الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
161. بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ:
161. باب: بچوں کے وضو کرنے کا بیان۔
(161) Chapter. The ablution for boys (youngsters). When they should perform Ghusl (take a bath) and Tuhur (purification). Their attendance at congregational prayers, Eid prayers and funeral prayers and their rows in the prayers.
حدیث نمبر: 862
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عروة بن الزبير، ان عائشة قالت: اعتم النبي صلى الله عليه وسلم، وقال عياش: حدثنا عبد الاعلى، حدثنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم في العشاء حتى ناداه عمر قد نام النساء والصبيان، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إنه ليس احد من اهل الارض يصلي هذه الصلاة غيركم، ولم يكن احد يومئذ يصلي غير اهل المدينة".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ عَيَّاشٌ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعِشَاءِ حَتَّى نَادَاهُ عُمَرُ قَدْ نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ يُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ غَيْرُكُمْ، وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ يَوْمَئِذٍ يُصَلِّي غَيْرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء میں دیر کی اور عیاش نے ہم سے عبد الاعلیٰ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء میں ایک مرتبہ دیر کی۔ یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے اور فرمایا کہ (اس وقت) روئے زمین پر تمہارے سوا اور کوئی اس نماز کو نہیں پڑھتا، اس زمانہ میں مدینہ والوں کے سوا اور کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا۔

Narrated `Aisha: Once Allah's Apostle delayed the `Isha' prayer till `Umar informed him that the women and children had slept. Then Allah's Apostle came out and said: "None from amongst the dwellers of earth have prayed this prayer except you." In those days none but the people of Medina prayed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 821


   صحيح البخاري862عائشة بنت عبد اللهليس أحد من أهل الأرض يصلي هذه الصلاة غيركم ولم يكن أحد يومئذ يصلي غير أهل المدينة
   صحيح البخاري569عائشة بنت عبد اللهما ينتظرها أحد من أهل الأرض غيركم قال ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة وكانوا يصلون فيما بين أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول
   صحيح البخاري864عائشة بنت عبد اللهما ينتظرها أحد غيركم من أهل الأرض ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة وكانوا يصلون العتمة فيما بين أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول
   صحيح مسلم1443عائشة بنت عبد اللهما ينتظرها أحد من أهل الأرض غيركم وذلك قبل أن يفشو الإسلام في الناس
   سنن النسائى الصغرى483عائشة بنت عبد اللهليس أحد يصلي هذه الصلاة غيركم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 483  
´نماز عشاء کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کو مؤخر کیا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، اور فرمایا: تمہارے سوا کوئی نہیں جو اس نماز کو (اس وقت) پڑھ رہا ہو، ان دنوں اہل مدینہ کے سوا کوئی اور نماز پڑھنے والا نہیں تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 483]
483 ۔ اردو حاشیہ:
➊ضرورت پڑنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سے پکارنا جائز تھا۔ آپ کی موجودگی میں بلاضرورت اونچی آواز سے بولنا گناہ تھا، گستاخی تھی اور موجب حرمان تھا، پھر یہ واقعہ سورۂ حجرات کے نزول سے پہلے اسلام کے ابتدائی ایام کا ہے جبکہ اونچی آواز سے پکارنے کی ممانعت اور اس پر عمل کی بربادی کی وعید سورۂ حجرات میں آئی ہے۔
عورتیں اور بچے سوگئے۔ یعنی وہ عورتیں جو باجماعت نماز کے لیے مسجد میں آئی تھیں اور ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بجے بھی تھے۔ یا گھروں میں عورتیں اور بچے سوگئے۔ دروازہ کھلوانا مشکل ہو گا۔ لیکن پہلا مفہوم ہی درست ہے۔
تمہارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا۔ کیونکہ عیسائی و یہودی تو عشاء کی نماز پڑھتے ہی نہیں، صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں اور اس وقت اسلام مدینے سے باہر نہیں پھیلا تھا یا پھر مکے میں چند مجبورومقہور مسلمان تھے جن کو علانیہ نمازباجماعت پڑھنے کی ہمت ہی نہ تھی، چھپ چھپا کر پڑھتے تھے۔ اس جملے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اتنی تاخیر کے ساتھ مسجد نبوی کے علاوہ کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی کیونکہ مدینہ منورہ کی دیگر مساجد میں لوگ جلدی نماز پڑھ کر سوجاتے تھے۔ اس صورت میں تم سے مراد مسجد نبوی کے نمازی ہوں گے، پہلی صورت میں عام مسلمان مراد ہوں گے۔ واللہ أعلم۔
➍اس حدیث سے بظاہر امام صاحب کا استدلال واضح نہیں ہے لیکن آپ کا یہ فرمانا: تمہارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا اس امت کی خصوصیت واضح کرتا ہے، اس لیے اس نماز کا اہتمام ضروری ہے۔ نماز کے لیے منتظر رہنا اس کے اہتمام میں شامل ہے، لہٰذا یہ عمل اس کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 483   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 862  
862. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک رات نماز عشاء میں دیر کر دی یہاں تک حضرت عمر ؓ نے آپ کو بآواز بلند کہا: عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ (حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ) پھر رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: روئے زمین پر تمہارے علاوہ اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اس وقت نماز پڑھ رہا ہو۔ ان دنوں اہل مدینہ کے علاوہ اور کوئی یہ نماز نہیں پڑھتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:862]
حدیث حاشیہ:
اس لیے کہ اسلام صرف مدینہ میں محدود تھا، خاص طور پر نماز باجماعت کا سلسلہ مدینہ ہی میں تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکالاکہ اس وقت عشاء کی نماز پڑھنے کے لیے بچے بھی آتے رہتے ہوں گے، جبھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔
پس جماعت میں عورتوں کا مع بچوں کے شریک ہونا بھی ثابت ہوا والظاھر من کلام عمر رضی اللہ عنہ أنه شاھد النساء اللاتی حضرن في المسجد قد نمن وصبیانھن معھن (حاشیہ بخاری)
یعنی ظاہر کلام عمر سے یہی ہے کہ انہوں نے ان عورتوں کا مشاہدہ کیا جو مسجد میں اپنے بچوں سمیت نماز عشاءکے لیے آئی تھیں اور وہ سو گئیں جب کہ ان کے بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 862   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.