عن عروة عن عائشة رضي الله عنها ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من عمر ارضا ليست لاحد فهو احق بها» رواه البخاري. قال عروة: وقضى به عمر في خلافته.عن عروة عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من عمر أرضا ليست لأحد فهو أحق بها» رواه البخاري. قال عروة: وقضى به عمر في خلافته.
سیدنا عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس کسی نے غیر آباد زمین کو آباد کیا، وہ اس زمین کا زیادہ حقدار ہے۔“ عروہ نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اسی پر فیصلہ فرمایا۔ (بخاری)
हज़रत अरवह ने हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा से रिवायत किया है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जिस किसी ने वीरान ज़मीन को आबाद किया, वह उस ज़मीन का अधिक हक़दार है।” अरवह ने कहा कि हज़रत उमर रज़ि अल्लाहु अन्ह ने अपने ख़िलाफ़त के समय में इसी पर फ़ैसला किया। (बुख़ारी)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحرث والمزارعة، باب من أحيا أرضًا مواتًا، حديث:2335.»
Narrated 'Urwa from 'Aishah (RA):
The Prophet (ﷺ) said: "He who develops land that does not belong to anyone, has the most right to it." 'Urwa said that 'Umar ruled according to that during his caliphate. [Reported by al-Bukhari]
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 776
´بے آباد و بنجر زمین کو آباد کرنے کا بیان` سیدنا عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس کسی نے غیر آباد زمین کو آباد کیا، وہ اس زمین کا زیادہ حقدار ہے۔“ عروہ نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اسی پر فیصلہ فرمایا۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 776»
تخریج: «أخرجه البخاري، الحرث والمزارعة، باب من أحيا أرضًا مواتًا، حديث:2335.»
تشریح: 1. اس حدیث کی رو سے بے آباد و بنجر زمین کو جو بھی آباد کر لے وہ اسی کی ملکیت میں آجاتی ہے‘ بشرطیکہ وہ کسی مسلمان یا ذمی کی ملکیت میں نہ ہو۔ اس میں بادشاہِ وقت کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں۔ جمہور علماء کی یہی رائے ہے‘ البتہ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام و بادشاہ سے اس وقت اجازت لی جائے گی جب وہ زمین آبادی کے قریب واقع ہو۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تو ہر صورت میں بادشاہ سے اجازت لینا ضروری ہے۔ 2. یہ حکم صرف مسلمان کے لیے ہے کافر کے لیے اس کی گنجائش نہیں ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 776