الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
139. بَابُ التَّسْبِيحِ وَالدُّعَاءِ فِي السُّجُودِ:
139. باب: سجدہ میں تسبیح اور دعا کا بیان۔
(139) Chapter. To invoke and glorify Allah in prostration.
حدیث نمبر: 817
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثنا يحيى، عن سفيان، قال: حدثني منصور، عن مسلم، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها، انها قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يكثر ان يقول في ركوعه وسجوده سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتاول القرآن".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، سفیان ثوری سے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے منصور بن معتمر نے مسلم بن صبیح سے بیان کیا، انہوں نے مسروق سے، ان سے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ اور رکوع میں اکثر یہ پڑھا کرتے تھے۔ «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك،‏‏‏‏ اللهم اغفر لي» (اس دعا کو پڑھ کر) آپ قرآن کے حکم پر عمل کرتے تھے۔

Narrated `Aisha: The Prophet used to say frequently in his bowing and prostrations "Subhanaka l-lahumma Rabbana wa bihamdika, Allahumma ghfir li" (Exalted [from unbecoming attributes] Are you O Allah our Lord, and by Your praise [do I exalt you]. O Allah! Forgive me). In this way [??] he was acting on what was explained to him in the Holy Qur'an.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 781


   صحيح البخاري794عائشة بنت عبد اللهيقول في ركوعه وسجوده سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي
   صحيح البخاري4293عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي
   صحيح البخاري817عائشة بنت عبد اللهيكثر أن يقول في ركوعه وسجوده سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   صحيح البخاري4967عائشة بنت عبد اللهسبحانك ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي
   صحيح البخاري4968عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   صحيح مسلم1087عائشة بنت عبد اللهسبحانك ربي وبحمدك اللهم اغفر لي
   صحيح مسلم1088عائشة بنت عبد اللهخبرني ربي أني سأرى علامة في أمتي فإذا رأيتها أكثرت من قول سبحان الله وبحمده أستغفر الله وأتوب إليه فقد رأيتها إذا جاء نصر الله
   صحيح مسلم1085عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   سنن أبي داود877عائشة بنت عبد اللهيكثر أن يقول في ركوعه وسجوده سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   سنن النسائى الصغرى1123عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   سنن النسائى الصغرى1048عائشة بنت عبد اللهيقول في ركوعه وسجوده سبحانك ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي
   سنن النسائى الصغرى1124عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   سنن ابن ماجه889عائشة بنت عبد اللهيكثر أن يقول في ركوعه وسجوده سبحانك اللهم وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   بلوغ المرام231عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي
   المعجم الصغير للطبراني1072عائشة بنت عبد الله قبل أن يموت يكثر أن يقول : سبحانك اللهم وبحمدك ، أستغفرك وأتوب إليك ، قلت : يا رسول الله ، إني أراك تكثر أن تقول : سبحانك اللهم وبحمدك ، أستغفرك وأتوب إليك ؟ ، فقال : إني أمرت بأمر ، فقرأ : إذا جاء نصر الله والفتح

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 231  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول في ركوعه وسجوده: «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي» . متفق عليه. . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفرلي» تو پاک ہے اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! اپنی حمد و ثنا کے ساتھ۔ اے اللہ! مجھے بخش دے۔ پڑھا کرتے۔ (بخاری و مسلم) . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 231]

لغوی تشریح:
«وَبِحَمْدِكَ» اس میں واؤ عاطفہ ہے۔ میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں اور تیری حمد و توصیف میں محو ہوتا ہوں۔ اور اس کا بھی احتمال ہے کہ واؤ حالیہ ہو۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ تیری پاکی بیان کرتا ہوں اس حال میں کہ میں تیری حمد وثنا میں محو ہونے والا ہوں۔ رکوع و سجود کے لیے متعدد اذکار اور دعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ نمازی ان میں سے جسے چاہے منتخب کر سکتا ہے۔

