الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
156. بَابُ يَسْتَقْبِلُ الإِمَامُ النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ:
156. باب: امام جب سلام پھیر چکے تو لوگوں کی طرف منہ کرے۔
(156) Chapter. The Imam should face the followers after finishing the prayer with Taslim.
حدیث نمبر: 846
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن صالح بن كيسان، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن زيد بن خالد الجهني، انه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية على إثر سماء كانت من الليلة، فلما انصرف اقبل على الناس فقال:"هل تدرون ماذا قال ربكم؟ قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: اصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فاما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي وكافر بالكوكب، واما من قال بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي ومؤمن بالكوكب".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ:"هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي وَمُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک سے بیان کیا، انہوں نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا، ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہو چکی تھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے۔ اور کچھ میرے منکر ہوئے جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تو وہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلانی جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں کا مومن۔

Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani: The Prophet led us in the Fajr prayer at Hudaibiya after a rainy night. On completion of the prayer, he faced the people and said, "Do you know what your Lord has said (revealed)?" The people replied, "Allah and His Apostle know better." He said, "Allah has said, 'In this morning some of my slaves remained as true believers and some became non-believers; whoever said that the rain was due to the Blessings and the Mercy of Allah had belief in Me and he disbelieves in the stars, and whoever said that it rained because of a particular star had no belief in Me but believes in that star.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 807


   صحيح البخاري4147زيد بن خالدأصبح من عبادي مؤمن بي وكافر بي فأما من قال مطرنا برحمة الله وبرزق الله وبفضل الله فهو مؤمن بي كافر بالكوكب وأما من قال مطرنا بنجم كذا فهو مؤمن بالكوكب كافر بي
   صحيح البخاري846زيد بن خالدأصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي وكافر بالكوكب وأما من قال بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي ومؤمن بالكوكب
   صحيح البخاري7503زيد بن خالدأصبح من عبادي كافر بي ومؤمن بي
   صحيح البخاري1038زيد بن خالدأصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب وأما من قال بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب
   صحيح مسلم231زيد بن خالدأصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب وأما من قال مطرنا بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب
   سنن أبي داود3906زيد بن خالدأصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله وبرحمته فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب وأما من قال مطرنا بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب
   سنن النسائى الصغرى1526زيد بن خالدما أنعمت على عبادي من نعمة إلا أصبح طائفة منهم بها كافرين يقولون مطرنا بنوء كذا وكذا فأما من آمن بي وحمدني على سقياي فذاك الذي آمن بي وكفر بالكوكب ومن قال مطرنا بنوء كذا وكذا فذاك الذي كفر بي وآمن بالكوكب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم3زيد بن خالداصبح من عبادي مؤمن بي وكافر
   مسندالحميدي832زيد بن خالد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 3  
´بارش کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے`
«. . . 274- وعن صالح بن كيسان عن عبيد الله بن عبد الله عن زيد بن خالد الجهني أنه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية فى إثر سماء كانت من الليل، فلما انصرف أقبل على الناس فقال: هل تدرون ماذا قال ربكم؟ قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فأما من قال: مطرنا بفضل الله ورحمته، فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب، وأما من قال: مطرنا بنوء كذا وكذا، فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب . . . .»
. . . سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ کے مقام پر رات کی بارش کے بعد صبح کی نماز پڑھائی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: کیا تمہیں پتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ فرماتا ہے:) میرے بندوں میں سے کچھ بندوں نے صبح اس حال میں کی ہے کہ ان میں سے کچھ مومن ہیں اور کچھ کافر۔ جو شخص کہتا ہے کہ اللہ کے فضل اور رحمت کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص مجھ پر ایمان لانے والا (مومن) ہے اور ستاروں کا انکار کرنے والا ہے۔ اور جو کہتا ہے کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص میرا انکار کرنے والا اور ستاروں پر ایمان لانے والا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 3]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 846، ومسلم 71، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر سوال وجواب کرنا اور درس دینا مسنون ہے۔
➋ یہ عقیدہ رکھنا کہ فلاں نفع یا نقصان کی وجہ فلاں ستارے کا طلوع یا غروب ہونا ہے، کفر ہے۔
➌ بعض نجومی ستاروں کا نام لے کر لوگوں کی قسمت کا حال بتاتے رہتے ہیں، یہ سب فراڈ اور باطل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہنوں کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم: 121/2227]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من أتی عرّافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاۃ أربعین لیلةً۔» جو شخص کسی نجومی کے پاس جائے پھر اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے تو اس کی چالیس رات (دن) کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ [صحيح مسلم: 2230، دارالسلام: 5821]
جو شخص کسی کاہن کے پاس جاکر اس کی تصدیق کرتا ہے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ (دین) کا انکار کرتا ہے۔ [ديكهئے سنن ابن ماجه: 639 وسنده حسن وصححه ابن الجارود: 107]
➍ مخلوقات کی زندگی موت اور نفع نقصان میں ستاروں اور اجرام فلکیہ کا کوئی اثر نہیں ہے۔
➎ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔
➏ موقع کی مناسبت سے درس دینا بہت مفید ہے کیونکہ یہ زیادہ پر اثر ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 274   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 846  
´اگر کوئی کہے فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی`
«. . . قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي وَمُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ . . .»
. . . (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے۔ اور کچھ میرے منکر ہوئے جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تو وہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلانی جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں کا مومن . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 846]

