(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثنا إسماعيل، قال: اخبرني عبد الحميد صاحب الزيادي، قال: حدثنا عبد الله بن الحارث، ابن عم محمد بن سيرين قال ابن عباس لمؤذنه في يوم مطير:" إذا قلت اشهد ان محمدا رسول الله فلا تقل حي على الصلاة، قل صلوا في بيوتكم فكان الناس استنكروا، قال: فعله من هو خير مني إن الجمعة عزمة وإني كرهت ان احرجكم فتمشون في الطين والدحض".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ صَاحِب الزِّيَادِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ، ابْنُ عَمِّ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِمُؤَذِّنِهِ فِي يَوْمٍ مَطِيرٍ:" إِذَا قُلْتَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَلَا تَقُلْ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قُلْ صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ فَكَأَنَّ النَّاسَ اسْتَنْكَرُوا، قَالَ: فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي إِنَّ الْجُمْعَةَ عَزْمَةٌ وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أُحْرِجَكُمْ فَتَمْشُونَ فِي الطِّينِ وَالدَّحَضِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں صاحب الزیادی عبدالحمید نے خبر دی، کہا کہ ہم سے محمد بن سیرین کے چچازاد بھائی عبداللہ بن حارث نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے مؤذن سے ایک دفعہ بارش کے دن کہا کہ «أشهد أن محمدا رسول الله» کے بعد «حى على الصلاة»(نماز کی طرف آؤ) نہ کہنا بلکہ یہ کہنا کہ «صلوا في بيوتكم»(اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو) لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا تو آپ نے فرمایا کہ اسی طرح مجھ سے بہتر انسان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کیا تھا۔ بیشک جمعہ فرض ہے اور میں مکروہ جانتا ہوں کہ تمہیں گھروں سے باہر نکال کر مٹی اور کیچڑ پھسلوان میں چلاؤں۔
Narrated Muhammad bin Seereen: On a rainy day Ibn `Abbas said to his Mu'adh-dhin, "After saying, 'Ash-hadu anna Muhammadan Rasulullah' (I testify that Muhammad is Allah's Apostle), do not say 'Haiya 'Alas-Salat' (come for the prayer) but say 'Pray in your houses'." (The man did so). But the people disliked it. Ibn `Abbas said, "It was done by one who was much better than I (i.e. the Prophet (p.b.u.h) ). No doubt, the Jumua prayer is compulsory but I dislike to put you to task by bringing you out walking in mud and slush."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 24
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1066
´سرد رات یا بارش والی رات میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کا بیان۔` محمد بن سیرین کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کے دن اپنے مؤذن سے کہا: جب تم «أشهد أن محمدا رسول الله» کہنا تو اس کے بعد «حي على الصلاة» نہ کہنا بلکہ اس کی جگہ «صلوا في بيوتكم»”لوگو! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو“ کہنا، لوگوں نے اسے برا جانا تو انہوں نے کہا: ایسا اس ذات نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے)، بیشک جمعہ واجب ہے، لیکن مجھے یہ بات گوارہ نہ ہوئی کہ میں تم کو کیچڑ اور پانی میں (جمعہ کے لیے) آنے کی زحمت دوں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1066]
1066۔ اردو حاشیہ: ➊ صحیح بخاری میں اس حدیث کا عنوان ہے: ”بارش کی وجہ سے اگر جمعہ میں حاضر نہ ہو تو رخصت ہے۔“[صحيح بخاري۔ حديث: 901] ➋ آجکل ہلکی پھلکی بارش میں تو مساجد میں آنا جانا مشکل نہیں، البتہ شدید یا مسلسل بارش میں اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ ➌ ایسے موقع پر موذن اذان میں «حي على الصلوة» اور «حي على الفلاح» کی جگہ «ألا صلو فى الر حال» کے الفاظ کہے۔ ”جس کا مطلب ہے لوگو! گھروں میں نماز پڑھ لو۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1066
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث939
