الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
33. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ} :
33. باب: اللہ پاک کا سورۃ البقرہ میں یہ فرمانا کہ حج کے مہینے مقرر ہیں جو کوئی ان میں حج کی ٹھان لے تو شہوت کی باتیں نہ کرے نہ گناہ اور جھگڑے کے قریب جائے کیونکہ حج میں خاص طور پر یہ گناہ اور جھگڑے بہت ہی برے ہیں۔
(33) Chapter. The Statement of Allah:
حدیث نمبر: Q1560-2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
{يسالونك عن الاهلة قل هي مواقيت للناس والحج}{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ}
‏‏‏‏ اے رسول! تجھ سے لوگ چاند کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئیے کہ چاند سے لوگوں کے کاموں کے اور حج کے اوقات معلوم ہوتے ہیں۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حج کے مہینے شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔

حدیث نمبر: Q1560
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابن عمر رضي الله عنهما: اشهر الحج شوال , وذو القعدة , وعشر من ذي الحجة , وقال ابن عباس رضي الله عنهما: من السنة ان لا يحرم بالحج إلا في اشهر الحج , وكره عثمان رضي الله عنه ان يحرم من خراسان او كرمان.وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَشْهُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ , وَذُو الْقَعْدَةِ , وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ , وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: مِنَ السُّنَّةِ أَنْ لَا يُحْرِمَ بِالْحَجِّ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ , وَكَرِهَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يُحْرِمَ مِنْ خُرَاسَانَ أَوْ كَرْمَانَ.
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا سنت یہ ہے کہ حج کا احرام صرف حج کے مہینوں ہی میں باندھیں اور عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی خراسان یا کرمان سے احرام باندھ کر چلے تو یہ مکروہ ہے۔

حدیث نمبر: 1560
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثني ابو بكر الحنفي، حدثنا افلح بن حميد، سمعت القاسم بن محمد، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في اشهر الحج وليالي الحج وحرم الحج، فنزلنا بسرف، قالت: فخرج إلى اصحابه، فقال: من لم يكن منكم معه هدي فاحب ان يجعلها عمرة فليفعل، ومن كان معه الهدي فلا، قالت: فالآخذ بها والتارك لها من اصحابه، قالت: فاما رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجال من اصحابه فكانوا اهل قوة، وكان معهم الهدي فلم يقدروا على العمرة، قالت: فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال: ما يبكيك يا هنتاه؟ , قلت: سمعت قولك لاصحابك فمنعت العمرة، قال: وما شانك، قلت: لا اصلي، قال: فلا يضيرك، إنما انت امراة من بنات آدم كتب الله عليك ما كتب عليهن، فكوني في حجتك فعسى الله ان يرزقكيها، قالت: فخرجنا في حجته حتى قدمنا منى فطهرت، ثم خرجت من منى فافضت بالبيت، قالت: ثم خرجت معه في النفر الآخر حتى نزل المحصب ونزلنا معه، فدعا عبد الرحمن بن ابي بكر، فقال: اخرج باختك من الحرم فلتهل بعمرة، ثم افرغا، ثم ائتيا ها هنا فإني انظركما حتى تاتياني، قالت: فخرجنا حتى إذا فرغت وفرغت من الطواف، ثم جئته بسحر، فقال: هل فرغتم؟، فقلت: نعم، فآذن بالرحيل في اصحابه فارتحل الناس، فمر متوجها إلى المدينة ضير من ضار يضير ضيرا"، ويقال: ضار يضور ضورا وضر يضر ضرا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَفْلَحُ بْنُ حُمَيْدٍ، سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَلَيَالِي الْحَجِّ وَحُرُمِ الْحَجِّ، فَنَزَلْنَا بِسَرِفَ، قَالَتْ: فَخَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: مَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْكُمْ مَعَهُ هَدْيٌ فَأَحَبَّ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ فَلَا، قَالَتْ: فَالْآخِذُ بِهَا وَالتَّارِكُ لَهَا مِنْ أَصْحَابِهِ، قَالَتْ: فَأَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَكَانُوا أَهْلَ قُوَّةٍ، وَكَانَ مَعَهُمُ الْهَدْيُ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى الْعُمْرَةِ، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكِ يَا هَنْتَاهُ؟ , قُلْتُ: سَمِعْتُ قَوْلَكَ لِأَصْحَابِكَ فَمُنِعْتُ الْعُمْرَةَ، قَالَ: وَمَا شَأْنُكِ، قُلْتُ: لَا أُصَلِّي، قَالَ: فَلَا يَضِيرُكِ، إِنَّمَا أَنْتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِ آدَمَ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكِ مَا كَتَبَ عَلَيْهِنَّ، فَكُونِي فِي حَجَّتِكِ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْزُقَكِيهَا، قَالَتْ: فَخَرَجْنَا فِي حَجَّتِهِ حَتَّى قَدِمْنَا مِنًى فَطَهَرْتُ، ثُمَّ خَرَجْتُ مِنْ مِنًى فَأَفَضْتُ بِالْبَيْتِ، قَالَتْ: ثُمَّ خَرَجَتْ مَعَهُ فِي النَّفْرِ الْآخِرِ حَتَّى نَزَلَ الْمُحَصَّبَ وَنَزَلْنَا مَعَهُ، فَدَعَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: اخْرُجْ بِأُخْتِكَ مِنَ الْحَرَمِ فَلْتُهِلَّ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ افْرُغَا، ثُمَّ ائْتِيَا هَا هُنَا فَإِنِّي أَنْظُرُكُمَا حَتَّى تَأْتِيَانِي، قَالَتْ: فَخَرَجْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغْتُ وَفَرَغْتُ مِنَ الطَّوَافِ، ثُمَّ جِئْتُهُ بِسَحَرَ، فَقَالَ: هَلْ فَرَغْتُمْ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَآذَنَ بِالرَّحِيلِ فِي أَصْحَابِهِ فَارْتَحَلَ النَّاسُ، فَمَرَّ مُتَوَجِّهًا إِلَى الْمَدِينَةِ ضَيْرُ مِنْ ضَارَ يَضِيرُ ضَيْرًا"، وَيُقَالُ: ضَارَ يَضُورُ ضَوْرًا وَضَرَّ يَضُرُّ ضَرًّا.