لغوی توضیح:
«إِثْرِ سَمَاءٍ» سے مراد بارش ہے۔
«بِنَوْءِ كَذَا» فلاں ستارے کی وجہ سے۔

فہم الحديث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی کہے فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی اور یہ عقیدہ رکھے کہ ستارہ بذات خود بارش نازل کر سکتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو کر کافر ہو جاتا ہے، جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔ البتہ اگر کوئی یہ بات کہے مگر اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اصل میں بارش نازل کرنے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے اور ستارے محض علامات و نشانی ہیں تو پھر وہ کافرنہیں ہوتا لیکن یہ بھی مکروہ ہے، کیونکہ یہ کلمہ کفر و غیر کفر کے درمیان متردد ہے۔ [منة المنعم فى شرح مسلم 93/1]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ درحقیقت ستارے بارش نہیں لا سکتے بلکہ وہ تو ہوائیں بھی نہیں چلا سکتے۔ [شرح مسلم للنوي 136/2]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 46   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3906  
´علم نجوم کا بیان۔`
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں ہمیں نماز فجر بارش کے بعد پڑھائی جو رات میں ہوئی تھی تو جب آپ فارغ ہو گئے اور لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا کہا؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے کہا: میرے بندوں میں سے کچھ نے آج مومن ہو کر صبح کی، اور کچھ نے کافر ہو کر، جس نے یہ کہا کہ بارش اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی وہ میرے اوپر ایمان رکھنے والا ہوا اور ستاروں کا منکر ہوا، اور جس نے کہا کہ ہم فلاں اور فلاں نچھتر کے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3906]
فوائد ومسائل:
1) ستاروں وغیرہ کو زمین یا مخلوق میں بذاتہ موثر سمجھنا شرک ہے۔

2) ہر قسم کے واقعات و حوادث صرف اور صرف اللہ عزوجل کی مشیت اور ارادہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