´بارش کی رات میں باجماعت نماز کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن حارث بن نوفل سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مؤذن کو جمعہ کے دن اذان دینے کا حکم دیا، اور یہ بارش کا دن تھا، تو مؤذن نے کہا: «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله»، پھر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: «حي على الصلاة، حي على الفلاح» کی جگہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ اپنے گھروں میں نماز ادا کر لیں، لوگوں نے یہ سنا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہنے لگے آپ نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے کہا: یہ کام اس شخصیت نے کیا ہے، جو مجھ سے افضل تھی، اور تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 939]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس سے معلوم ہوا کہ (صلو فی الرحال) کے کلمات (حی علی الصلاة) اور (حی علی الفلاح) کے عوض کہے جایئں گے۔
(2) اسلام آسانی والا دین ہے۔ اس میں بہت سی رخصتیں موجود ہیں۔ اس کے باوجود اس کے احکام پر عمل میں کوتاہی کرنا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔
(3) جو مسئلہ کبھی کبھار سامنے آتا ہے اکثر لوگ اس سے واقف نہیں ہوتے۔ ان کے اعتراض پر ناراض ہونے کی بجائے مسئلہ کی وضاحت کردینی چاہیے۔
(4) بارش کی وجہ سے گھروں میں نماز کی اجازت صرف پنجگانہ نمازوں کےلئے ہی نہیں بلکہ جمعے کی نماز کا بھی یہی حکم ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 939
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 901
901. حضرت عبداللہ بن حارث جو محمد بن سیرین کے چچا زاد ہیں، سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بارش کے وقت اپنے مؤذن سے کہا کہ أشهد أن محمدا رسول الله کے بعد حي على الصلاة مت کہنا بلکہ اس کے بجائے صلوا في بيوتكم کہنا، یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا اس شخصیت نے کیا تھا جو مجھ سے کہیں بہتر تھی۔ نماز جمعہ اگرچہ فرض ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ تمہیں (تنگی میں مبتلا کرتے ہوئے) اس حالت میں گھروں سے نکالوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں پھسلتے رہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:901]
حدیث حاشیہ: تشریح: حضرت ابن عباس ؓ کا مطلب یہ تھا کہ بے شک جمعہ فرض ہے۔ مگر حالت بارش میں یہ عزیمت رخصت سے بدل جاتی ہے لہذا کیوں نہ اس رخصت سے تم کو فائدہ پہنچاؤں کہ تم کیچڑ میں پھسلنے اور بارش میں بھیگنے سے بچ جاؤ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 901
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:901
901. حضرت عبداللہ بن حارث جو محمد بن سیرین کے چچا زاد ہیں، سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بارش کے وقت اپنے مؤذن سے کہا کہ أشهد أن محمدا رسول الله کے بعد حي على الصلاة مت کہنا بلکہ اس کے بجائے صلوا في بيوتكم کہنا، یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا اس شخصیت نے کیا تھا جو مجھ سے کہیں بہتر تھی۔ نماز جمعہ اگرچہ فرض ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ تمہیں (تنگی میں مبتلا کرتے ہوئے) اس حالت میں گھروں سے نکالوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں پھسلتے رہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:901]
حدیث حاشیہ: (1) امام مالک ؒ کے نزدیک بارش وغیرہ ترک جمعہ کے لیے کوئی معقول عذر نہیں جبکہ جمہور کے نزدیک اگر بارش بہت زیادہ ہو تو نماز جمعہ میں حاضری کے لیے عذر بن سکتی ہے۔ امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث کو جمہور کی تائید میں پیش کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نماز جمعہ ادا نہیں کی بلکہ اس کی جگہ ظہر کی نماز پڑھی تھی۔ (فتح الباري: 294/2)(2) محدثین نے بیماری کو بھی عذر قرار دیا ہے اور اگر کسی مریض کی تیمارداری میں زیادہ مصروفیت کی ضرورت ہو یا اس سے دور ہونا بیماری میں اضافے کا باعث ہو تو اس صورت میں نماز جمعہ ترک کی جا سکتی ہے، البتہ اس کے بجائے نماز ظہر ادا کرنا ہو گی۔ (عمدة القاري: 52/5) صلوا في بيوتكم کے الفاظ اذان کے درمیان میں کہے جائیں یا اس سے فراغت کے بعد آخر میں ادا کیے جائیں؟ اس کی تفصیل ہم حدیث: 616 کے تحت بیان کر آئے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 901