الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book on Hajj
59. باب مَا جَاءَ فِي رَمْىِ يَوْمِ النَّحْرِ ضُحًى
59. باب: قربانی کے دن چاشت کے وقت رمی کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Stoning On The Day Of An-Nahr During Duha (The Morning Light)
حدیث نمبر: 894
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، حدثنا عيسى بن يونس، عن ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يرمي يوم النحر ضحى، واما بعد ذلك فبعد زوال الشمس ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا الحديث عند اكثر اهل العلم، انه لا يرمي بعد يوم النحر إلا بعد الزوال.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًى، وَأَمَّا بَعْدَ ذَلِكَ فَبَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ لَا يَرْمِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ إِلَّا بَعْدَ الزَّوَالِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دسویں ذی الحجہ کو (ٹھنڈی) چاشت کے وقت رمی کرتے تھے اور اس کے بعد زوال کے بعد کرتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ وہ دسویں ذی الحجہ کے زوال بعد کے بعد ہی رمی کرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 53 (1299)، سنن ابی داود/ الحج 78 (1971)، سنن النسائی/الحج 221 (3065)، سنن ابن ماجہ/المناسک 75 (3053)، سنن ابی داود/ المناسک 58 (1937) (تحفة الأشراف: 2795) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ یوم النحر (دسویں ذوالحجہ، قربانی والے دن) کے علاوہ دوسرے، گیارہ اور بارہ والے دنوں میں رمی سورج ڈھلنے کے بعد کی جائے، یہی جمہور کا قول ہے اور عطاء و طاؤس نے اسے زوال سے پہلے مطلقاً جائز کہا ہے، اور حنفیہ نے کوچ کے دن زوال سے پہلے رمی کی رخصت دی ہے، عطاء و طاؤس کے قول پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل و قول سے کوئی دلیل نہیں ہے، البتہ حنفیہ نے اپنے قول پر ابن عباس کے ایک اثر سے استدلال کیا ہے، لیکن وہ اثر ضعیف ہے اس لیے جمہو رہی کا قول قابل اعتماد ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3053)

   سنن النسائى الصغرى3065جابر بن عبد اللهرمى رسول الله الجمرة يوم النحر ضحى ورمى بعد يوم النحر إذا زالت الشمس
   صحيح مسلم3141جابر بن عبد اللهرمى رسول الله الجمرة يوم النحر ضحى وأما بعد فإذا زالت الشمس
   جامع الترمذي894جابر بن عبد اللهيرمي يوم النحر ضحى وأما بعد ذلك فبعد زوال الشمس
   سنن أبي داود1971جابر بن عبد اللهيرمي على راحلته يوم النحر ضحى فأما بعد ذلك فبعد زوال الشمس
   بلوغ المرام628جابر بن عبد الله رمى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم الجمرة يوم النحر ضحى واما بعد ذلك فإذا زالت الشمس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 628  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو قربانی کے روز چاشت کے وقت کنکریاں ماریں اور اس روز کے بعد آفتاب ڈھلنے کے بعد۔ (مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 628]
628 فوائد و مسائل:
➊ پہلے روز زوال آفتاب سے پہلے کنکریاں مارنی چاہییں اور باقی ایام میں زوال آفتاب کے بعد۔
➋ اگر دس تاریخ کو زوال آفتاب سے پہلے کنکریاں نہ مار سکے تو پھر اسی روز زوال آفتاب کے بعد مارنی چاہییں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 628   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 894  
´قربانی کے دن چاشت کے وقت رمی کرنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دسویں ذی الحجہ کو (ٹھنڈی) چاشت کے وقت رمی کرتے تھے اور اس کے بعد زوال کے بعد کرتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 894]
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ یوم النحر (دسویں ذوالحجہ،
قربانی والے دن)
کے علاوہ دوسرے،
گیارہ اور بارہ والے دنوں میں رمی سورج ڈھلنے کے بعد کی جائے،
یہی جمہور کا قول ہے اور عطاء و طاوس نے اسے زوال سے پہلے مطلقاً جائز کہا ہے،
اور حنفیہ نے کوچ کے دن زوال سے پہلے رمی کی رخصت دی ہے،
عطاء و طاؤس کے قول پر نبی اکرم ﷺ کے فعل و قول سے کوئی دلیل نہیں ہے،
البتہ حنفیہ نے اپنے قول پر ابن عباس کے ایک اثر سے استدلال کیا ہے،
لیکن وہ اثر ضعیف ہے اس لیے جمہور ہی کا قول قابل اعتماد ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 894   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.