الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
The Book of Abridged Or Shortened Prayers (At-Taqsir)
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّقْصِيرِ وَكَمْ يُقِيمُ حَتَّى يَقْصُرَ:
1. باب: نماز میں قصر کرنے کا بیان اور اقامت کی حالت میں کتنی مدت تک قصر کر سکتا ہے۔
(1) Chapter. What is said about the shortened praers and for what period of stay one should offer shortened prayers.
حدیث نمبر: 1081
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، قال: حدثنا يحيى بن ابي إسحاق، قال: سمعت انسا، يقول:" خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم من المدينة إلى مكة فكان يصلي ركعتين ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة، قلت: اقمتم بمكة شيئا؟ قال: اقمنا بها عشرا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ:" خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَكَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، قُلْتُ: أَقَمْتُمْ بِمَكَّةَ شَيْئًا؟ قَالَ: أَقَمْنَا بِهَا عَشْرًا".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا انہوں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تو برابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو، دو رکعت پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں کچھ دن قیام بھی رہا تھا؟ تو اس کا جواب انس رضی اللہ عنہ نے یہ دیا کہ دس دن تک ہم وہاں ٹھہرے تھے۔

Narrated Yahya bin 'Is-haq: I heard Anas saying, "We traveled with the Prophet from Medina to Mecca and offered two rak`at (for every prayer) till we returned to Medina." I said, "Did you stay for a while in Mecca?" He replied, "We stayed in Mecca for ten days."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 20, Number 187


   صحيح البخاري2951أنس بن مالكصلى بالمدينة الظهر أربعا والعصر بذي الحليفة ركعتين وسمعتهم يصرخون بهما جميعا
   صحيح البخاري4297أنس بن مالكأقمنا مع النبي عشرا نقصر الصلاة
   صحيح البخاري1089أنس بن مالكصليت الظهر مع النبي بالمدينة أربعا وبذي الحليفة ركعتين
   صحيح البخاري1546أنس بن مالكالمدينة أربعا وبذي الحليفة ركعتين ثم بات حتى أصبح بذي الحليفة فلما ركب راحلته واستوت به أهل
   صحيح البخاري1081أنس بن مالكخرجنا مع النبي من المدينة إلى مكة فكان يصلي ركعتين ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة قلت أقمتم بمكة شيئا قال أقمنا بها عشرا
   صحيح البخاري1547أنس بن مالكصلى الظهر بالمدينة أربعا وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين
   صحيح مسلم1583أنس بن مالكإذا خرج مسيرة ثلاثة فراسخ صلى ركعتين
   صحيح مسلم1581أنس بن مالكصلى الظهر بالمدينة أربعا وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين
   صحيح مسلم1586أنس بن مالكخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فصلى ركعتين ركعتين حتى رجع قلت كم أقام بمكة قال عشرا
   صحيح مسلم1582أنس بن مالكصليت مع رسول الله الظهر بالمدينة أربعا وصليت معه العصر بذي الحليفة ركعتين
   جامع الترمذي548أنس بن مالكخرجنا مع النبي من المدينة إلى مكة فصلى ركعتين
   جامع الترمذي546أنس بن مالكصلينا مع النبي الظهر بالمدينة أربعا وبذي الحليفة العصر ركعتين
   سنن أبي داود1201أنس بن مالكإذا خرج مسيرة ثلاثة فراسخ يصلي ركعتين
   سنن أبي داود1202أنس بن مالكصليت مع رسول الله الظهر بالمدينة أربعا والعصر بذي الحليفة ركعتين
   سنن أبي داود1233أنس بن مالكخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فكان يصلي ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة فقلنا هل أقمتم بها شيئا قال أقمنا بها عشرا
   سنن النسائى الصغرى1439أنس بن مالكخرجت مع رسول الله من المدينة إلى مكة فلم يزل يقصر حتى رجع فأقام بها عشرا
   سنن النسائى الصغرى1448أنس بن مالكصليت مع رسول الله بمنى ومع أبي بكر وعمر ركعتين ومع عثمان ركعتين صدرا من إمارته
   سنن النسائى الصغرى1453أنس بن مالكخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فكان يصلي بنا ركعتين حتى رجعنا
   سنن النسائى الصغرى478أنس بن مالكصلى الظهر بالمدينة أربعا وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين
   سنن النسائى الصغرى470أنس بن مالكصليت مع النبي الظهر بالمدينة أربعا وبذي الحليفة العصر ركعتين
