الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
26. بَابُ الاِسْتِجْمَارِ وِتْرًا:
26. باب: طاق عدد (ڈھیلوں) سے استنجاء کرنا چاہیے۔
(26) Chapter. To clean the private parts with odd number of stones.
حدیث نمبر: 162
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا توضا احدكم فليجعل في انفه ثم لينثر، ومن استجمر فليوتر، وإذا استيقظ احدكم من نومه فليغسل يده قبل ان يدخلها في وضوئه، فإن احدكم لا يدري اين باتت يده".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْعَلْ فِي أَنْفِهِ ثُمَّ لِيَنْثُرْ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ، وَإِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهَا فِي وَضُوئِهِ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے ابوالزناد کے واسطے سے خبر دی، وہ اعرج سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی دے پھر (اسے) صاف کرے اور جو شخص پتھروں سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ بے جوڑ عدد (یعنی ایک یا تین) سے استنجاء کرے اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے، تو وضو کے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے۔ کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا ہے۔


Hum se Abdullah bin Yousuf ne bayan kiya, kaha hum ko Malik ne Abuz Zinaad ke waaste se khabar di, woh A’raj se, woh Abu Hurairah Radhiallahu Anhu se naql karte hain ke Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke jab tum mein se koi Wuzu kare to use chaahiye ke apni naak mein paani de phir (use) saaf kare aur jo shakhs paththaron se istinja kare use chaahiye ke be-jod adad (yani ek ya teen) se istinja kare aur jab tum mein se koi so kar uthe, to Wuzu ke paani mein haath daalne se pehle use dho le. Kiunki tum mein se koi nahi jaanta ke raat ko us ka haath kahan raha hai.

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "If anyone of you performs ablution he should put water in his nose and then blow it out and whoever cleans his private parts with stones should do so with odd numbers. And whoever wakes up from his sleep should wash his hands before putting them in the water for ablution, because nobody knows where his hands were during sleep."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 163


   سنن النسائى الصغرى88عبد الرحمن بن صخرمن توضأ فليستنثر من استجمر فليوتر
   صحيح البخاري161عبد الرحمن بن صخرمن توضأ فليستنثر من استجمر فليوتر
   صحيح البخاري162عبد الرحمن بن صخرإذا توضأ أحدكم فليجعل في أنفه ثم لينثر من استجمر فليوتر إذا استيقظ أحدكم من نومه فليغسل يده قبل أن يدخلها في وضوئه فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده
   صحيح مسلم560عبد الرحمن بن صخرإذا استجمر أحدكم فليستجمر وترا إذا توضأ أحدكم فليجعل في أنفه ماء ثم لينتثر
   سنن ابن ماجه409عبد الرحمن بن صخرمن توضأ فليستنثر من استجمر فليوتر
   المعجم الصغير للطبراني95عبد الرحمن بن صخرمن توضأ فليستنثر من استجمر فليوتر
   صحيفة همام بن منبه53عبد الرحمن بن صخرإذا استجمر أحدكم فليوتر
   بلوغ المرام35عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏إذا استيقظ احدكم من نومه فلا يغمس يده في الإناء حتى يغسلها ثلاثا،‏‏‏‏ فإنه لا يدري اين باتت يده
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم42عبد الرحمن بن صخرمن توضا فليستنثر، ومن استجمر فليوتر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم35عبد الرحمن بن صخرإذا استيقظ احدكم من نومه، فليغسل يده قبل ان يدخلها فى وضوئه، فإن احدكم لا يدري اين باتت يده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 35  
´نیند سے بیدار ہونے پر اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالنے کا حکم`
«. . . ‏‏‏‏إذا استيقظ احدكم من نومه فلا يغمس يده في الإناء حتى يغسلها ثلاثا،‏‏‏‏ فإنه لا يدري اين باتت يده . . .»
. . . تم میں سے جب کوئی نیند سے بیدار ہو تو تین مرتبہ دھونے سے پہلے اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالے۔ کیونکہ اسے یہ معلوم نہیں کہ رات بھر ہاتھ کہاں کہاں گردش کرتا رہا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 35]

لغوی تشریح:
«فَلَا يَغْمِسُ» میم کے کسرہ کے ساتھ ہے اور اس کے معنی ہیں: داخل نہ کرے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم استحباب پر مبنی ہے مگر امام احمد رحمہ اللہ اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ جمہور کی رائے ہی اقرب الی الصواب ہے۔ البتہ جب اسے یقین حاصل ہو جائے کہ اس کا ہاتھ نجاست و گندگی سے آلودہ ہوا ہے تو ہاتھ دھونا ضروری ہے۔ نیز یہ مقدمات وضو میں سے بھی ہے۔

