبر پہنچائی اور لوگوں نے اسی حالت میں قبلہ تبدیل کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل پر نکیر بھی نہیں کی۔ لہٰذا اس واقع سے بھی ترجمہ الباب کی تاید ہوتی ہے۔

◈ علامہ وحیدالزماں صاحب رقمطراز ہیں:
اس حدیث میں کہا ہے کہ عورتوں سے یہ اس وقت کہا جاتا جب وہ نماز میں ہوتیں۔ تو باب کا مطلب حدیث سے نکلنا دشوار ہے اور اس کی توجیہہ یوں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ گو لفظ میں دو احتمال ہوتے ہیں جب بھی وہ اس سے دلیل لیتے ہیں اور یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ عورتوں سے یہ نماز کی حالت میں کہا گیا ہو اور جب عورتوں سے یہ نماز کی حالت میں کہا گیا ہو اور جب عورتوں سے کہا گیا کہ تم اپنے سر اس وقت تک نہ اٹھاؤ جب تک مرد سیدھے نہ بیٹھ لیں تو مردوں کا عورتوں سے آگے بڑھنا بھی اس سے نکل آیا۔ [تيسير الباري، شرح صحيح البخاري، ج1، ص712]
امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت یہ بھی ہے کہ اگر کسی مسئلے پر یا پیش کردہ حدیث پر دو احتمالات ہوتے ہیں تو آپ ترجمۃ الباب کے ذریعے اس میں سے ایک احتمال کا ذکر بھی فرما دیا کرتے ہیں۔
مزید اگر غور کیا جائے تو امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ترجمۃ الباب سے احناف کا رد ہے کیونکہ احناف کے نزدیک اگر مصلی کو تقدم یا تاخر کا حکم دیا جائے اور نمازی نے اس کا اتباع کر لیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ دیکھئے تفصیل کے لئے: [لامع الدراري، ج4، ص300] اور باقی ائمہ کے نزدیک اس کے کہے پر عمل کرے تو نماز فاسد نہ ہو گی۔

ایک اشکال کا جواب:
یہاں اشکال وارد ہوتا ہے کہ «قيل للنساء» تو خارج نماز تھا، جیسا کہ امام قسطلانی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا [ارشاد الساري، ج2، ص1317]
اسی طرح سے صاحب اوجز المسالک نے بھی ذکر فرمایا [الابواب والتراجم، ج3، ص152] تو پھر امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمہ کس طرح ثابت ہو گا؟ کیونکہ بظاہر حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں سے نماز کی حالت میں کہا: جائے؟
جواب:
حدیث میں دونوں احتمال ثابت ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال «بكل المحتمل» ہے۔ یعنی لفظ میں اگر احتمال ہوتے ہیں تب بھی امام بخاری رحمہ اللہ اس سے استدلال فرما لیتے ہیں۔ پس یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ عورتوں سے نماز کی حالت میں کہا گیا ہو «لا ترفعن» لہٰذا اس صورت میں دونوں مسئلے ثابت ہو گئے۔ مردوں کا عورتوں سے تقدم اور عورتوں کا انتظار۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 258   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 630  
´آدمی گردن کے پیچھے کپڑے باندھ کر نماز پڑھے تو کیسا ہے؟`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اپنے تہبند تنگ ہونے کی وجہ سے گردنوں پر بچوں کی طرح باندھے ہوئے ہیں، تو ایک کہنے والے نے کہا: اے عورتوں کی جماعت! تم اپنے سر اس وقت تک نہ اٹھانا جب تک مرد نہ اٹھا لیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 630]
630۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا نماز میں ستر ڈھانپنا واجب ہے اور معلوم رہے کہ مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنے تک ستر ہے (یعنی اس حصے کو ڈھانپنا ضروری ہے) اور کندھوں کو بھی ڈھانکا جائے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمان اپنے اولین دور میں ازحد تنگدستی کا شکار تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 630   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 767  
´تہبند میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچوں کی طرح اپنا تہبند باندھے نماز پڑھ رہے تھے، تو عورتوں سے (جو مردوں کے پیچھے پڑھ رہی تھیں) کہا گیا کہ جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں تم اپنے سروں کو نہ اٹھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 767]
767 ۔ اردو حاشیہ: ازار چھوٹے ہوتے تھے، اس لیے گرہ دینا پڑتی تھی جیسے کہ حدیث نمبر 765 میں بیان ہوا۔ عورتوں کو کہنا صرف احتیاطاً تھا کہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے کہیں کپڑا ادھر ادھر نہ ہو جائے ورنہ یہ نہیں کہ وہ سجدے میں پیچھے سے ننگے ہوتے تھے کیونکہ اس طرح تو نماز ہی نہ ہو گی۔ اگر کپڑا اتنا چھوٹا ہو تو اسے گردن کی بجائے ازار کی طرح کمر پر باندھنا چاہیے کیونکہ شرم گاہ ڈھانپنا فرض ہے۔ یاد رہے! آپ کے دور مبارک میں عورتیں مردوں کے پیچھے باجماعت مسجد میں نماز پڑھتی تھیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 767   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.