(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن ابي عبيد مولى عبد الرحمن بن عوف، انه سمع ابا هريرةرضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لان يحتطب احدكم حزمة على ظهره، خير له من ان يسال احدا فيعطيه او يمنعه".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَنْ يَحْتَطِبَ أَحَدُكُمْ حُزْمَةً عَلَى ظَهْرِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ أَحَدًا فَيُعْطِيَهُ أَوْ يَمْنَعَهُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام ابی عبید نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جو لکڑی کا گھٹا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، اس سے بہتر ہے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے چاہئیے وہ اسے کچھ دیدے یا نہ دے۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "No doubt, it isbetter for any one of you to cut a bundle ofwood and carry it over his back rather than toask someone who may or may not givehim."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 288
لأن يأخذ أحدكم حبله، فيحتطب به، ثم يجيء به على ظهره، فيبيعه فيأكله أو يتصدق به، خير له من أن يأتي رجلا قد أغناه الله من فضله فيسأله، أعطاه أو منعه ذلك، فإن اليد العليا خير من اليد السفلى
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 599
´ضرورت کے بغیر مانگنا جائز نہیں ہے` «. . . 371- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، ليأخذ أحدكم حبله فيحتطب على ظهره خير له من أن يأتي رجلا أعطاه الله من فضله فيسأله، أعطاه أو منعه.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی آدمی اپنی رسی لے، پھر لکڑیاں اکھٹی کر کے اپنی پیٹھ پر (رکھ کر) لے آئے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے پاس جا کر مانگے جسے اللہ نے اپنے فضل (مال) سے نواز رکھا ہو۔ وہ اسے دے یا دھتکار دے۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 599]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1470، من حديث مالك به * وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: ”لَأَنْ يَأْخُذَ“]
تفقه: ➊ بہترین رزق وہی ہے جسے انسان اپنے ہاتھوں اور محنت سے کمائے۔ ➋ شرعی عذر کے بغیر لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 371
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 680
´دوسروں سے مانگنے کی ممانعت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے جائے اور لکڑیوں کا گٹھر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے اور اس میں سے (یعنی اس کی قیمت میں سے) صدقہ کرے اور اس طرح لوگوں سے بے نیاز رہے (یعنی ان سے نہ مانگے) اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے مانگے، وہ اسے دے یا نہ دے ۱؎ کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ۲؎، اور پہلے اسے دو جس کی تم خود کفالت کرتے ہو۔“[سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 680]
اردو حاشہ: 1؎: عزیمت کی راہ یہی ہے کہ آدمی ضرورت و حاجت ہونے پر بھی کسی سے سوال نہ کر ے اگرچہ ضرورت و حاجت کے وقت سوال کرنا جائز ہے۔
2؎: اوپر والے ہاتھ سے مراد دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے والے ہاتھ سے مراد لینے والا ہاتھ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 680