فائدہ:
حدیث میں مذکور لفظ «فِي الْإِنَاءِ» اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص شب و روز میں جس وقت نیند سے اٹھے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ کسی برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے تین مرتبہ دھو لے۔ یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے البتہ نہر اور بڑا حوض و تالاب اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں یہی رائے بیان کی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 35   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 42  
´ڈھیلوں سے استنجا کرے تو طاق (تین عدد) استعال کرے`
«. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من توضا فليستنثر، ومن استجمر فليوتري . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص وضو کرے تو ناک چھنک کر صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے تو طاق عدد یعنی تین پانچ ڈھیلے استعمال کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 42]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 237، من حديث ما لك به ورواه البخاري 161، من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے پھر ناک چھنک کر صاف کرے اور جو شخص ڈھیلوں سے استنجا کرے تو طاق (تین عدد) استعال کرے۔ دیکھئے: [الموطا حديث: 320، و سنده صحيح ورواه البخاري: 162]
➋ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ وضو میں چہرہ دھونا، دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھونا، سر کا مسح کرنا اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھونا فرض ہے صرف پاؤں کے دھونے کے بارے میں شیعہ نے اختلاف کیا ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 31/4]
➌ وضو کے وقت ناک میں پانی ڈالنے کو استنشاق اور ناک سے اس پانی کے باہر نکالنے کو استنثار کہتے ہیں۔ [التمهيد 33/4]
➍ بعض علماء کہتے ہیں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ فرض ہے۔
● یہ کہنا کہ یہ عمل وضو میں سنت ہے اور غسل میں فرض ہے، بالکل بلا دلیل ہے۔
➎ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہےکہ آپ نے کبھی کلی یا ناک میں پانی ڈالے بغیر وضو کیا ہو۔
➏ بہتر یہی ہے کہ ایک چلو ہی سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے جیسا کہ صحيح بخاري [191]، صحيح مسلم [235] دارالسلام: [555] سے ثابت ہے اور اگر کوئی شخص علیحدہ چلو سے کلی کرے اور علیحدہ چلو سے ناک میں پانی ڈالے تو یہ بھی صحیح ہے جیسا کہ محدث ابن ابی خثیمہ کی التاريخ الكبير [ص 588 ح 1410] والی حسن لذاته مرفوع روایت سے ثابت ہے۔
➐ کلی دائیں ہاتھ سے کرنی چاہئے۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد: 112، وسنده صحيح]
➑ ناک بائیں ہاتھ سے صاف کرنی چاہئے۔ [سنن النسائي 67/1 ح 91 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 75   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 35  
´نیند سے بیداری پر ہاتھ دھونا`
«. . . 319- مالك عن أبى الزناد عن الأعرج عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا استيقظ أحدكم من نومه، فليغسل يده قبل أن يدخلها فى وضوئه، فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده . . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی نیند سے بیدار ہو تو وضو کے پانی میں اپنا ہاتھ داخل کرنے سے پہلے اسے دھوئے کیونکہ اسے پتا نہیں کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے؟ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 35]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 162، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ تھوڑا پانی (جو دو قُلّوں سے کم ہو) نجاست گرنے سے ناپاک ہو جاتا ہے۔
➋ وضو سے پہلے علیحدہ پانی لے کر دونوں ہاتھ دھونا بہتر ہے۔
➌ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیٹھ کر سو جاتے تو دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے اور اسی وضو سے نماز پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [الموطأ 22/1 ح 39]
وسندہ صحیح لیکن بہتر یہی ہے کہ بیٹھ کر سوئے یا لیٹ کر، دونوں حالتوں میں دوبارہ وضو کرنا چاہئے۔
● سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ مرفوع حدیث: «وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ» سے ثابت ہوتا ہے کہ مطلقاً نوم (نیند) سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس حدیث کے لئے دیکھئے: [سنن الترمذي 3536 وقال: هذا حديث حسن صحيح وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 319   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 161  
´پتھروں کے ساتھ استنجاء`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ تَوَضَّأَ فَلْيَسْتَنْثِرْ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص وضو کرے اسے چاہیے کہ ناک صاف کرے اور جو پتھر سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد (یعنی ایک یا تین یا پانچ ہی) سے کرے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الاِسْتِنْثَارِ فِي الْوُضُوءِ: 161]