3) داعی حق مرشد اور استاد کو چاہیے کہ عوام کو واقعاتِ عالم میں تدبر کا درس دیا کرے اور اس سے توحید کا اثبات کرےاور شرک و طواغیت کی تردید کیا کرے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3906   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 846  
846. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے مقام حدیبیہ پر بارش کے بعد جو رات آئی، اس میں ہمیں نماز فجر پڑھائی۔ فراغت کے بعد لوگوں کی طرف منہ کر کے فرمایا: تم جانتے ہو کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ) میرے بندوں میں سے کچھ میرے ساتھ ایمان لائے اور کچھ نے کفر کی روش اختیار کی۔ جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش ہوئی وہ تو میرا مومن بندہ اور ستارے کا منکر ہے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی وہ میرا منکر اور ستارے پر ایمان لانے والا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:846]
حدیث حاشیہ:
کفر سے حقیقی کفرمراد ہے معلوم ہوا کہ جو کوئی ستاروں کو موثر جانے وہ بہ نص حدیث کافر ہے۔
پانی برسانا اللہ کا کام ہے ستارے کیا کر سکتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 846   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:846  
846. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے مقام حدیبیہ پر بارش کے بعد جو رات آئی، اس میں ہمیں نماز فجر پڑھائی۔ فراغت کے بعد لوگوں کی طرف منہ کر کے فرمایا: تم جانتے ہو کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ) میرے بندوں میں سے کچھ میرے ساتھ ایمان لائے اور کچھ نے کفر کی روش اختیار کی۔ جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش ہوئی وہ تو میرا مومن بندہ اور ستارے کا منکر ہے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی وہ میرا منکر اور ستارے پر ایمان لانے والا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:846]
حدیث حاشیہ:
(1)
مختلف روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز سے فراغت کے بعد دائیں طرف، کبھی بائیں طرف اور کبھی بالکل مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھتے، یعنی تینوں حالتیں رسول اللہ ﷺ کے بیٹھنے پر محمول ہیں۔
بعض حضرات کی رائے ہے کہ دائیں، بائیں طرف پھرنے کی روایات گھر جانے یا کوئی اور کام کرنے پر محمول ہیں اور لوگوں کی طرف منہ کرنے کی روایت بیٹھنے پر محمول ہے۔
اس اختلاف کی وجہ سے محدثین نے انصراف و استقبال وغیرہ کے متعلق مستقل عنوان قائم کیے ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ موقف صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر دائیں بائیں جانب جانے کی بات ہے تو جدھر ضرورت ہو گی ادھر چلا جائے گا اس میں دائیں یا بائیں پھرنے کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مقصود معلوم ہوتا ہے کہ امام کا مقتدیوں کی طرف منہ کرنا، اس کے تین انداز ہیں:
دائیں یا بائیں یا بالکل مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھنا۔
اگر تو لوگوں کو تعلیم دینا یا وعظ کرنا مقصود ہوتا تو لوگوں کی طرف منہ کر کے خطاب کرتے، بصورت دیگر دائیں یا بائیں منہ کر کے اذکار وغیرہ میں مصروف رہتے۔
واللہ أعلم۔
(2)
ستاروں کی تاثیر سعادت و نحوست کے اعتبار سے کچھ بھی نہیں ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر مصیبت کے وقت کہا جاتا ہے کہ میرا ستارہ گردش میں ہے۔
ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
اسی طرح ان کی ذاتی تاثیر کا عقیدہ رکھنا بھی ایمان کے منافی ہے، البتہ تحت الاسباب ان کے طبعی اثرات ضرور ہیں، مثلا:
موسموں میں تبدیلی، گرمی و سردی کا ہونا، سمندر میں اتار چڑھاؤ کا آنا، جسے جوار بھاٹا یا مدوجزر کہا جاتا ہے۔
بہرحال اشیاء میں طبعی آثار و خواص تو ہیں لیکن ان کی تاثیر اذنِ الٰہی پر موقوف ہے جیسا کہ آگ کی تاثیر جلانا ہے لیکن اللہ کا اذن نہ ہونے کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نہ جلا سکی بلکہ ان کے لیے جنت و گلزار بن گئی، اس لیے کہنے والے کی نیت کو دیکھا جائے گا اگر وہ ستاروں کے متعلق ذاتی طور پر بارش برسانے کا عقیدہ رکھتا ہے تو بلاشبہ وہ دین اسلام سے خارج ہے اور اگر ان کی تاثیر بطور عادت اور اذن الٰہی پر موقوف مانتا ہے تو کافر نہیں ہو گا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 846   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.