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوبکر حنفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے مہینوں میں حج کی راتوں میں اور حج کے دنوں میں نکلے۔ پھر سرف میں جا کر اترے۔ آپ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو اور وہ چاہتا ہو کہ اپنے احرام کو صرف عمرہ کا بنا لے تو اسے ایسا کر لینا چاہئے لیکن جس کے ساتھ قربانی ہے وہ ایسا نہ کرے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے اس فرمان پر عمل کیا اور بعض نے نہیں کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعض اصحاب جو استطاعت و حوصلہ والے تھے (کہ وہ احرام کے ممنوعات سے بچ سکتے تھے۔) ان کے ساتھ ہدی بھی تھی، اس لیے وہ تنہا عمرہ نہیں کر سکتے تھے (پس انہوں نے احرام نہیں کھولا) عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ (اے بھولی بھالی عورت! تو) رو کیوں رہی ہے؟ میں نے عرض کی کہ میں نے آپ کے اپنے صحابہ سے ارشاد کو سن لیا، اب تو میں عمرہ نہ کر سکوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے کہا میں نماز پڑھنے کے قابل نہ رہی (یعنی حائضہ ہو گئی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ آخر تم بھی تو آدم کی بیٹیوں کی طرح ایک عورت ہو اور اللہ نے تمہارے لیے بھی وہ مقدر کیا ہے جو تمام عورتوں کے لیے کیا ہے۔ اس لیے (عمرہ چھوڑ کر) حج کرتی رہ اللہ تعالیٰ تمہیں جلد ہی عمرہ کی توفیق دیدے گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بیان کیا کہ ہم حج کے لیے نکلے۔ جب ہم (عرفات سے) منیٰ پہنچے تو میں پاک ہو گئی۔ پھر منٰی سے جب میں نکلی تو بیت اللہ کا طواف الزیارۃ کیا۔ آپ نے بیان کیا کہ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب واپس ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی محصب میں آن کر اترے۔ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو بلا کر کہا کہ اپنی بہن کو لے کر حرم سے باہر جا اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ پھر عمرہ سے فارغ ہو کر تم لوگ یہیں واپس آ جاؤ، میں تمہارا انتظار کرتا رہوں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق) چلے اور جب میں اور میرے بھائی طواف سے فارغ ہو لیے تو میں سحری کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ فارغ ہو لیں؟ میں نے کہا ہاں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے سفر شروع کر دینے کے لیے کہا۔ سفر شروع ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ واپس ہو رہے تھے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ جو «لايضيرک» ہے وہ «ضار يضير ضيراا» سے مشتق ہے ضار يضور ضورا» بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور جس روایت میں «لايضرک» ہے وہ «ضر يضر ضرا‏» سے نکلا ہے۔

Narrated Al-Qasim bin Muhammad: ' Aisha said, "We set out with Allah's Apostles in the months of Hajj, and (in) the nights of Hajj, and at the time and places of Hajj and in a state of Hajj. We dismounted at Sarif (a village six miles from Mecca). The Prophet then addressed his companions and said, "Anyone who has not got the Hadi and likes to do Umra instead of Hajj may do so (i.e. Hajj-al-Tamattu`) and anyone who has got the Hadi should not finish the Ihram after performing ' `Umra). (i.e. Hajj-al-Qiran). Aisha added, "The companions of the Prophet obeyed the above (order) and some of them (i.e. who did not have Hadi) finished their Ihram after Umra." Allah's Apostle and some of his companions were resourceful and had the Hadi with them, they could not perform Umra (alone) (but had to perform both Hajj and Umra with one Ihram). Aisha added, "Allah's Apostle came to me and saw me weeping and said, "What makes you weep, O Hantah?" I replied, "I have heard your conversation with your companions and I cannot perform the Umra." He asked, "What is wrong with you?' I replied, ' I do not offer the prayers (i.e. I have my menses).' He said, ' It will not harm you for you are one of the daughters of Adam, and Allah has written for you (this state) as He has written it for them. Keep on with your intentions for Hajj and Allah may reward you that." Aisha further added, "Then we proceeded for Hajj till we reached Mina and I became clean from my menses. Then I went out from Mina and performed Tawaf round the Ka`ba." Aisha added, "I went along with the Prophet in his final departure (from Hajj) till he dismounted at Al-Muhassab (a valley outside Mecca), and we too, dismounted with him." He called ' `Abdur-Rahman bin Abu Bakr and said to him, ' Take your sister outside the sanctuary of Mecca and let her assume Ihram for ' `Umra, and when you had finished ' `Umra, return to this place and I will wait for you both till you both return to me.' " ' Aisha added, " So we went out of the sanctuary of Mecca and after finishing from the ' `Umra and the Tawaf we returned to the Prophet at dawn. He said, 'Have you performed the ' `Umra?' We replied in the affirmative. So he announced the departure amongst his companions and the people set out for the journey, and the Prophet: too left for Medina.''
