الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
84. بَابُ تَفْسِيرِ الْعَرَايَا:
84. باب: عریہ کی تفسیر کا بیان۔
(84) Chapter. The explanation of Araya.
حدیث نمبر: Q2192
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال مالك: العرية، ان يعري الرجل الرجل النخلة، ثم يتاذى بدخوله عليه، فرخص له ان يشتريها منه بتمر، وقال ابن إدريس: العرية لا تكون إلا بالكيل من التمر يدا بيد، لا يكون بالجزاف، ومما يقويه قول سهل بن ابي حثمة: بالاوسق الموسقة، وقال ابن إسحاق في حديثه: عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنه، كانت العرايا ان يعري الرجل في ماله النخلة والنخلتين، وقال يزيد: عن سفيان بن حسين، العرايا نخل كانت توهب للمساكين، فلا يستطيعون ان ينتظروا، بها رخص لهم ان يبيعوها بما شاءوا من التمر.وَقَالَ مَالِكٌ: الْعَرِيَّةُ، أَنْ يُعْرِيَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ النَّخْلَةَ، ثُمَّ يَتَأَذَّى بِدُخُولِهِ عَلَيْهِ، فَرُخِّصَ لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَهَا مِنْهُ بِتَمْرٍ، وَقَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: الْعَرِيَّةُ لَا تَكُونُ إِلَّا بِالْكَيْلِ مِنَ التَّمْرِ يَدًا بِيَدٍ، لَا يَكُونُ بِالْجِزَافِ، وَمِمَّا يُقَوِّيهِ قَوْلُ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ: بِالْأَوْسُقِ الْمُوَسَّقَةِ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ فِي حَدِيثِهِ: عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَتِ الْعَرَايَا أَنْ يُعْرِيَ الرَّجُلُ فِي مَالِهِ النَّخْلَةَ وَالنَّخْلَتَيْنِ، وَقَالَ يَزِيدُ: عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، الْعَرَايَا نَخْلٌ كَانَتْ تُوهَبُ لِلْمَسَاكِينِ، فَلَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَنْتَظِرُوا، بِهَا رُخِّصَ لَهُمْ أَنْ يَبِيعُوهَا بِمَا شَاءُوا مِنَ التَّمْرِ.
‏‏‏‏ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص (کسی باغ کا مالک اپنے باغ میں) دوسرے شخص کو کھجور کا درخت (ہبہ کے طور پر) دیدے، پھر اس شخص کا باغ میں آنا اچھا نہ معلوم ہو، تو اس صورت میں وہ شخص ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں اپنا درخت (جسے وہ ہبہ کر چکا ہے) خرید لے اس کی اس کے لیے رخصت دی گئی ہے اور ابن ادریس (امام شافعی رحمہ اللہ) نے کہا کہ عریہ جائز نہیں ہوتا مگر (پانچ وسق سے کم میں) سوکھی کھجور ناپ کر ہاتھوں ہاتھ دیدے یہ نہیں کہ دونوں طرف اندازہ ہو۔ اور اس کی تائید سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے کہ وسق سے ناپ کر کھجور دی جائے۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ نے اپنی حدیث میں نافع سے بیان کیا اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باغ میں کھجور کے ایک دو درخت کسی کو عاریتاً دیدے اور یزید نے سفیان بن حسین سے بیان کی کہ عریہ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو مسکینوں کو للہ دے دیا جائے، لیکن وہ کھجور کے پکنے کا انتظار نہیں کر سکتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دی کہ جس قدر سوکھی کھجور کے بدل چاہیں اور جس کے ہاتھ چاہیں بیچ سکتے ہیں۔

حدیث نمبر: 2192
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد هو ابن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت رضي الله عنهم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" رخص في العرايا ان تباع بخرصها كيلا"، قال موسى بن عقبة: والعرايا نخلات معلومات تاتيها فتشتريها.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا أَنْ تُبَاعَ بِخَرْصِهَا كَيْلًا"، قَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ: وَالْعَرَايَا نَخَلَاتٌ مَعْلُومَاتٌ تَأْتِيهَا فَتَشْتَرِيهَا.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، انہیں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی اجازت دی کہ وہ اندازے سے بیچی جا سکتی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ عرایا کچھ معین درخت جن کا میوہ تو اترے ہوئے میوے کے بدل خریدے۔

Narrated Ibn `Umar from Zaid bin Thabit: Allah's Apostle allowed the sale of 'Araya by estimating the dates on them for measured amounts of dried dates. Musa bin `Uqba said, "Al- 'Araya were distinguished date palms; one could come and buy them (i.e. their fruits).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 397