فائدہ:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکوع میں «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم» اور سجدے میں «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰي» کے علاوہ مذکورہ بالا دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ «اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ» نازل ہونے کے بعد آپ ہمیشہ رکوع و سجود میں یہ دعا پڑھتے تھے۔ [صحيح البخاري، التفسير، حديث، 9467، و مسند أحمد: 2306] نمازی ان مسنون دعاؤں میں وقتاً فوقتاً جسے چاہے پڑھ سکتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 231   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4293  
´رکوع اور سجدہ کی ایک دعا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدہ میں یہ پڑھتے تھے «سبحانك اللهم،‏‏‏‏ ربنا وبحمدك،‏‏‏‏ اللهم اغفر لي» ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4293]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4293 کا باب: «بَابُ مَنْزِلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ:»
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمہ الباب میں فتح مکہ کے بعد کا ذکر فرما رہے ہیں، مگر تحت الباب جو امی عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت نقل فرمائی ہے اس میں فتح مکہ کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، بلکہ رکوع اور سجود کی تسبیح کا ذکر ہے، لہٰذا بظاہر باب سے حدیث کی مناسبت دکھلائی نہیں دیتی، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اسی حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس سے باب اور حدیث میں واضح مناسب ظاہر ہوتی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ووجه دخوله هنا ما سيأتي فى التفسير بلفظ ما صلى النبى صلى الله عليه وسلم صلاة بعد أن أنزلت عليه (اذا جاء نصر الله والفتح) [النصر: 1] الا يقول فيها .» [فتح الباري لابن حجر: 18/8]
ترجمہ الباب کے تحت اس حدیث کو شامل کرنے کی مناسبت یوں ہے کہ دوسرے طریق کتاب التفسیر میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے، (رکوع اور سجدوں میں) جب یہ آیت (فتح مکہ کے روز) نازل ہوئی، «اذا جاء نصر الله والفتح .»
لہٰذا مذکورہ حدیث کا تعلق فتح مکہ کے روز سے ہے لہٰذا مناسبت کا پہلو اسی مقام پر موجود ہے۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيقال: كأن البخاري بيض له، فلم يتفق له وقوع ما يناسبه، ثم هذه الأحاديث الأربعة التى أوردها فى هذا الباب مناسبة لقصة الفتح كما لايخفي» [لب اللباب فى اللتراجم والأبواب 297/3]
یعنی علامہ عبدالحق صاحب کے بیان کے مطابق تحت الباب جو احادیث امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل فرمائی ہیں ان کی مناسبت فتح مکہ کے واقعہ کے ساتھ ہے جو کہ مخفی نہیں ہے، یعنی کہیں نہ کہیں فتح کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔

محمد زکریا کاندھلوی فرماتے ہیں:
(بغیر ترجمۃ) «ذكر فيه الأحاديث المتفرقة التى فيها ذكر فتح مكة .» [الابواب والتراجم لصحيح البخاري 624/4]
(باب بغیر ترجمہ کے) تحت الباب متفرق چار احادیث کا ذکر فرمایا ہے، جس سے باب میں مناسبت فتح مکہ کے بیان سے ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 55   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 877  
´رکوع اور سجدے میں دعا کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدوں میں کثرت سے «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي» کہتے تھے اور قرآن کی آیت «فسبح بحمد ربك واستغفره» (سورة النصر: ۳) کی عملی تفسیر کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 877]
877۔ اردو حاشیہ:
➊ اس دعا کا پس منظر یہ ہے کہ جب سورہ «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ» نازل ہوئی تو اس میں یہ ارشاد ہوا کہ «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا» سو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور اس سے استغفار کیجئے، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ دعا کو رکوع اور سجدے میں اپنا معمول بنا لیا۔
➋ اس دعا میں تسبیح، تحمید اور دعا تینوں چیزیں جمع ہیں۔ اور سابقہ حدیث میں جو آیا ہے کہ رکوع میں اپنے رب کی عظمت اور سجدے میں دعا خوب کیا کرو، تو ان دونوں احادیث کو جمع کرنے سے معلوم ہوا کہ رکوع میں تسبیح و تحمید کے ساتھ ساتھ دعا جائز ہے اور ایسے ہی سجدے میں دعا کے ساتھ تسبیح و تحمید بھی۔ ➌ اس کی دوسری توجیح یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ رکوع میں تعظیم رب اور سجدے میں کثرت دعا افضل و اولیٰ ہے اور اس مقصد کے لئے ماثور کلمات کا انتخاب ہی ارجح ہے، نوافل میں حسب مطلب بھی دعا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 877   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1048  
´رکوع کی ایک اور دعا (ذکر) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدے میں «‏سبحانك ربنا وبحمدك اللہم اغفر لي‏» اے ہمارے رب تیری ذات پاک ہے، اور تیری حمد کے ساتھ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں، اے اللہ تو مجھے بخش دے کثرت سے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1048]
1048۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو تعلیم دینے کے لیے یہ دعائیں پڑھتے تھے ورنہ آپ تو گناہوں سے معصوم تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1048   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث889  
´رکوع اور سجدہ میں پڑھی جانے والی دعا (تسبیح) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی عملی تفسیر کرتے ہوئے اکثر اپنے رکوع میں «سبحانك اللهم وبحمدك اللهم اغفر لي» اے اللہ! تو پاک ہے، اور سب تعریف تیرے لیے ہے، اے اللہ! تو مجھے بخش دے پڑھتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 889]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رکوع اور سجدے میں بہت سے اذکار مروی ہیں۔
ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔
نمازی کو چاہیے کہ کبھی کوئی دعا پڑھ لے۔
کبھی کوئی۔