تخريج الحديث:
[137۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 25 باب الاستنثار فى الوضوء 161، مسلم 237، أبوداود 140]
لغوی توضیح:
«اسْتَجْمَرَ» پتھروں کے ساتھ استنجاء کرے۔
«فَلْيُوْتِرْ» طاق عدد (یعنی تین یا پانچ وغیرہ) میں کرے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 137   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 88  
´ناک جھاڑنے کا حکم۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو وضو کرے تو اسے چاہیئے کہ ناک جھاڑے، اور جو استنجاء میں پتھر استعمال کرے تو اسے چاہیئے کہ طاق استعمال کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 88]
88۔ اردو حاشیہ:
➊ ناک کی صفائی تبھی ممکن ہے جب پانی ناک میں چڑھانے کے بعد سانس اور ہاتھ کی مدد سے ناک کو جھاڑا جائے تاکہ پانی کے ساتھ ساتھ ناک کی غلاظت بھی باہر آ جائے۔ سونے کے دوران میں تو لازماً ناک کے اوپر والے حصے می غلاظت جمع ہو جاتی ہے، اس لیے ناک جھاڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
➋ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق رحمہ اللہ نے استنثار کو واجب قرار دیا ہے۔ ظاہر الفاظ ان کی تائید کرتے ہیں، نیز ترجمۃ الباب سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:162  
162. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے اور اسے صاف کرے۔ اور جو شخص ڈھیلے سے استنجا کرے تو طاق ڈھیلوں سے کرے۔ اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو وضو کے پانی میں اپنے ہاتھ ڈالنے سے پہلے انہیں دھو لے کیونکہ تم میں سے کسی کو خبر نہیں کہ رات کے وقت اس کا ہاتھ کہاں کہاں پھرتا رہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:162]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصود یہ ہے کہ جب استنجا کے لیے ڈھیلوں کا استعمال کیا جائے تو طاق عدد اختیار کرنا چاہیے نیز وہ بتانا چاہتےہیں کہ استجمار کے معنی استنجا میں ڈھیلوں کا استعمال ہی ہے۔
اس کا مطلب رمی جمار یا کفن کو دھونی دینا نہیں جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے۔
(فتح الباري: 344/1)
۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے استنجا کے مسائل سے فراغت کے بعد وضو کے احکام شروع فرمائے تھے۔
اب انھوں نے دوبارہ استنجاء کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جب کسی حدیث میں کوئی نئی چیز دیکھتے ہیں تو اس پر ایک عنوان قائم کردیتے ہیں اسے باب درباب کہا جاتا ہے چونکہ باب سابق جو وضو سے متعلق ہے اس کے تحت جو حدیث ذکر کی تھی اس میں یہ الفاظ تھے۔
جو ڈھیلے سے استنجا کرے وہ طاق ڈھیلے لے۔
بس انہی الفاظ کی مناسبت سے یہ عنوان قائم کردیا اگرچہ وضو سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے نیز اس طرف بھی اشارہ ہے کہ استنجا اور استنشار میں گندگی کی صفائی قدر مشترک ہے اس لحاظ سے طاق تعداد بھی مشترک ہونی چاہیے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عرب میں قضائے حاجت کے بعد مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنے کا رواج تھا پھر رات سخت گرمی میں پسینہ آنے کے بعد محل نجاست پر بحالت نیند ہاتھ لگنے کا اندیشہ رہتا یا اس کے علاوہ جسم کے کسی ایسے مقام پر لگنے کا بھی احتمال ہے جو انسان کے لیے ناگواری کا باعث ہو۔
اس لیے نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہاتھ برتن میں ڈالنے سے پہلے دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ہاتھوں کو دھونے کا حکم کیوں ہے؟ جبکہ سوئے ہوئے آدمی کے زیر استعمال کپڑے کے ملوث ہونے کے زیادہ خدشات ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ کپڑوں کو پانی میں ڈالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور پھر اگر کپڑا آلودہ ہو جائے تو اس کا نقصان صرف کپڑا پہننے والے تک محدود ہوتا ہے جبکہ ہاتھ پلید ہونے کی صورت میں پانی کے خراب ہونے کا خدشہ ہے جس سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں گے۔
اس لیے ہاتھوں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔
(فتح الباري: 347/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 162   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.