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 631


   صحيح البخاري317عائشة بنت عبد اللهمن أحب أن يهل بعمرة فليهلل لولا أني أهديت لأهللت بعمرة فأهل بعضهم بعمرة وأهل بعضهم بحج وكنت أنا ممن أهل بعمرة فأدركني يوم عرفة وأنا حائض فشكوت إلى النبي فقال دعي عمرتك وانقضي رأسك وامتشطي وأهلي بحج ففعلت حتى إذا كان ليلة الحصبة أر
   صحيح البخاري7229عائشة بنت عبد اللهلو استقبلت من أمري ما استدبرت ما سقت الهدي ولحللت مع الناس حين حلوا
   صحيح البخاري319عائشة بنت عبد اللهمن أحرم بعمرة ولم يهد فليحلل ومن أحرم بعمرة وأهدى فلا يحل حتى يحل بنحر هديه ومن أهل بحج فليتم حجه حضت لم أزل حائضا حتى كان يوم عرفة ولم أهلل إلا بعمرة فأمرني النبي أن أنقض رأسي وأمتشط وأهل بحج وأترك العمرة ففعلت ذلك حتى قضيت حج
   صحيح البخاري4395عائشة بنت عبد اللهمن كان معه هدي فليهلل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا قدمت معه مكة وأنا حائض ولم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة فشكوت إلى رسول الله فقال انقضي رأسك وامتشطي وأهلي بالحج ودعي العمرة ففعلت فلما قضينا الحج أرسلني رسول الله
   صحيح البخاري2952عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن معه هدي إذا طاف بالبيت وسعى بين الصفا والمروة أن يحل دخل علينا يوم النحر بلحم بقر فقلت ما هذا ف
   صحيح البخاري4408عائشة بنت عبد اللهمنا من أهل بعمرة ومنا من أهل بحجة ومنا من أهل بحج وعمرة
   صحيح البخاري1788عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن معه هدي فأحب أن يجعلها عمرة فليفعل من كان معه هدي فلا وكان مع النبي ورجال من أصحابه ذوي قوة الهدي فلم تكن لهم عمرة دخل علي النبي وأنا أبكي فقال ما يبكيك قلت سمعتك تقول لأصحابك ما قلت فمنعت العمرة قال
   صحيح البخاري1556عائشة بنت عبد اللهمن كان معه هدي فليهل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا قدمت مكة وأنا حائض ولم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة فشكوت ذلك إلى النبي فقال انقضي رأسك وامتشطي وأهلي بالحج ودعي العمرة ففعلت فلما قضينا الحج أرسلني النبي صلى الله
   صحيح البخاري1560عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن منكم معه هدي فأحب أن يجعلها عمرة فليفعل من كان معه الهدي فلا قالت فالآخذ بها والتارك لها من أصحابه أما رسول الله ورجال من أصحابه فكانوا أهل قوة وكان معهم الهدي فلم يقدروا على العمرة دخل علي رسول الله وأنا أبكي
   صحيح البخاري1638عائشة بنت عبد اللهمن كان معه هدي فليهل بالحج والعمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما قدمت بمكة وأنا حائض فلما قضينا حجنا أرسلني مع عبد الرحمن إلى التنعيم فاعتمرت فقال هذه مكان عمرتك فطاف الذين أهلوا بالعمرة ثم حلوا ثم طافوا طوافا آخر بعد أن رجعوا من منى وأما
   صحيح البخاري1786عائشة بنت عبد اللهمن أحب أن يهل بعمرة فليهل ومن أحب أن يهل بحجة فليهل لولا أني أهديت لأهللت بعمرة فمنهم من أهل بعمرة ومنهم من أهل بحجة وكنت ممن أهل بعمرة فحضت قبل أن أدخل مكة فأدركني يوم عرفة وأنا حائض فشكوت ذلك إلى رسول الله فقال دعي عمرتك وانقضي رأ
   صحيح البخاري1783عائشة بنت عبد اللهمن أحب منكم أن يهل بالحج فليهل ومن أحب أن يهل بعمرة فليهل بعمرة لولا أني أهديت لأهللت بعمرة قالت فمنا من أهل بعمرة ومنا من أهل بحج وكنت ممن أهل بعمرة فأظلني يوم عرفة وأنا حائض فشكوت إلى النبي فقال ارفضي عمرتك وانقضي رأسك وامتشطي وأهل
   صحيح البخاري1720عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن معه هدي إذا طاف بالبيت ثم يحل دخل علينا يوم النحر بلحم بقر فقلت ما هذا فقيل ذبح النبي عن أزواجه
   صحيح البخاري1709عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن معه هدي إذا طاف وسعى بين الصفا و المروة أن يحل دخل علينا يوم النحر بلحم بقر فقلت ما هذا قال نحر رسول الله عن أزواجه
   صحيح البخاري1562عائشة بنت عبد اللهمنا من أهل بعمرة ومنا من أهل بحجة وعمرة ومنا من أهل بالحج
   صحيح مسلم2925عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن معه هدي إذا طاف بالبيت وبين الصفا والمروة أن يحل دخل علينا يوم النحر بلحم بقر فقلت ما هذا فقيل ذبح رسول الله عن أزواجه
   صحيح مسلم2931عائشة بنت عبد اللهأوما شعرت أني أمرت الناس بأمر فإذا هم يترددون
   صحيح مسلم2910عائشة بنت عبد اللهمن كان معه هدي فليهل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا قدمت مكة وأنا حائض لم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة فشكوت ذلك إلى رسول الله فقال انقضي رأسك وامتشطي وأهلي بالحج ودعي العمرة قالت ففعلت فلما قضينا الحج أرسلني
   صحيح مسلم2911عائشة بنت عبد اللهمن أحرم بعمرة ولم يهد فليحلل ومن أحرم بعمرة وأهدى فلا يحل حتى ينحر هديه ومن أهل بحج فليتم حجه عائشة ا فحضت فلم أزل حائضا حتى كان يوم عرفة ولم أهلل إلا بعمرة فأمرني رسول الله أن أنقض رأسي وأمتشط وأهل بحج وأترك العمرة ق
   صحيح مسلم2912عائشة بنت عبد اللهمن كان معه هدي فليهلل بالحج مع عمرته ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا حضت فلما دخلت ليلة عرفة قلت يا رسول الله إني كنت أهللت بعمرة فكيف أصنع بحجتي قال انقضي رأسك وامتشطي وأمسكي عن العمرة وأهلي بالحج قالت فلما قضيت حجتي أمر عبد الرحمن بن أبي بكر فأردفني
   صحيح مسلم2913عائشة بنت عبد اللهمن أراد منكم أن يهل بحج وعمرة فليفعل ومن أراد أن يهل بحج فليهل ومن أراد أن يهل بعمرة فليهل
   صحيح مسلم2914عائشة بنت عبد اللهمن أراد منكم أن يهل بعمرة فليهل لولا أني أهديت لأهللت بعمرة قالت فكان من القوم من أهل بعمرة ومنهم من أهل بالحج كنت أنا ممن أهل بعمرة فخرجنا حتى قدمنا مكة فأدركني يوم عرفة وأنا حائض لم أحل من عمرتي فشكوت ذلك إلى النبي فقال دعي
