الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
The Book of Penalty For Hunting
10. بَابُ لاَ يَحِلُّ الْقِتَالُ بِمَكَّةَ:
10. باب: مکہ میں لڑنا جائز نہیں ہے۔
(10) Chapter. Fighting is prohibited in Makkah.
حدیث نمبر: Q1834
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابو شريح رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم: لا يسفك بها دما.وَقَالَ أَبُو شُرَيْحٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَسْفِكُ بِهَا دَمًا.
‏‏‏‏ اور ابوشریح رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ وہاں خون نہ بہایا جائے۔

حدیث نمبر: 1834
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم يوم افتتح مكة:" لا هجرة، ولكن جهاد ونية، وإذا استنفرتم فانفروا، فإن هذا بلد حرم الله يوم خلق السموات والارض، وهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، وإنه لم يحل القتال فيه لاحد قبلي، ولم يحل لي إلا ساعة من نهار، فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، لا يعضد شوكه، ولا ينفر صيده، ولا يلتقط لقطته إلا من عرفها ولا يختلى خلاها"، قال العباس: يا رسول الله، إلا الإذخر فإنه لقينهم ولبيوتهم، قال: قال: إلا الإذخر.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ افْتَتَحَ مَكَّةَ:" لَا هِجْرَةَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، فَإِنَّ هَذَا بَلَدٌ حَرَّمَ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، وَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ، وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا"، قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، قَالَ: قَالَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے مجاہد نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب ہجرت فرض نہیں رہی لیکن (اچھی) نیت اور جہاد اب بھی باقی ہے اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو تیار ہو جانا۔ اس شہر (مکہ) کو اللہ تعالیٰ نے اسی دن حرمت عطا کی تھی جس دن اس نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اس لیے یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حرمت کی وجہ سے محترم ہے یہاں کسی کے لیے بھی مجھ سے پہلے لڑائی جائز نہیں تھی اور مجھے بھی صرف ایک دن گھڑی بھر کے لیے (فتح مکہ کے دن اجازت ملی تھی) اب ہمیشہ یہ شہر اللہ کی قائم کی ہوئی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے پس اس کا کانٹا کاٹا جائے نہ اس کے شکار ہانکے جائیں اور اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! اذخر (ایک گھاس) کی اجازت تو دیجئیے کیونکہ یہاں یہ کاری گروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے تو آپ ے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔

Narrated Ibn `Abbas: On the day of the conquest of Mecca, the Prophet said, "There is no more emigration (from Mecca) but Jihad and intentions, and whenever you are called for Jihad, you should go immediately. No doubt, Allah has made this place (Mecca) a sanctuary since the creation of the heavens and the earth and will remain a sanctuary till the Day of Resurrection as Allah has ordained its sanctity. Fighting was not permissible in it for anyone before me, and even for me it was allowed only for a portion of a day. So, it is a sanctuary with Allah's sanctity till the Day of Resurrection. Its thorns should not be uprooted and its game should not be chased; and its luqata (fallen things) should not be picked up except by one who would announce that publicly, and its vegetation (grass etc.) should not be cut." Al-`Abbas said, "O Allah's Apostle! Except Al-Idhkhir, (for it is used by their blacksmiths and for their domestic purposes)." So, the Prophet said, "Except Al-Idhkhir."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 29, Number 60


