مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2976
´حج تمتع کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی عقیق ۱؎ میں فرماتے سنا: ”میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: یہ عمرہ ہے حج میں“ (یہ الفاظ دحیم کے ہیں)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2976]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
آنے والے سے مراد فرشتہ ہے جس نے آ کر بتایا کہ حج کے ساتھ عمرے کی نیت بھی کر لیجیے۔
(2)
حج میں عمرہ داخل ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنا جائز ہے۔
جب کہ اہل عرب اس کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ حج قران میں حج اور عمرے کے لیے ایک ہی احرام ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔
یعنی حج کے اعمال ادا کرنے سے عمرے کے اعمال خود بخود ادا شدہ سمجھے جائیں گے۔
واللہ اعلم۔
(3)
وادی عتیق مدینہ کے قریب چار میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2976