   صحيح مسلم2917عائشة بنت عبد اللهأهل رسول الله بالحج من أهل بعمرة فحل أما من أهل بحج جمع الحج والعمرة فلم يحلوا حتى كان يوم النحر
   صحيح مسلم2922عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن معه منكم هدي فأحب أن يجعلها عمرة فليفعل من كان معه هدي فلا فمنهم الآخذ بها والتارك لها ممن لم يكن معه هدي فأما رسول الله فكان معه الهدي ومع رجال من أصحابه لهم قوة فدخل علي رسول الله وأنا أبكي فقال ما يبكيك
   صحيح مسلم2921عائشة بنت عبد اللهأفرد الحج
   جامع الترمذي820عائشة بنت عبد اللهأفرد الحج
   سنن أبي داود1784عائشة بنت عبد اللهلو استقبلت من أمري ما استدبرت لما سقت الهدي ولحللت مع الذين أحلوا من العمرة
   سنن أبي داود1782عائشة بنت عبد اللهمن شاء أن يجعلها عمرة فليجعلها عمرة إلا من كان معه الهدي ذبح رسول الله عن نسائه البقر يوم النحر لما كانت ليلة البطحاء وطهرت عائشة قالت يا رسول الله أترجع صواحبي بحج وعمرة وأرجع أنا بالحج فأمر رسول الله عبد الرحمن
   سنن أبي داود1781عائشة بنت عبد اللهمن كان معه هدي فليهل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا قدمت مكة وأنا حائض ولم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة فشكوت ذلك إلى رسول الله فقال انقضي رأسك وامتشطي وأهلي بالحج ودعي العمرة قالت ففعلت فلما قضينا الحج أرسلني رسو
   سنن أبي داود1779عائشة بنت عبد اللهأهل رسول الله بالحج من أهل بالحج جمع الحج والعمرة فلم يحلوا حتى كان يوم النحر
   سنن أبي داود1778عائشة بنت عبد اللهمن شاء أن يهل بحج فليهل ومن شاء أن يهل بعمرة فليهل بعمرة
   سنن أبي داود1777عائشة بنت عبد اللهأفرد الحج
   سنن أبي داود1783عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن ساق الهدي أن يحل
   سنن النسائى الصغرى2717عائشة بنت عبد اللهأهل رسول الله بالحج
   سنن النسائى الصغرى2806عائشة بنت عبد اللهمن كان معه هدي أن يقيم على إحرامه ومن لم يكن معه هدي أن يحل
   سنن النسائى الصغرى2765عائشة بنت عبد اللهمن كان معه هدي فليهلل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا قدمت مكة وأنا حائض فلم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة فشكوت ذلك إلى رسول الله فقال انقضي رأسك وامتشطي وأهلي بالحج ودعي العمرة ففعلت فلما قضيت الحج أرسلني رسول الله
   سنن النسائى الصغرى2716عائشة بنت عبد اللهأفرد الحج
   سنن النسائى الصغرى2993عائشة بنت عبد اللهمن كان معه هدي فليقم على إحرامه من لم يكن معه هدي فليحلل
   سنن النسائى الصغرى2994عائشة بنت عبد اللهمن أهل بعمرة ولم يهد فليحلل ومن أهل بعمرة فأهدى فلا يحل ومن أهل بحجة فليتم حجه
   سنن النسائى الصغرى2651عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن معه هدي إذا طاف بالبيت أن يحل المواقيت
   سنن النسائى الصغرى2718عائشة بنت عبد اللهمن شاء أن يهل بحج فليهل ومن شاء أن يهل بعمرة فليهل بعمرة
   سنن النسائى الصغرى2719عائشة بنت عبد اللهلا نرى إلا أنه الحج
   سنن ابن ماجه3000عائشة بنت عبد اللهمن أراد منكم أن يهل بعمرة فليهلل لولا أني أهديت لأهللت بعمرة قالت فكان من القوم من أهل بعمرة ومنهم من أهل بحج فكنت أنا ممن أهل بعمرة
   سنن ابن ماجه3075عائشة بنت عبد اللهخرجنا مع رسول الله للحج على أنواع ثلاثة فمنا من أهل بحج وعمرة معا ومنا من أهل بحج مفرد ومنا من أهل بعمرة مفردة من كان أهل بحج وعمرة معا لم يحلل من شيء مما حرم منه حتى يقضي مناسك الحج من أهل بالحج مفردا لم يحلل من شيء مما حرم منه ح
   سنن ابن ماجه2964عائشة بنت عبد اللهأفرد الحج
   سنن ابن ماجه2965عائشة بنت عبد اللهأفرد الحج
   سنن ابن ماجه2981عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن معه هدي أن يحل فحل الناس كلهم إلا من كان معه هدي لما كان يوم النحر دخل علينا بلحم بقر فقيل ذبح رسول الله عن أزواجه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم293عائشة بنت عبد اللهمن كان معه هدي فليهلل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم298عائشة بنت عبد الله ان رسول الله صلى الله عليه وسلم افرد الحج
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم308عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن معه هدي إذا طاف بالبيت وسعى بين الصفا والمروة
   بلوغ المرام592عائشة بنت عبد الله عام حجة الوداع فمنا من اهل بعمرة ومنا من اهل بحج وعمرة ومنا من اهل بحج
   مسندالحميدي206عائشة بنت عبد اللهمن شاء منكم أن يهل بعمرة فليفعل، وأفرد رسول الله صلى الله عليه وسلم الحج ولم يعتمر
   مسندالحميدي207عائشة بنت عبد اللهخرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فمنا من أفرد ومنا من قرن ومنا من اعتمر، فأما من طاف بالبيت وسعى بين الصفا والمروة حل، وأما من أفرد أو قرن فلم يحل حتى رمى الجمرة
   مسندالحميدي209عائشة بنت عبد اللهخرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لخمس بقين من ذي القعدة لا نرى إلا الحج

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 293  
´حج کی تینوں قسموں افراد، قران اور تمتع پر عمل کرنا صحیح ہے`
«. . . عن عائشة انها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجة الوداع فاهللنا بعمرة، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان معه هدي فليهلل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کرنے کے لئے) نکلے۔ ہم نے عمرہ کی لبیک کہی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس قربانی کے جانور ہوں تو وہ عمرے کے ساتھ حج کی لبیک کہے پھر جب تک ان دونوں (حج و عمرہ) سے فارغ نہ ہو جائے احرام نہ کھولے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 293]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1556، ومسلم 1211/111، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ حج کی تینوں قسموں افراد، قران اور تمتع پر عمل کرنا بالکل صحیح ہے۔ ديكهئے: [التمهيد 205/8]