   صحيح البخاري2783عبد الله بن عباسلا هجرة بعد الفتح
   صحيح البخاري3189عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا هذا البلد حرمه الله يوم خلق السموات والأرض فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة لم يحل القتال فيه لأحد قبلي لم يحل لي إلا ساعة من نهار هو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة
   صحيح البخاري2825عبد الله بن عباسلا هجرة بعد الفتح لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   صحيح البخاري3077عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح البخاري1834عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح مسلم4829عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح مسلم3302عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   جامع الترمذي1590عبد الله بن عباسلا هجرة بعد الفتح لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   سنن أبي داود2480عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   سنن النسائى الصغرى4175عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   سنن ابن ماجه2773عبد الله بن عباسإذا استنفرتم فانفروا
   بلوغ المرام1085عبد الله بن عباس لا هجرة بعد الفتح ولكن جهاد ونية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3189  
´دغا بازی کرنے والے پر گناہ خواہ وہ کسی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا بےعمل کے ساتھ`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، وَقَالَ: يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهُ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، قَالَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا، اب (مکہ سے) ہجرت فرض نہیں رہی۔ البتہ جہاد کی نیت اور جہاد کا حکم باقی ہے۔ اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے نکالا جائے تو فوراً نکل جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن یہ بھی فرمایا تھا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اسی دن اس شہر (مکہ) کو حرم قرار دے دیا۔ پس یہ شہر اللہ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہی رہے گا، اور مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے لڑنا جائز نہیں ہوا۔ اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لیے جائز کیا گیا۔ پس اب یہ مبارک شہر اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس کی حدود میں نہ (کسی درخت کا) کانٹا توڑا جائے، نہ یہاں کے شکار کو ستایا جائے، اور کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے سوا اس شخص کے جو (مالک تک چیز کو پہنچانے کے لیے) اعلان کرے اور نہ یہاں کی ہری گھاس کاٹی جائے۔ اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ! اذخر کی اجازت دے دیجئیے۔ کیونکہ یہ یہاں کے سناروں اور گھروں کی چھتوں پر ڈالنے کے کام آتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اذخر کی اجازت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ: 3189]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3189 باب: «بَابُ إِثْمِ الْغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح فرمایا کہ دغا بازی (دھوکہ دہی) کرنا سخت گناہ ہے چاہے کوئی دغا بازی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا گنہگار کے، مگر دغا باز ہر حال میں دغا بازی کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ ترجمۃ الباب کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل فرمائی ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مکہ ایک حرمت والا شہر ہے اور وہاں کسی قسم کی لڑائی کرنا اللہ کے نزدیک حرام ہے، لیکن جب سیاق کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو مکہ والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عہد کیا تھا اسے توڑ ڈالا، لہذا مکہ والوں نے دغا کیا، بنو خزاعہ کے مقابلے میں انہوں نے بنو بکر والوں کی مدد کی تو اللہ تعالی نے اس جرم کی پاداش میں انہیں سخت ترین سزا دی کہ حرمت والے شہر مکہ میں بھی انہیں مار ڈالنے کی اجازت عطا کی، لہذا یہاں سے ان کا دغا باز ہونا ثابت ہوا اور انہیں سخت ترین سزا دی گئی کہ حرمت والے شہر میں لڑنے کی اجازت ایمان والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا کی گئی کیوں کہ وہ دغا باز تھے اور دغا بازی کبیرہ گناہ ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے، اسی مناسبت کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:
«و يحتمل أن يكون أشار بذالك إلى ما وقع من سبب الفتح الذى ذكر فى الحديث و هو غدر قريش بخزاعة حلفاء النبى صلى الله عليه وسلم لما تحاربوا مع بني بكر حلفاء قريش، فأمرت قريش بني بكر و أعانوهم على خزاعة و بيوتهم فقتلوا منهم جماعة.» [فتح الباري، ج 6، ص: 350]
ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجه مطابقة الترجمة لحديث مكة، أن النبى صلى الله عليه وسلم نص على أنها اختصت بالحرمة إلا فى الساعة المستثناه و ليس المراد حرمة قتل المؤمن البر فيها.» [المتواري، ص: 200]
ترجمۃ الباب سے مطابقت کی وجہ حدیث مکہ میں یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص فرمایا: مکہ کی حرمت کو سوائے اس استثنائی گھٹری میں (مکہ میں لڑنا جائز نہیں ہوا جس کا ذکر سابقہ اوراق میں کیا گیا) اور اس کی حرمت سے مراد یہ نہیں کہ مؤمن نیک آدمی کو اس میں قتل کیا جائے۔
فائدہ:
بعض منکرین حدیث مذکورہ بالا حدیث پر اشکال وارد کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: «لا هجرة و لكن جهاد و نية» یعنی ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن مجید قیامت تک ہجرت کو برقرار رکھتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
« ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ﴾ » [الانفال: 75]
اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہیں۔
مندرجہ بالا آیت کو نقل کرنے کے بعد ان کا دعوی یہ ہے کہ حدیث جس میں ہجرت کے عمل کو ختم کر دیا گیا ہے وہ آیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہو گی۔
دراصل یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو کہ سرسری طور پر قرآن اور احادیث کا مطالعہ کے بعد پیدا ہوتی ہے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہرگز یہ حکم نہیں ہے کہ ہجرت کا حکم منسوخ ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر غور کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے، یعنی ان صحابہ کے لئے فتح مکہ کے بعد ہجرت کی فرضیت کو ساقط کیا تھا نہ کہ ہجرت کے حکم کو ساقط فرمایا گیا۔ اصول حدیث کا معروف قاعدہ ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی شرح کرتی ہے، بعض روایات کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اسی مسئلے پر اختلاف پیدا ہوا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی، خبادہ بن ابی امیہ فرماتے ہیں:
«أن رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بعضهم أن الهجرة قد انقطعت فاختلفوا فى ذالك، قال: فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم! أن أناسا يقولون، أن الهجرة قد انقطعت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الهجرة لا تنقطع ما كان الجهاد.» [مسند احمد، ج 27، ص: 142، صححه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى الإصابة]
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بعضوں نے یہ کہا کہ ہجرت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اس مسئلے میں (صحابہ میں) اختلاف ہوا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگ کہتے ہیں کہ ہجرت (کا حکم) منقطع ہو گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقینا ہجرت (کا حکم) منقطع نہ ہو گا جب تک جہاد جاری رہے گا۔
