صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تہجد کا بیان
The Book of Salat-Ut-Tahajjud (Night Prayer)
27. بَابُ تَعَاهُدِ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ وَمَنْ سَمَّاهُمَا تَطَوُّعًا:
27. باب: فجر کی سنت کی دو رکعتیں ہمیشہ لازم کر لینا اور ان کے سنت ہونے کی دلیل۔
(27) Chapter. To offer two Rakat (Sunna) before the Fajr prayer and whoever called them Nawafil.
حدیث نمبر: 1169
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا بيان بن عمرو، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا ابن جريج، عن عطاء، عن عبيد بن عمير، عن عائشة رضي الله عنها , قالت:" لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم على شيء من النوافل اشد منه تعاهدا على ركعتي الفجر".(مرفوع) حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ:" لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ".
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاء نے بیان کیا، ان سے عبید بن عمیر نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفل نماز کی فجر کی دو رکعتوں سے زیادہ پابندی نہیں کرتے تھے۔

Narrated `Abdullah bin `Umar Abu: I offered with Allah's Apostle a two rak`at prayer before the Zuhr prayer and two rak`at after the Zuhr prayer, two rak`at after Jumua, Maghrib and `Isha' prayers.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 266



   صحيح البخاري1169عائشة بنت عبد اللهلم يكن النبي على شيء من النوافل أشد منه تعاهدا على ركعتي الفجر
   صحيح مسلم1687عائشة بنت عبد اللهما رأيت رسول الله في شيء من النوافل أسرع منه إلى الركعتين قبل الفجر
   صحيح مسلم1686عائشة بنت عبد اللهلم يكن على شيء من النوافل أشد معاهدة منه على ركعتين قبل الصبح
   سنن أبي داود1254عائشة بنت عبد اللهلم يكن على شيء من النوافل أشد معاهدة منه على الركعتين قبل الصبح
   بلوغ المرام283عائشة بنت عبد الله ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 283  
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے یہ روایت بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام فجر کی دو سنتوں کا رکھتے تھے۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ہے کہ نماز فجر کی دو (رکعتیں) (سنتیں) «دنيا وما فيها» سے بہتر ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 283»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التهجد، باب تعاهد ركعتي الفجر، حديث:1169، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب ركعتي سنة الفجر، حديث:724، وحديث "ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها" أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، حديث:725.»
تشریح:
1. اس میں شک کی ذرہ برابر گنجائش نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنن رواتب میں سے فجر کی دو سنتوں کا جتنا التزام فرمایا اتنا دوسری سنتوں کا اہتمام نہیں کیا حتی کہ سفر و حضر میں بھی انھیں کبھی نہیں چھوڑا۔
ان دو سنتوں کی اتنی تاکید کے پیش نظر احناف نے تو جماعت کھڑی ہو جانے کے باوجود ان کو فرضوں سے پہلے پڑھنا لازمی قرار دے رکھا ہے‘ حالانکہ یہ صراحتاً حدیث کے خلاف ہے کیونکہ فرض جماعت کے ہوتے ہوئے دوسری کوئی نماز پڑھنا درست نہیں‘ چنانچہ آپ کا فرمان ہے: «إِذَا أُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ فَلَا صَلَاۃَ إِلاَّ الْمَکْتُوبَۃَ» جب (نماز کے لیے) اقامت ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔
(صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ باب کراھۃ الشروع في نافلۃ…‘ حدیث:۷۱۰) 2.بیہقی کی وہ روایت کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو کوئی نماز نہیں سوائے فرض نماز کے الا یہ کہ صبح کی سنتیں ہوں‘ بالکل بے اصل اور ضعیف ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (عون المعبود)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 283   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1254  
´فجر کی دو رکعت سنت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور نفل کا اتنا خیال نہیں رکھتے تھے جتنا صبح سے پہلے کی دونوں کی رکعتوں کا رکھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1254]
1254۔ اردو حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتیں سفر میں بھی ترک نہیں فرماتے تھے، اس لیے بعض محدثین مثلاًً حسن بصری رحمہ اللہ انہیں واجب کہتے ہیں، ایسے ہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی۔ اس سے واضح ہوا کہ دوسری سنتوں کے مقابلے میں فجر کی ان دو سنتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1254