● صحیح مسلم (1252) کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج افراد قیامت تک جاری رہے گا۔ نیز دیکھئے: [السنن الكبري للبيهقي 2/5]
◄ لہٰذا حج افراد کو منسوخ کہنا باطل ہے۔

تنبیہ:
صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کی تینوں اقسام میں سے راجح قول کے مطابق حج تمتع سب سے افضل ہے۔
➋ حج قران اور حج افراد میں صرف ایک طواف (بیت اللہ کے سات پھیروں والا طواف) ہے جبکہ حج تمتع کرنے والے کو قربانی کے ساتھ دو طواف کرنے پڑتے ہیں۔ جتنا عمل مسنون زیادہ ہے اتنا ثواب زیادہ ہے۔
➌ حالت حیض میں طواف اور سعی جائز نہیں ہے۔
➍ اس پر اجماع ہے کہ عمرہ کرنے والا پہلے بیت اللہ کا طواف کرے گا اور پھر صفا و مروہ کی سعی کرے گا۔ دیکھئے: [التمهيد216/8] سوائے اس کے کہ وہ عرفات کی رات مکہ پہنچ جائے تو اس صورت میں پہلے عرفات جائے گا تاکہ حج (کا رکن اعظم) رہ نہ جائے۔
➎ حائضہ عورت جس پر عمرہ واجب ہے۔ تنعیم جا کر عمرہ کر سکتی ہے۔
➏ تنعیم مکہ مکرمہ کا ایک مقام ہے جسے آج کل مسجد عائشہ کہا جاتا ہے۔ بعض الناس یہاں سے نفلی عمرے کرتے رہتے ہیں جن کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ اور آثار سلف صالحین سے نہیں ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 39]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 38   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 298  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا`
«. . . عن عائشة ام المؤمنين: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم افرد الحج . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 298]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1562، ومسلم 118/1211، وابن ماجه 2965، من حديث مالك به]

تفقه
➊ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس صحیح حدیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح مسلم: 1231]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج افراد کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح مسلم 1213]
دوسری طرف سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح بخاري: 4353، 4354 وصحيح مسلم: 1232]
اس طرح کی روایات دیگر صحابہ سے بھی ہیں اور یہ متواتر ہے۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حج افراد کی لبیک کہی اور بعد میں حج قران (عمرے اور حج) کی لبیک کہی۔ ہر صحابی نے اپنے اپنے علم کے مطابق روایت بیان کر دی۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: شرح الزرقانی علی موطأ الامام مالک [ج2 ص251]
➋ حج افراد، حج قران اور حج تمتع یہ تینوں قسمیں حج کی ہیں اور قیامت تک ان میں سے ہر قسم پر عمل جائز ہے۔ بعض علماء کا حج افراد کی حدیث کو شاذ یا منسوخ قرار دینا باطل و مردود ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابن مریم روحاء کی گھاٹی سے حج (افراد) یا عمرہ کرنے (والے حج تمتع) یا دونوں اکٹھے (حج قران) کی لبیک کہتے ہوئے ضرور آئیں گے۔ [صحيح مسلم: 1252، وترقيم دارالسلام: 3030، السنن الكبريٰ للبيهقي 5/2 حاجي كے شب وروز ص82]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ حج افراد، حج قران اور حج تمتع قیامت تک باقی رہیں گے۔
➌ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے حج افراد کیا تو اچھا ہے اور جس نے تمتع کیا تو اس نے قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (دونوں) پر عمل کیا۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 5/21 وسنده صحيح، حاجي كے شب وروز ص83]
سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنھم نے حج افراد کیا۔ [سنن الترمذي: 82٠ وسنده حسن]

تنبیہ:
دوسرے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حج تمتع سب سے افضل ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2952  
´مہینہ کے آخری دنوں میں سفر کرنا`
«. . . أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَمْسِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ، وَلَا نُرَى إِلَّا الْحَجَّ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ، وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَدُخِلَ عَلَيْنَا يَوْمَ النَّحْرِ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا، فَقَالَ: نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ سے (حجۃ الوداع کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم اس وقت نکلے جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ہفتہ کے دن ہمارا مقصد حج کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ جب ہم مکہ سے قریب ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو جب وہ بیت اللہ کے طواف اور صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہو جائے تو احرام کھول دے۔ (پھر حج کے لیے بعد میں احرام باندھے) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ دسویں ذی الحجہ کو ہمارے یہاں گائے کا گوشت آیا، میں نے پوچھا کہ گوشت کیسا ہے؟ تو بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے جو گائے قربانی کی ہے یہ اسی کا گوشت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2952]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2952 کا باب: «بَابُ الْخُرُوجِ آخِرَ الشَّهْرِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں مہینے کے آخری میں سفر کرنے کے متعلق باب قائم فرمایا اور جو حدیث پیش فرمائی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں:
«خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لخمس ليال بقين من ذي القعدة.»