امام الطحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار میں حدیث کا ذکر فرمایا کہ:
«لا تنقطع الهجرة ما قوتل الكفار.» [شرح مشكل الآثار للطحاوي، ج 7، رقم: 2631]
جب تک کفار سے قتال ہو گا تب تک ہجرت رہے گی۔
ان احادیث سے واضح ہوا کہ جب تک جہاد قائم رہے گا تب تک ہجرت کا حکم بھی باقی رہے گا، لہذا ہجرت نہیں ہے فتح مکہ کے بعد اس کا مطلب یہ ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتح مکہ کے روز ہجرت کی ان کے لئے ہجرت کی فرضیت ساقط ہو گئی، نہ کہ قیامت تک ہجرت کا حکم منقطع ہوا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 469   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2773  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً نکل کھڑے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2773]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب کافروں سے جہاد کا موقع آئےتو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاد میں عملی طور پر شریک ہونا چاہیے۔

(2)
ایک باقاعدہ اسلامی حکومت میں امیر کے حکم سے جہاد کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر ایسی صورت حال نہ ہو اور کسی علاقے کے مسلمان کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہوں تو مسلمانوں کو خود منظم طور پر جہاد کرنا چاہیے۔
اس صورت میں امیر جہاد جس محاذ پر بھیجے جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2773   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1590  
´ہجرت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے، اور جب تم کو جہاد کے لیے طلب کیا جائے تو نکل پڑو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1590]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ سے خاص طور پر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہے کیوں کہ مکہ اب دار السلام بن گیا ہے،
البتہ دار الکفر سے دار السلام کی طرف ہجرت تا قیامت باقی رہے گی جیسا کہ بعض احادیث سے ثابت ہے اور مکہ سے ہجرت کے انقطاع کے سبب جس خیر و بھلائی سے لوگ محروم ہو گئے اس کا حصول جہاد اور صالح نیت کے ذریعہ ممکن ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1590   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2480  
´کیا ہجرت ختم ہو گئی؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح (مکہ) کے دن فرمایا: اب (مکہ فتح ہو جانے کے بعد مکہ سے) ہجرت نہیں (کیونکہ مکہ خود دارالاسلام ہو گیا) لیکن جہاد اور (ہجرت کی) نیت باقی ہے، جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2480]
فوائد ومسائل:
چونکہ فتح مکہ سے پہلے جہاں آدمی رہ رہا تھا۔
اسلام لانے کے بعد اسے وہاں سے مدینہ کو ہجرت کرنا واجب تھا۔
اور مکہ ان تمام جگہوں کا مرکز تھا۔
فتح مکہ کے بعد وہ دارالاسلام بن گیا۔
تو اس سے ہجرت کا کوئی معنی باقی نہ رہا۔
مگر باقی دنیا میں جہاں کہیں احوال دگرگوں ہو ں تو اپنے اسلام اور ایمان کی حفاظت کےلئے نقل مکانی مطلوب وماجور ہے۔
اور ایسے ہی جہاد بھی قیامت تک جاری ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2480   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1834  
1834. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فتح مکہ کے روز فرمایا: اب ہجرت باقی نہیں رہی، البتہ جہاد قائم اور خلوص نیت باقی رہے گا اور جب تمھیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ بے شک یہ (مکہ) ایک ایسا شہر ہے کہ جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اسے قابل احترام ٹھہرایاہے اور وہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کے حرام کرنے سے قابل احترام ہے۔ اس میں جنگ کرنا مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہ ہوا، میرےلیے بھی دن کے کچھ حصے میں حلال ہوا، اب وہ اللہ کی حرمت سے قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس لیے اس کا کانٹا نہ توڑاجائے اور نہ اس کے شکار ہی کو ہراساں کیا جائے۔ اس میں گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے، ہاں جو شخص اس کی تشہیر کرے وہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کا سبز گھاس کاٹنابھی جائز نہیں ہے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اذخر (خوشبو دار گھاس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1834]