   سنن ابن ماجه1077أنس بن مالكخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فصلى ركعتين ركعتين حتى رجعنا قلت كم أقام بمكة قال عشرا
   بلوغ المرام345أنس بن مالكخرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من المدينة إلى مكة،‏‏‏‏ فكان يصلي ركعتين ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة
   المعجم الصغير للطبراني456أنس بن مالك يلبي بهما جميعا ، لبيك بعمرة وحجة
   مسندالحميدي1225أنس بن مالكصليت مع النبي صلى الله عليه وسلم الظهر بالمدينة أربعا، وصليت معه العصر بذي الحليفة ركعتين
   مسندالحميدي1249أنس بن مالكلبيك بحجة وعمرة معا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 470  
´حضر میں ظہر کی نماز کی تعداد کا بیان۔`
ابن منکدر اور ابراہیم بن میسرہ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے انس رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی، اور ذوالحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 470]
470 ۔ اردو حاشیہ: مدینہ منورہ میں تو مکمل نماز پڑھی گئی، پھر سفر شروع ہو گیا، ذوالحلیفہ چونکہ شہر سے باہر ہے، سفر لمبا تھا، لہٰذا ذوالحلیفہ میں عصر کی نماز کا وقت آجانے پر قصر، یعنی دو رکعت پڑھی گئی۔ یاد رہے یہ حج کا سفر تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 470   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 478  
´سفر میں عصر کی نماز کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت، اور ذوالحلیفہ میں نماز عصر دو رکعت پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 478]
478 ۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 470 اور اس کا فائدہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 478   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1077  
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے اور واپسی تک دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے۔ یحییٰ کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کتنے دنوں تک مکہ میں رہے؟ کہا: دس دن تک۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1077]
اردو حاشہ:
فائده:
تردد کی صورت میں مدت کا تعین نہیں جتنا عرصہ بھی ٹھہریں نمازقصر اداکرسکتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1077   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 345  
´مسافر اور مریض کی نماز کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپسی تک دو، دو رکعتیں ہی ادا فرماتے رہے۔ (بخاری و مسلم) البتہ متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 345»
تخریج:
«أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب ما جاء في التقصير، حديث:1081، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين، حديث:693.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب آدمی اپنے گھر سے سفر کی نیت سے نکل پڑے تو وہ مسافر کی تعریف میں آجاتا ہے۔
حدود شہر‘ یعنی موجودہ اصطلاح میں میونسپلٹی کی حدود سے نکلنے کے بعد‘ خواہ ایک میل کا سفر طے کیا ہو‘ نماز قصر ادا کرنا شروع کر سکتا ہے اور واپسی تک دوگانہ نماز پڑھ سکتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 345   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 546  
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں ۱؎ اور ذی الحلیفہ ۲؎ میں دو رکعتیں پڑھیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 546]
اردو حاشہ:
1؎:
جب حج کے لیے مدینہ سے نکلے تو مسجد نبوی میں چار پڑھی،
جب مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ میقات پر پہنچے تو وہاں دو قصر کر کے پڑھی۔

2؎:
ذوالحلیفہ:
مدینہ سے جنوب میں مکہ کے راستہ میں لگ بھگ دس کیلو میٹر پر واقع ہے،
یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 546   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1201  
´مسافر قصر کب کرے؟`
یحییٰ بن یزید ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ (یہ شک شعبہ کو ہوا ہے) کی مسافت پر نکلتے تو دو رکعت پڑھتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1201]
1201۔ اردو حاشیہ:
تین میل کی مسافت کو فرسخ (فارسی میں فرسنگ) کہتے ہیں۔ اس طرح قصر کے لئے کم از کم مسافت نو میل ہوئی۔ تین میل کی بات چونکہ مشکوک ہے، اس لئے حجت نہیں اور تین فرسخ کی مسافت احتیاط و یقین پر مبنی ہے اس لئے سفر کی مسافت (اپنے شہر کی حد چھوڑ کر) کم از کم نو میل یعنی 22، 23 کلو میٹر ہو گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1201   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1081  
1081. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا، آپ اس سفر کے دوران میں مدینہ واپسی تک نماز دو دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں: میں نے حضرت انس ؓ سے دریافت کیا: آپ لوگ مکہ مکرمہ کچھ عرصہ ٹھہرے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، وہاں ہم نے دس دن قیام کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1081]
حدیث حاشیہ:
(1)
واضح رہے کہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا سفر بیان ہوا ہے کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ ہم چار ذوالحجہ کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے مکہ پہنچے۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1085)
رسول اللہ ﷺ چودہ ذوالحجہ کی صبح مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔
گویا مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات میں آپ نے دس دن قیام فرمایا۔
اس سفر کی تفصیل اس طرح ہے کہ آپ چار ذوالحجہ صبح کے وقت مکہ مکرمہ آئے، پھر آٹھ ذوالحجہ کی نماز ظہر منیٰ میں ادا کی، اس طرح آپ نے مکہ مکرمہ میں تقریباً بیس نمازیں ادا کی ہیں، پہلے دن کی نماز فجر کے متعلق اختلاف ہے کہ آپ نے راستے میں ادا کی یا مکہ میں، البتہ بیس نمازوں کا مکہ مکرمہ میں ادا کرنا یقینی ہے۔
4 ذوالحجہ:
ظہر اور عصر۔
6 ذوالحجہ:
مغرب، عشاء، فجر، ظہر اور عصر۔
7 ذوالحجہ:
مغرب، عشاء، فجر، ظہر اور عصر۔
8 ذوالحجہ:
مغرب، عشاء اور فجر۔
یہ کل بیس نمازیں ہیں جو آپ نے مکہ مکرمہ میں ادا کی ہیں۔
آٹھویں ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ کر منیٰ روانہ ہوئے اور ظہر کی نماز وہاں مسجد خیف میں ادا فرمائی۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث انس اقامت کی نیت سے ٹھہرنے کی دلیل ہے، کیونکہ اس دوران میں آپ کو کوئی اندیشہ نہ تھا بلکہ آپ ان دنوں پختہ نیت سے ٹھہرے ہیں۔
(فتح الباري: 726/2)
مدت اقامت کے متعلق ہمارے نزدیک راجح مسلک یہ ہے کہ جو آدمی آمد اور روانگی کے دونوں دن چھوڑ کر صرف چار روز قیام کا ارادہ رکھتا ہو اسے پوری نماز پڑھنی ہو گی کیونکہ مکہ مکرمہ میں آپ کی مدت اقامت آمد اور روانگی کا دن نکال کر تین دن ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے عمل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے اس مدت سے زیادہ قیام فرمایا ہو اور نماز قصر ادا کی ہو یا اس مدت سے کم قیام کیا ہو اور پوری نماز پڑھی ہو۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں آمد اور روانگی کا دن نکال کر پانچ چھ اور سات ذوالحجہ تک تین دن مکمل قیام فرمایا اور یہ قیام اتفاقی نہیں بلکہ حسب پروگرام تھا۔
اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دوران سفر اگر کسی مقام پر بیس نمازیں ادا کرنے تک قیام رکھنا ہو تو نماز قصر کرنے کا ثبوت خود رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ملتا ہے۔
اس موقف کی تائید رسول اللہ ﷺ کے ایک اور فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے مہاجرین کو مناسک حج ادا کرنے کے بعد تین دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کی اجازت دی تھی۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ حج ادا کرنے کے بعد مہاجر تین دن تک مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3298(1352)
اس فرمان نبوی کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے مکہ مکرمہ چھوڑا تھا، اس لیے فتح ہونے کے باوجود ان کی مسافرانہ حیثیت برقرار رہنی چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق تین دن اور تین راتوں کے قیام سے ایک مسافر انسان مقیم کے حکم میں نہیں آتا بلکہ اس قدر قیام کرنے سے اس کی مسافرانہ حالت برقرار رہتی ہے۔
اس بنا پر محدثین کی اکثریت کا موقف ہے کہ آمد اور روانگی کے دن نکال کر اگر پورے تین دن اور تین راتیں قیام کا پختہ ارادہ ہو تو نماز قصر پڑھی جا سکتی ہے، اس سے زیادہ دن قیام کرنا ہو تو نماز پوری پڑھنی ہو گی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1081   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.