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت نکلے جب ذی القعدہ کے پانچ روز باقی تھے۔
یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت واقع ہو رہی ہے کیونکہ ذی القعدہ کے آخری پانچ روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کا قصد فرمایا۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ ان لوگوں کی تردید فرما رہے ہیں جو کہ مہینے کے آخر میں سفر کرنے کو نحوست خیال کرتے ہیں، اس قسم کے مذموم قائدے زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے ہوا کرتے تھے، امام بخاری رحمہ اللہ ان کا رد فرما رہے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أي ردا على من كره ذالك من طريق الطيرة، وقد نقل ابن بطال أن أهل الجاهلية كانو يتطيرون أوائل الشهور الأعمال، و يكرهون التصرف فى محاق القمر.» [فتح الباري، ج 6، ص: 141]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ ان کا رد فرما رہے ہیں جو مہینے کے آخری ایام میں سفر کو منحوس خیال کرتے ہیں، اور ابن بطال رحمہ اللہ نے نقل فرمایا کہ اہل جاہلیت یہ خیال کرتے کہ اگر مہینے کے آخر میں آدمی سفر کیلئے روانہ ہوتا ہے تو عمر گھٹ جاتی ہے، اور ہمارا کام گھاٹے میں آ جاتا ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الرد على من يزعم من القائلين متأثير الكواكب أن الحركة آخر الشهر فى محاق القمر مذمومة» [المستواري، ص: 161]
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہاں ان لوگوں کا رد مقصود ہے جو مہینے کے آخر میں سفر کرنے کو مذموم قرار دیتے ہیں ستاروں کی حرکت و تاثیر کی وجہ سے۔
(قلت) میں سمجھتا ہوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی بھی تردید فرمائی ہے جس کا ذکر امام حسان الدین الہندی (المتوفی 975) نے بھی اپنی کتاب «كنز العمال» میں ذکر فرمایا ہے۔ «اقترب آخر أربعا و فى الشهر يوم نحس و مستمر.» [كنز العمال، ج 2، ص: 11، رقم: 931]
یعنی مہینے کے آخری چار دن منحوس ہوا کرتے ہیں۔ (جن کا یہ عقیدہ ہے) امام بخاری رحمہ اللہ ان لوگوں کا رد فرما رہے ہیں۔
ایک اشکال کا جواب:
صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر نکلے اس وقت ذیقعدہ کے پانچ دن رہتے تھے۔ پچیسویں تاریخ کو مدینے سے نکلے اور ذی الحجہ کو چوتھی تاریخ کو مکہ پہنچے۔
اب جو یہاں تعارض اور اشکال کی صورت پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر حج کے لئے ہفتہ کے دن نکلے تھے تو ذیقعدہ کے چار دن باقی بچتے تھے، اس لئے کہ ذی الحجہ کی یکم تاریخ جمعرات کے دن تھی اور وہ وقف عرفہ جمعہ کا روز تھا، اور اگر سفر کی ابتداء جمعرات کو ہوتی ہے تو ذیقعدہ کے چھ روز باقی بچے تھے، سفر کی ابتداء کیلئے جمعہ کا دن تو قطعا نہیں بنتا اسی لئے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: «صلى الظهر بالمدينة أربعا» اور ظاہر ہے ظہر کی نماز جمعہ کے دن نہیں پڑھی جاتی تو «لخمس بقين» کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«و أجيب بأن الخروج كان يوم السبت، و انما قالت عائشة: لخمس بقين بناء على العدد، لأن ذوالقعدة كان أوله الأربعا فاتفق أن جاء ناقصا . . .» [فتح الباري، ج 6، ص: 142]
یعنی یوم الخروج ہفتہ کے دن کو بھی سفر کے ایام میں شمار کیا جائے تو بھی معنی ٹھیک ہو سکتے ہیں اگرچہ نکلتے نکلتے دوپہر ہو چکی تھی لیکن تیاری تو پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی، گویا انہوں نے جب تیاری مکمل کر لی تو ہفتہ کی شب کو انہوں نے ایام سفر کو شمار کیا تو یہ پانچ دن ہو گئے۔ بالکل اسی طرح سے تطبیق بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ نے بھی دی ہے۔ دیکھئے: [مناسبات تراجم البخاري، ص: 87-88]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 419   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2964  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2964]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حج کی تین قسمیں ہیں ان میں سے جس طریقے سے بھی حج ادا کیا جائے درست ہے۔

(ا)
حج افراد:
اس میں حج کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے۔
مکہ شریف پہنچ کر جو طواف کرتے ہیں وہ طواف قدوم کہلاتا ہے پھر احرام کھولے بغیر مکہ میں رہتے ہیں۔
یوم الترویہ (8 ذی الحجہ)
کو اسی احرام کے ساتھ منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔
وہاں ظہر سے لیکر اگلے دن (9 ذوالحجہ)
کی فجر تک پانچ نمازیں ادا کرتے ہیں۔
سورج نکلنے کے بعد عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
وہاں ظہر کے وقت ظہر اور عصر کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں پھر سورج غروب ہونے تک ذکر الہی اور دعا ومناجات میں مشغول رہتے ہیں۔
یہ وقوف (عرفات میں ٹھرنا)
حج کا سب سے اہم رکن ہے۔
سورج غروب ہونے پر مزدلفہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں۔
رات مزدلفہ میں گزار کر صبح (دس ذوالحجہ کو)
فجر کی نماز ادا کرکے وہاں ٹھرے رہتے ہیں۔
کافی روشنی ہوجانے پر سورج نکلنے سے پہلے منی کی طرف چلتے ہیں۔
منی پہنچ کر سورج نکلنے کے بعد بڑے جمرے کو سات کنکریاں مارتے ہیں قربانی کرتے ہیں اور سر کے بال اتروا کر احرام کھول دیتے ہیں اور اسی دن سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے طواف کعبہ کرتے اور رات منی میں واپس آ کر گزارتے ہیں۔
گیارہ بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کو منی میں ٹھرتے ہیں۔