حدیث حاشیہ:
عہد رسالت میں ہجر ت کا سلسلہ فتح مکہ پر ختم ہو گیا تھا کیوں کہ اب خود مکہ شریف ہی دار الاسلام بن گیا اور مسلمانوں کو آزادی سے رہنا نصیب ہو گیا لیکن یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے کہ کسی زمانہ میں کہیں بھی دار الحرب سے بوقت ضرورت مسلمان دار الاسلام کی طرف ہجرت کرسکتے ہیں۔
اس لیے فرمایا کہ اپنے دین ایمان کو بہرحال محفوظ رکھنے کے لیے حسن نیت رکھنا ہر زمانہ میں ہر وقت باقی ہے۔
ساتھ ہی سلسلہ جہاد بھی قیامت تک کے لیے باقی ہے جب بھی کسی جگہ کفر اور اسلام کی معرکہ آرائی ہو اور اسلامی سربراہ جہاد کے لیے اعلان کرے تو ہر مسلمان پر اس کے اعلان پر لبیک کہنا فرض ہو جاتا ہے، جب مکہ شریف فتح ہوا تو تھوڑی دیر کے لیے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی تھی، جو وہاں استحکام امن کے لیے ضروری تھی بعد میں وہ اجازت جلدی ہی ختم ہو گئی اور اب مکہ شریف میں جنگ کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔
مکہ سب کے لیے دار الامن ہے جو قیامت تک اسی حیثیت میں رہے گا۔
بکۃ مبارکہ:
روایت مذکورہ میں مقدس شہر کا ذکر ہے جسے قرآن مجید میں لفظ بکہ سے بھی یا دکیا گیا ہے اس سلسلہ کی کچھ تفصیلات ہم مولانا ابوالجلال صاحب ندوی کے قلم سے اپنے ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
مولانا ندوہ کے ان فضلاءمیں سے ہیں جن کو قدیم عبرانی و سریانی زبانوں پر عبور حاصل ہے اور اس موضوع پر ان کے متعدد علمی مقالات علمی رسائل میں شائع شدہ موجودہ ہیں ہم بکہ مبارکہ کے عنوان سے آپ کے ایک علمی مقالہ کا ایک حصہ معارف ص2 جلد نمبر6 سے اپنے قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
امید ہے کہ اہل علم اسے بغور مطالعہ فرمائیں گے۔
صاحب مقالہ مرحوم ہو چکے ہیں اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے آمین۔
توراۃ کے اندر مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے خدا کے حکم سے اپنا آبائی وطن چھوڑا تو ارض کنعان میں شکم کے مقام سے مورہ تک سفر کرتے رہے۔
(تکوین 6112)
شکم اسی مقام کا نام تھا جسے ان دنوں نابلس کہتے ہیں، مورہ کا مقام بحث طلب ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ جب سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تو یہاں ان کو خدواند عالم کی تجلی نظر آئی۔
مقام تجلی پر انہوں نے خدا کے لیے ایک قربان گاہ بنائی (تکوین 7: 12)
توراۃ کے بیان کے مطابق اس مقام کے علاوہ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹوں پوتوں نے اور مقامات کو بھی عبادت گاہ مقرر کیا لیکن قدامت کے لحاظ سے اولین معبد یہی مور ہ کے پاس والا تھا۔
مورہ نام کے بائبل میں دو مقامات کا ذکر ہے ایک مورہ جلجال کے مقابل کنعانیوں کے سرزمین میں پردن کے پار مغرب جانب واقع تھا جہاں قاضی جدعون کے زمانہ میں بنواسرائیل اور بنو مدین سے جنگ ہوئی تھی۔
(استشاء: 30: 11 و قاصیون 10: 7)
دوسرے مورہ کا ذکر زبورمیں وارد ہے بائبل کے مترجموں نے اس مورہ کے ذکر کو پردہ خفا میں رکھنے کی انتہائی کوشش کی ہے لیکن حقیقت کا چھپانا نہایت ہی مشکل کام ہے حضرت داؤد ؑ کے اشاروں کا اردو میں حسب ذیل ترجمہ کیا ہے:
اے لشکروں کے خداوند! تیرے مسکن کیا ہی دلکش ہیں، میری روح خداوند کے بارگاہوں کے لیے آرزو مند ہے، بلکہ گداز ہوتی ہے، میرا من اور تن زندہ خدا کے لیے للکارتا ہے، گورے نے بھی اپنی گھونسلا بنایا، اور ابابیل نے اپنا آشیانہ پایا جہاں وے اپنے بچے رکھیں، تیری قربان گاہوں کو اے لشکروں کے خدواند! میرے بادشاہ میرے خدا۔
