الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
54. بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي بَيْعِ الطَّعَامِ وَالْحُكْرَةِ:
54. باب: اناج کا بیچنا اور احتکار کرنا کیسا ہے؟
(54) Chapter. What is said about the selling of the foodstuff and its storage.
حدیث نمبر: 2132
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى ان يبيع الرجل طعاما حتى يستوفيه"، قلت لابن عباس: كيف ذاك؟ قال: ذاك دراهم بدراهم، والطعام مرجا، قال ابو عبد الله: مرجئون مؤخرون.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ طَعَامًا حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ"، قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: كَيْفَ ذَاكَ؟ قَالَ: ذَاكَ دَرَاهِمُ بِدَرَاهِمَ، وَالطَّعَامُ مُرْجَأٌ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: مُرْجَئُونَ مُؤَخَّرُونَ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ پر پوری طرح قبضہ سے پہلے اسے بیچنے سے منع فرمایا۔ طاؤس نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ تو روپے کا روپوں کے بدلے بیچنا ہوا جب کہ ابھی غلہ تو میعاد ہی پر دیا جائے گا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ «مرجئون» سے مراد «مؤخرون» یعنی مؤخر کرنا ہے۔

Narrated Tawus: Ibn `Abbas said, "Allah's Apostle forbade the selling of foodstuff before its measuring and transferring into one's possession." I asked Ibn `Abbas, "How is that?" Ibn `Abbas replied, "It will be just like selling money for money, as the foodstuff has not been handed over to the first purchaser who is the present seller."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 342


   صحيح البخاري2135عبد الله بن عباسالطعام أن يباع حتى يقبض
   صحيح البخاري2132عبد الله بن عباسنهى أن يبيع الرجل طعاما حتى يستوفيه
   صحيح مسلم3839عبد الله بن عباسمن ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يكتاله
   صحيح مسلم3838عبد الله بن عباسمن ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه
   صحيح مسلم3836عبد الله بن عباسمن ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه
   جامع الترمذي1291عبد الله بن عباسمن ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه
   سنن أبي داود3496عبد الله بن عباسمن ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يكتاله
   سنن أبي داود3497عبد الله بن عباسإذا اشترى أحدكم طعاما فلا يبعه حتى يقبضه
   سنن النسائى الصغرى4601عبد الله بن عباسمن ابتاع طعاما فلا يبيعه حتى يكتاله
   سنن النسائى الصغرى4604عبد الله بن عباسمن ابتاع طعاما فلا يبيعه حتى يقبضه
   سنن ابن ماجه2227عبد الله بن عباسمن ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه
   مسندالحميدي518عبد الله بن عباسأما الذي نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم فهو الطعام أن يباع حتى يستوفى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1291  
´قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا ناجائز ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص غلہ خریدے تو اسے نہ بیچے جب تک کہ اس پر قبضہ نہ کر لے ۱؎، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: میں ہر چیز کو غلے ہی کے مثل سمجھتا ہوں۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1291]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
خریدوفروخت میں شریعت اسلامیہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز پر خریدارجب تک مکمل قبضہ نہ کر لے اسے دوسرے کے ہاتھ نہ بیچے،
اوریہ قبضہ ہر چیز پر اسی چیز کے حساب سے ہوگا،
نیز اس سلسلہ میں علاقے کے عرف (رسم ورواج) کا اعتباربھی ہوگا کہ وہاں کسی چیز پر کیسے قبضہ ماناجاتا ہے مثلاً منقولہ چیزوں میں شریعت نے ایک عام اصول برائے مکمل قبضہ یہ بتایا ہے کہ اس چیز کو مشتری بائع کی جگہ سے اپنی جگہ میں منتقل کرلے یا ناپنے والی چیز کو ناپ لے اور تولنے والی چیز کو تول لے اور اندازہ کی جانے والی چیز کی جگہ بدل لے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1291   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3496  
´قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جو شخص گیہوں خریدے تو وہ اسے تولے بغیر فروخت نہ کرے۔‏‏‏‏ ابوبکر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیوں؟ تو انہوں نے کہا: کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ لوگ اشرفیوں سے گیہوں خریدتے بیچتے ہیں حالانکہ گیہوں بعد میں تاخیر سے ملنے والا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3496]
فوائد ومسائل:
ان تعلیمات کی حکمتیں واضح ہیں۔
مقصد یہ ہے کہ منڈی میں جمود نہ رہے۔
مال اور سرمایا حرکت میں آئے۔
مزدوروں کو مزدوری اور لوگوں کو رزق آسانی اور ارزانی سے ملے۔
آج کل اشیاء کے مہنگے ہونے کا بڑا سبب ہی یہی ہے۔
کہ مال ایک جگہ سٹور میں پڑا ہوتا ہے۔
اورسرمایا دار اسے وہیں ا یک دوسرے کو فروخت کرتے چلے جاتے ہیں۔
یا مال ابھی ایک خریدار کے قبضے میں آیا نہیں ہوتا کہ وہ اسے آگے فروخت کردیتا ہے۔
اور وہ پھر اسے آگے فروخت کردیتا ہے۔
یہ سب صورتیں شرعی اصولوں سے متصادم ہیں۔
اوران کا حاصل کمرتوڑ مہنگائی ہے۔
ولاحول ولا قوة إلا باللہ
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3496   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2132  
2132. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی قبضہ کرنے سے پہلے غلہ فروخت کرے۔ (راوی حدیث حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ)میں نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ ایسا کرنا کیوں منع ہے؟ فرمایا کہ یہ تو دراہم کے عوض دراہم فروخت کرنا ہے جبکہ غلہ بعد میں دیا جاتا ہے۔ ابو عبد اللہ(امام بخاری)کہتے ہیں کہ قرآنی لفظ مُرْجَوْنَ کے معنی ہیں۔ ان کا معاملہ (اللہ کے حکم تک کے لیے)مؤخر کردیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2132]
حدیث حاشیہ:
اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید نے دو من گیہوں عمرو سے دو روپے کے بدلے خریدے اور عمرو سے یہ ٹھہرا کہ دو مہینے بعد گیہیوں دے۔
اب زید نے ہی گیہوں بکر کے ہاتھ سے چار روپیہ کو بیچ ڈالا تو درحقیقت زید نے گویا دو روپے کو چار روپیہ کے بدل میں بیچا جو صریحاً سود ہے کیوں کہ گیہوں کا ابھی تک وجود ہی نہیں وہ تو دو ماہ بعد ملیں گے اور روپیہ کے بدل روپیہ بک رہا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2132   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2132  
2132. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی قبضہ کرنے سے پہلے غلہ فروخت کرے۔ (راوی حدیث حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ)میں نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ ایسا کرنا کیوں منع ہے؟ فرمایا کہ یہ تو دراہم کے عوض دراہم فروخت کرنا ہے جبکہ غلہ بعد میں دیا جاتا ہے۔ ابو عبد اللہ(امام بخاری)کہتے ہیں کہ قرآنی لفظ مُرْجَوْنَ کے معنی ہیں۔ ان کا معاملہ (اللہ کے حکم تک کے لیے)مؤخر کردیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2132]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا مقصد اور استدلال پہلی حدیث کے فوائدمیں بیان ہوچکا ہے۔
ہم حضرت ابن عباس ؓ کے موقف کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں جس کی صورت یہ ہے کہ زید نے عمر سے دو من غلہ دوسوروپے میں خریدا اور یہ طے پایا کہ غلہ دوماہ بعد دیا جائے گا۔
اب زید نے خرید کردہ دو من غلہ بکر کو چار سوروپے میں فروخت کردیا۔
یہ صریح سود ہے کیونکہ غلے کا ابھی تک وجود نہیں وہ تو دوماہ بعد ملے گا اب تو روپوں کے عوض روپے فروخت کیے گئے ہیں۔
(2)
چونکہ روایت میں (والطعام مُرْجُاً)
کے الفاظ آئے تھے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسی مناسبت سے قرآنی آیت ﴿وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّـهِ﴾ کی لغوی تشریح فرمائی کہ اس کے معنی مؤخر کرنے کے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2132   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.