ان تین دنوں میں روزانہ زوال کے بعد تینوں جمرات کو سات سات کنکریاں مارتے ہیں۔
اگر کوئی شخص گیارہ اور بارہ تاریخ کو کنکریاں مار کر واپس آنا چاہے تو آ سکتا ہے۔
حج افراد میں قربانی کرنا ضروری نہیں ثواب کا باعث ہے۔

(ب)
حج قران کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھتے ہیں۔
مکہ پہنچ کر طواف اور سعی کرتے ہیں۔
یہ عمرہ بن جاتا ہے لیکن اس کے بعد بال اتروا کر احرام نہیں کھولتے بلکہ احرام میں ہی رہتے ہیں۔
اس طرح آٹھ ذوالحجہ کو منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں اور وہ تمام کام کرتےہیں جو حض افراد میں بیان ہوئے۔
حج قران کرنے والے میقات سے یا وطن سے قربانی کے جانور ساتھ لیکرآتے ہیں۔

(ج)
حج تمتع کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے صرف عمرے کا احرام باندھتے ہیں مکہ شریف پہنچ کر طواف اور سعی کرکے بال چھوٹے کرا کے احرام کھول دیتے ہیں پھر آٹھ ذوالحجہ کو مکہ ہی سے احرام باندھ کر حج کےتمام ارکان ادا کرتےہیں۔
اور دس ذی الحجہ کو قربانی دیتے ہیں۔
جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دس روزے رکھ لے جن میں سے تین روزے ایام حج میں رکھنا ضروری ہیں۔

(2)
مدینہ منورہ سے روانہ ہوتے وقت رسول اللہﷺ کا ارادہ حج مفرد کا تھا۔
بعد میں رسول اللہﷺ نے ارادہ بدل دیا۔
ام المومنین رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا یہی مطلب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2964   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 592  
´احرام کی اقسام اور صفت کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال نکلے۔ ہم میں سے بعض وہ تھے جنہوں نے عمرہ کے لیے تلبیہ کہا اور ہم میں سے کچھ وہ تھے جنہوں نے حج اور عمرہ کے لیے تلبیہ کہا اور ہم میں سے بعض وہ تھے جنہوں حج کے لیے لبیک پکارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کے لیے تلبیہ پکارا۔ پھر جنہوں عمرہ کے لیے لبیک کہا تھا وہ حلال ہو گئے اور جنہوں نے حج کے لیے لبیک کہا تھا یا حج اور عمرہ کو جمع کیا تھا وہ حلال نہ ہوئے یہاں تک کہ قربانی کا دن آیا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 592]
592 لغوی تشریح:
«بَابُ وُجْوهِ الْاِحْرَامِ وَصِفَتِهِ» «الوجوه»، «وجه» کی جمع ہے۔ اور اس سے اقسام احرام مراد ہیں۔ اور وہ تین ہیں، یعنی صرف حج یا محض عمرہ یا دونوں کا احرام باندھنا۔ «صفته» سے مراد محرم کی وہ کیفیت ہے جسے وہ حالت احرام میں اختیار کرتا ہے۔
«خَرَجْنَا» ہم نکلے۔ حج کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں یہ نکلنا ہفتے کے روز نماز ظہر کے بعد تھا جبکہ ذی القعدہ کے پانچ دن ابھی باقی تھے۔
«عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ» حجتہ الوداع، دس ہجری میں ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد اس کے علاوہ اور کوئی حج نہیں کیا۔ اور اسے حجۃ الوداع اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو الوداع کہا تھا۔
«أهَلَّ بِعُمْرَةِ» یعنی صرف عمرے کا احرام باندھا، ایسے شخص کو «متمتع» کہتے ہیں۔
«أهَلَّ بِحَجَّ وَ عُمْرَةِ» حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا۔ ایسے شخص کو «قارن» کہتے ہیں۔ اور جس نے صرف حج کے لیے احرام باندھا ہو اسے «مفرد» کہتے ہیں۔
«اَلْاِهْلَال»، آواز بلند کرنے کو کہتے ہیں اور اس سے مراد احرام باندھنے کے وقت بلند آواز سے تلبیہ کہنا ہے۔
«فَحَلَّ» یعنی وہ حلال ہو گیا۔ اور یہ تب ہوتا ہے جب بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کے مابین سعی کرنے کے بعد سر کے بال منڈوائے جاتے ہیں یا کٹوائے جاتے ہیں اور احرام کھول دیا جاتا ہے۔
«يَوْمُ النَّحْرِ» «نحر»، یعنی قربانی کا دن اور وہ دس ذوالحجہ ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہا حج کا احرام باندھا تھا، یعنی حج مفرد کیا تھا۔ لیکن دوسرے بہت سے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ قارن تھے اور حج و عمرے کا اکٹھا احرام باندھا تھا۔ اور یہی بات صحیح ہے تاہم اقسام حج میں سے کون سی قسم افضل ہے اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ اور جو شخص مفرد ہوتا ہے وہ صرف قربانی کے دن ہی حلال ہوتا ہے، پھر یہ حدیث صحیح بخاری و مسلم کی ان روایات کے بھی مخالف ہے جن میں ہے کہ آپ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے پاس ہدی، یعنی قربانی نہ تھی، انہیں فرمایا تھا کہ تم حج کو عمرہ بنا لو۔ عمرے کو مکمل کر کے حج کا احرام مکہ سے باندھ لو، اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت دراصل صرف ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے جن کے پاس قربانی تھی۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج کی تین قسمیں ہیں، حج قران، حج تمتع، اور حج افراد۔ ان تینوں میں سے افضل کون سا حج ہے؟ اس کی بابت اختلاف ہے، بعض حج قران کو افضل دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہی حج پسند کیا۔ اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس پر نفیس بحث کی ہے۔ بعض حج تمتع کو افضل کہتے ہیں کہ اس میں سہولت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرحلے پر اس کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ اور بعض حضرات حج افراد کو افضل قرار دیتے ہیں مگر دلائل کے اعتبار سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حج تمتع ہی افضل ہے۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 592   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 820  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد ۱؎ کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 820]