مبارک ہو وہ جو تیرے گھر میں بستے ہیں، وہ سدا تیری ستائش کرتے رہیں گے، سلاہ۔
مبارک ہیں وہ انسان جن کی قوت تجھ سے ہیں۔
ان کے دل میں تیری راہیں ہیں، وے بکا کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بناتے ہیں، پہلی برسات اسے برکتوں سے ڈھانپ لیتی ہے۔
وہ قوت سے قوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ خدا کے آگے صیہون میں حاضر ہوتے ہیں۔
(زبور نمبر 84)
چھٹی اور ساتویں آیت کا ترجمہ انگریزی میں بھی تقریباً یہی کیا گیا ہے اور غالباً مترجمین نے ترجمہ میں ارادۃ غلطی سے کام لیا ہے، صحیح ترجمہ حسب دیل ہے:
عبری بعمق ہبکہ، معین بسیتوہو۔
گم برکوف یعطنہ مودہ، بلکو محیل ال حیل براءال الوہم یصیون۔
وہ بکہ کے بطحا میں چلتے ہیں، ایک کنویں کے پاس پھرتے ہیں، جمیع برکتیں، مورہ کی ڈھانپ لیتی ہیں، وہ قوت سے قوت تک چلتے ہیں، خدائے صیہون سے ڈرتے ہیں۔
مورہ درحقیقت وہی لفظ ہے، جسے قرآن کریم میں ہم بصورت مروہ پاتے ہیں۔
خدا نے فرمایا إِن الصفا و المروةَ من شعائرِ اللہِ یقینا صفا اور مروہ اللہ کے مشاعر میں سے ہیں۔
زبور نمبر84 سے ایک بیت اللہ، ایک کنویں، اور ایک مروہ کا وادی بکہ میں ہونا صراحت کے ساتھ ثابت ہے، اس سے خانہ کعبہ کی بڑی عظمت اور اہمیت ظاہر ہوتی ہے، ہمارے پادری صاحبان کے نزدیک مناسب نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں میں کعبہ کا احترام پیدا ہو، اس لیے انہوں نے زبور84 کے ترجمہ میں دانستہ غلطی سے کام لیا، بہرحال بائبل کے اندر مورہ نام کے دو مقامات کا ذکر ہے، جن میں سے ایک جلجال کے پاس یعنی ارض فسلطین میں تھا اور ایک وادی بکہ میں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا پہلا معبد کس مورہ کے پاس تھا۔
9ھ میں نجران کے نصرانیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ آیا، ان نصرانیوں نے جیسا کہ سورۃ آل عمران کی بہت سی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے، یہود مسلمانوں اور مشرکین کے ساتھ مذہبی بحثیں کی تھیں، ان بحثوں کے درمیان یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ ملت ابراہیم کا اولین معبد کون تھا، اس کے جواب میں خدا نے ارشاد فرمایا ﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (96)
فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ﴾
(آل عمران: 196)
بلاشبہ پہلا خانہ خدا جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہی ہے، جو بکہ میں واقع ہے، مبارک ہے اور سارے لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے، اس میں کھلی نشانیاں ہیں، یعنی مقام ابراہیم ہے۔
جو اس میں داخل ہوا اس نے امان پائی اور لوگوں پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج فرض ہے بشرطیکہ راستہ چلنا ممکن ہو، اور اگر کوئی کافر کہا نہیں مانتا، یاد رہے اللہ سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔
جلجال کے قریب جو مورہ تھا اس کے پاس کسی مقدس معبد کا پوری تاریخ یہود کے کسی عہد میں سراغ نہیں ملتا، اس لیے یقینی طور پر ملت ابراہیم کا پہلا معبد وہی ہے جس کا ذکر زبور میں ہے اور یہی خانہ کعبہ ہے۔
خانہ کعبہ جس شہر یا علاقہ میں واقع ہے اس کا معروف ترین نام بکہ نہیں بلکہ مکہ ہے، قرآن پاک میں ایک جگہ مکہ کے نام سے بھی اس کا ذکر آیا ہے، زیر بحث آیت میں شہر کے معروف تر نام کی جگہ غیر مشہور نام کو ترجیح دی گئی ہے، اس کی دو وجہیں ہیں ایک یہ کہ اہل کتاب کو یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ مورہ جس کے پاس توراۃ کے اندر مذکور معبد اول کو ہونا چاہئے، جلجال کے پاس نہیں، بلکہ اس وادی بکہ میں واقع ہے، جس کا زبور میں ذکر ہے، دوسری یہ ہے کہ مکہ دراصل بکہ کے نام کی بدلی ہوئی صورت ہے، تحریری نام اس شہر کا بکہ تھا، لیکن عوام کی زبان نے اسے مکہ بنادیا۔