(2)
سورۃ نصر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾ (النصر: 3)
اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کیجئے۔
اور اس سے مغفرت کا سوال کیجئے۔
بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے اس حکم کی تعمیل اس طرح کی کہ رکوع اور سجدے میں مذکورہ بالا دعا بار بار پڑھتے رہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 889   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 817  
817. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ بکثرت اپنے رکوع اور سجدے میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي اس طرح آپ قرآنی حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:817]
حدیث حاشیہ:
سورۃ ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ میں ہے ﴿فَسَبِّح بِحَمدِرَبِّکَ وَاستَغفِرہُ﴾ (اپنے رب کی پاکی بیان کر اور اس سے بخشش مانگ)
اس حکم کی روشنی میں آپ ﷺ سجدہ میں مذکورہ دعا پڑھا کرتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یا اللہ میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں اے اللہ تو مجھ کو بخش دے۔
اس دعا میں تسبیح اور تحمید اور استغفار تینوں موجود ہیں اس لیے رکوع اور سجدہ میں اس کا پڑھنا افضل ہے علاوہ ازیں رکوع میں سُبحَانَ رَبیِّ العَظِیم اور سجدہ میں سُبحَانَ رَبیِّ الاَعلٰی مسنونہ دعائیں بھی آیات قرآنیہ ہی کی تعمیل ہیں جیسا کہ مختلف آیات میں حکم ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ سورہ اِذَا جَآئَ نَصرُ اللّٰہِ کے نزول کے بعد آپ ہمیشہ رکوع وسجود میں اس دعا کو پڑھتے رہے یعنی سُبحَانَك اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمدِکَ اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی علامہ امام شوکانی ؒ اس کا مطلب یوں بیان فرماتے ہیں بتوفیقك لي وھدایتك وفضلك علی سبحنك لا بحولي وقوتي۔
یعنی یا اللہ میں محض تیری توفیق اور ہدایت اور فضل سے تیری پاکی بیان کرتا ہوں اپنی طرف سے اس کار عظیم کے لیے مجھ میں کوئی قوت نہیں ہے۔
بعض روایات میں رکوع وسجدہ میں یہ دعا پڑھنی بھی آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے سُبُّوح قُدُّوس رَبُّ المَلَائِکَة وَالرُّوحِ (احمد مسلم وغیرہ)
یعنی میرا رکوع یا سجدہ اس ذات واحد کے لیے ہے جو جملہ نقائص اور شرکاء سے پاک ہے وہ مقدس ہے وہ فرشتوں کا اور جبرئیل کا بھی پروردگار ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 817   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:817  
817. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ بکثرت اپنے رکوع اور سجدے میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي اس طرح آپ قرآنی حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:817]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بندہ اپنے رب کے بہت زیادہ قریب بحالت سجدہ ہوتا ہے، لہذا تم اس حالت میں بکثرت دعا کیا کرو۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1083 (482)
ایک روایت میں ہے کہ سجدے میں کوشش سے دعا کیا کرو کیونکہ یہ اس لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کر لی جائے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1074 (479)
ان روایات کی وجہ سے شاید کہا جا سکے کہ سجدے میں دعا ہی کرنی چاہیے۔
اس میں تسبیح وغیرہ نہ پڑھی جائے۔
امام بخاری ؒ نے تنبیہ فرمائی کہ سجدے میں تسبیح پڑھنا اور دعا کرنا دونوں ثابت ہیں۔
مذکورہ حدیث سے ثابت ہے کہ رکوع میں دعا اور سجدے میں تسبیح پڑھی جا سکتی ہے اور جس روایت میں ہے کہ رکوع میں اپنے رب کی تعظیم کرو اور سجدے میں کوشش سے دعا کرو۔
یہ روایت مذکورہ حدیث کے معارض نہیں۔
(فتح الباري: 388/2) (2)
رسول اللہ ﷺ سے دوران نماز میں متعدد مقامات میں دعائیں کرنا ثابت ہیں۔
ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
٭ تکبیر تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے ٭ رکوع کی حالت میں ٭ قومے کی حالت میں ٭ سجدے کی حالت میں ٭ دونوں سجدوں کے درمیان ٭ تشہد کے بعد سلام سے قبل۔
فرائض میں دوران جماعت چونکہ مقتدی حضرات کی رعایت کرتے ہوئے تخفیف کا حکم ہے، اس لیے فرائض میں اگر مقتدی حضرات پر گرانی نہ ہو تو بکثرت دعائیں کی جا سکتی ہیں۔
واللہ أعلم۔
(3)
سورۂ نصر میں رسول اللہ ﷺ کو استغفار کا حکم ہوا تھا، یہ اسی قرآنی حکم کی تعمیل تھی کہ آپ کثرت کے ساتھ رکوع اور سجدے میں اس دعا کو پڑھا کرتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 817   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.