اردو حاشہ:
" 1؎ حج کی تین قسمیں ہیں:
افراد،
قِران اورتمتع،
حج افرادیہ ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھے،
اور حج قِران یہ ہے کہ حج اورعمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے،
اورقربانی کا جانورساتھ،
جب کہ حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھرمکہ میں جاکرعمرہ کی ادائیگی کے بعداحرام کھول دے اورپھرآٹھویں تاریخ کومکہ مکرمہ ہی سے نئے سرے سے احرام باندھے۔
اب رہی یہ بات کہ آپ ﷺ نے کون سا حج کیا تھا؟توصحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قِران کیاتھا،
تفصیل کے لیے حدیث رقم 822 کا حاشہ دیکھیں۔
نوٹ:

(نبی اکرمﷺ کا حج،
حج قران تھا،
اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے)

"
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 820   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1777  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1777]
1777. اردو حاشیہ:
➊ حج کے لیے احرم اورنیت کے تین انداز مشروع ہیں:ایک یہ کہ انسان احرام باندھتے ہوئے صرف اور صرف حج کی نیت کرے۔ اس بصورت میں انسان اعمال حج مکمل ہونے تک احرام ہی میں رہتا ہے۔اسے حج افراد (ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں یعنی مفرد حج۔دوسری صورت یہ ہے کہ حج اور عمرہ کی اکٹھی نیت ہو۔ اس صورت میں حاجی پہلے عمر ہ کرتاہے اس کے بعد احرام کی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ حج کے اعمال پورے کر لے۔ اس کو حج قران (قاف کی کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں یعنی حج اور عمرے کو ملا کر ادا کیا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ حاجی پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھے۔مکہ پہنچ کر عمرہ کےاعمال مکمل کرکے حلال ہوجائے اور پھر 8ذوالحجہ کو دوبارہ حج کے لیے احرام باندھے اور حج کے اعمال پورے کرے۔ اس نوعیت کو حج تمتع کہتے ہیں یعنی ایک ہی سفر میں حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ بھی حاصل کر لیا۔سب سے افضل حج تمتع ہی ہے۔اگر قربانی ساتھ لے کر جائے تو قران ہو گا۔ او رحج افراد بھی ہر طرح سے جائز ہے۔(قربانی سمیت یا قربانی کے بغیر)رسول اللہﷺ کا حج قران تھا جبکہ صحابہ میں افراج والے بھی تھے اور تمتع والے بھی۔
➋ اس معنی کی احادیث میں نبی ﷺ کے ابتدائے عمل کا بیان ہے۔ قران کی نیت آپ نے بعد میں فرمائی تھی۔کچھ محدثین اس طرح کہتے ہیں کہ آپ شروع ہی سے قارن تھے۔مگر چونکہ «قارن» ‏‏‏‏ کو اجازت ہوتی ہے کہ کسی وقت «لبیک بحجة» کسی وقت «لبیک تعمرۃ» ‏‏‏‏ اور کسی وقت «لبیک بحجة و عمرة» ‏‏‏‏ کہے اس لیے صحابہ کرام نے نبیﷺ کی زبان سے جو سنا بیان کیا۔ اس میں تعارض والی کوئی بات نہیں۔(مرعاۃ المفاتیح –شرح حدیث:2569]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1777   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1560  
1560. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کے مہینوں، حج کی راتوں اور حج کے احرام میں روانہ ہوئے، پھر ہم نے مقام سرف میں پڑاؤ کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر آپ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تم میں سے جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو اور اس احرام سے عمرہ کرنا چاہتا ہوتو ایسا کرسکتا ہے مگر جس کے پاس قربانی کاجانور ہو وہ ایسا نہ کرے۔ حضرت عائشہ نے فرمایاکہ آپ کے اصحاب میں سے بعض نے اس حکم سے فائدہ اٹھایا اور کچھ اس سے قاصر رہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین صاحب حیثیت تھے اور ان کے پاس قربانی کے جانورتھے وہ عمرہ نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب میرے پاس تشریف لائے تو میں رورہی تھی۔ آپ نے فرمایا: اے بھولی بھالی!کیوں روررہی ہو؟ میں نے عرض کیا: حضور!میں نے آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1560]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس طویل حدیث سے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں میں باندھنا چاہیے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کے مہینوں، حج کی راتوں اور حج کے احرام میں روانہ ہوئے۔
اس اسلوب بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں حج کے مہینوں میں حج کا احرام باندھنا معروف تھا۔
حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھنا صحیح نہیں۔
حضرت ابن عمر، ابن عباس، جابر بن عبداللہ ؓ اور دیگر صحابہ کرام و تابعین عظام کا یہی موقف ہے کہ حج کے مہینوں میں حج کا احرام باندھنا حج کے لیے شرط ہے۔
(فتح الباري: 534/3) (2)
حضرت عائشہ ؓ نے حیض کا عارضہ ذکر کرنے کے بجائے ادب کے طور پر یہ فرمایا:
میں نماز کے قابل نہیں رہی۔
یہ اشارہ اس قدر مقبول ہوا کہ اب بھی عورتیں حیض کے موقع پر یہی الفاظ استعمال کرتی ہیں۔
(3)
بخاری کے بعض نسخوں میں يَضُرك کے بجائے يَضِيرك ہے۔
امام بخاری ؒ نے يضيرك کے متعلق فرمایا:
یہ باب یائی اور وادی دونوں طرح ہو سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1560   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.