سب سے قدیم نوشتہ جس میں ہم کو مکہ کا نام ملتا ہے وہ قرآن مجید ہے لیکن بکہ کا نام قرآن سے پیشتر زبور میں ملتا ہے، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف جب 35 برس کی تھی تو قریش نے خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی، اس زمانہ میں خانہ کعبہ کی بنیاد کے اندر سے چند پتھر ملے، جن پر کچھ عبارتیں منقوش تھیں، قریش نے یمن سے ایک یہودی اور ایک نصرانی راہب کو بلا کر وہ تحریریں پڑھوایں ایک پتھر کے پہلو پر لکھا ہوا تھا کہ أنا للہ ذوبکة میں ہوں اللہ بکہ کا حاکم، حفظتها بسبعة أملاك حنفاء میں نے اس کی حفاظت کی سات خدا پرست فرشتوں سے، بارکت لأهلها في الماء و اللحم اس کے باشندوں کے لیے پانی اور گوشت میں برکت دی مختلف روایات میں کچھ اور الفاظ بھی ہیں لیکن ہم نے جتنے الفاظ نقل کئے ہیں ان پر سب روایتوں کا اتفاق ہے، روایات کے مطابق یہ نوشتہ کعبہ کی بنائے ابراہیم کے اندر ملا تھا۔
سچ ہے یہی گھر ہے کہ جس میں شوکت اسلام پنہاں ہے اسی سے صاحب فاران کی عظمت نمایاں ہے راز
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1834   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1834  
1834. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فتح مکہ کے روز فرمایا: اب ہجرت باقی نہیں رہی، البتہ جہاد قائم اور خلوص نیت باقی رہے گا اور جب تمھیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو فوراً نکل پڑو۔ بے شک یہ (مکہ) ایک ایسا شہر ہے کہ جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اسے قابل احترام ٹھہرایاہے اور وہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کے حرام کرنے سے قابل احترام ہے۔ اس میں جنگ کرنا مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہ ہوا، میرےلیے بھی دن کے کچھ حصے میں حلال ہوا، اب وہ اللہ کی حرمت سے قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس لیے اس کا کانٹا نہ توڑاجائے اور نہ اس کے شکار ہی کو ہراساں کیا جائے۔ اس میں گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے، ہاں جو شخص اس کی تشہیر کرے وہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کا سبز گھاس کاٹنابھی جائز نہیں ہے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اذخر (خوشبو دار گھاس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1834]
حدیث حاشیہ:
(1)
عہد رسالت میں مکہ فتح ہوتے ہی ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا کیونکہ اب مکہ دارالاسلام بن گیا اور مسلمانوں کو آزادی سے رہنے کی اجازت مل گئی، لیکن یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے کہ کسی بھی وقت کہیں سے بھی بوقت ضرورت مسلمان دارالاسلام کی طرف ہجرت کر سکتے ہیں، اس لیے اپنے دین کو محفوظ رکھنے کے لیے حسن نیت رکھنا ہر جگہ اور ہر وقت باقی ہے۔
اس کے ساتھ سلسلۂ جہاد بھی قیامت تک جاری رہے گا۔
جب بھی کسی جگہ کفر اور اسلام کی معرکہ آرائی ہو اور اسلامی سربراہ جہاد کے لیے اعلان کر دے تو ہر مسلمان پر اس کے اعلان پر لبیک کہنا ضروری ہے۔
جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو تھوڑی دیر کے لیے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی جو وہاں استحکام امن کے لیے ضروری تھی، اس کے بعد اس اجازت کو ختم کر دیا گیا۔
اب مکہ مکرمہ میں جنگ و قتال اور خونریزی کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔
مکہ مکرمہ دارالامن ہے۔
اس کی یہ حیثیت قیامت تک باقی رہے گی۔
(2)
واضح رہے کہ مکہ مکرمہ میں اذخر کے علاوہ ہر قسم کی گھاس کاٹنا ناجائز ہے، خواہ وہ تازہ ہو یا خشک کیونکہ خشک گھاس کاٹنے کی ممانعت کے متعلق بھی ایک روایت آئی ہے، البتہ حدود حرم میں ترکاریاں، سبزیاں اور کھیتیاں جو لوگ خود کاشت کرتے ہیں ان کا کاٹنا جائز ہے۔
(فتح الباري: 64/4)
بہرحال اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی حرمت کو زمین و آسمان کی پیدائش کے دن سے برقرار رکھا ہے اور قیامت تک قائم رہے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1834   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.