   صحيح البخاري2380زيد بن ثابترخص النبي أن تباع العرايا بخرصها تمرا
   صحيح البخاري2192زيد بن ثابترخص في العرايا أن تباع بخرصها كيلا
   صحيح البخاري2188زيد بن ثابتأرخص لصاحب العرية أن يبيعها بخرصها
   صحيح مسلم3883زيد بن ثابترخص في بيع العرية بخرصها تمرا
   صحيح مسلم3884زيد بن ثابترخص في العرايا أن تباع بخرصها كيلا
   صحيح مسلم3879زيد بن ثابترخص لصاحب العرية أن يبيعها بخرصها من التمر
   صحيح مسلم3880زيد بن ثابترخص في العرية يأخذها أهل البيت بخرصها تمرا يأكلونها رطبا
   جامع الترمذي1302زيد بن ثابتبيع العرايا بخرصها
   سنن أبي داود3362زيد بن ثابترخص في بيع العرايا بالتمر والرطب
   سنن النسائى الصغرى4543زيد بن ثابترخص في بيع العرية بخرصها تمرا
   سنن النسائى الصغرى4541زيد بن ثابترخص في العرايا بالتمر والرطب
   سنن النسائى الصغرى4540زيد بن ثابترخص في العرايا
   سنن النسائى الصغرى4542زيد بن ثابترخص في بيع العرايا تباع بخرصها
   سنن النسائى الصغرى4544زيد بن ثابترخص في بيع العرايا بالرطب وبالتمر
   سنن ابن ماجه2269زيد بن ثابتأرخص في بيع العرية بخرصها تمرا
   سنن ابن ماجه2268زيد بن ثابترخص في العرايا
   المعجم الصغير للطبراني516زيد بن ثابترخص في بيع العرايا بخرصها كيلا
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم498زيد بن ثابت ارخص لصاحب العرية ان يبيعها بخرصها
   بلوغ المرام712زيد بن ثابترخص في العرايا ان تباع بخرصها كيلا
   مسندالحميدي403زيد بن ثابتأن رسول الله صلى الله عليه وسلم رخص في بيع العرايا
   مسندالحميدي634زيد بن ثابتنهى عن بيع الثمر حتى يبدو صلاحه، ونهى عن بيع الثمر بالتمر
   مسندالحميدي689زيد بن ثابتنهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك إلا أنه رخص في العرايا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 498  
´اندازے سے مال بیچنے کا حکم`
«. . . 237- وبه: عن ابن عمر عن زيد بن ثابت: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرخص لصاحب العرية أن يبيعها بخرصها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کے مالک کو اجازت دی ہے کہ وہ اندازے سے (اُکا) انہیں بیچ سکتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 498]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2188، و مسلم 1539/60، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ دیکھئے حدیث سابق: 157
➋ اگر دکاندار اور گاہک دونوں راضی ہوں تو مال کو اندازے سے یعنی اُکا بیچا جا سکتا ہے۔ ➌ دین اسلام مکمل دین ہے جس میں زندگی کے ہر مرحلے اور مسئلے کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ والحمد للہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 237   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2269  
´عرایا کی بیع یعنی کھجور کے درخت کو انداز ے سے خشک کھجور کے بدلے خریدنے کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی بیع میں اجازت دی ہے کہ اندازہ سے اس کے برابر خشک کھجور کے بدلے خرید و فروخت کی جائے۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ عریہ یہ ہے کہ ایک آدمی کھجور کے کچھ درخت اپنے گھر والوں کے کھانے کے لیے اندازہ کر کے اس کے برابر خشک کھجور کے بدلے خریدے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2269]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عام قانون یہی ہے کہ کھجور کے بدلے میں کھجور کا تبادلہ دست بدست اور برابر برابر ہونا چاہیے لیکن عرایا کا مسئلہ اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے۔

(2)
امام مالک رحممۃ اللہ علیہ نے عرایا کی تفسیر یوں کی ہے:
عریہ یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کھجور کا ایک درخت (پھل کھانے کے لیے)
دیتا ہے، پھر اس کے (بار بار)
باغ میں آنے سے تکلیف محسوس کرتا ہے تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ (اسے دیا ہوا وہ)
درخت خشک کھجوروں عوض خرید لے۔ (صحیح البخاري، البیوع، باب تفسیر العرایا، قبل حدیث: 2192)
 اس کا طریقہ یہ کہ درخت کے پھل کا اندازہ لگایا جائے کہ خشک ہو کر اتنے من ہوگا، پھر اتنے من خشک کھجوریں اسے دے کر درخت واپس لے لیا جائے۔
اس صورت میں خشک کھجوروں کےعوض تازہ کھجوریں (درخت پر لگی ہوئی)
خریدی گئی ہیں اور خشک کھجوریں ماپ تول کر دی گئی ہیں۔
یہ جائز ہے بشرطیکہ ان کی مقدار پانج وسق (بیس من)
سے کم ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2269   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2192  
2192. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عرایا کے متعلق اجازت دی کہ انھیں اندازے سے ناپ کر فروخت کیاجائے۔ حضرت موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ عرایا چند معین کھجوریں ہیں جن کا پھل اتری ہوئی کھجوروں کے عوض خریدا جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2192]
حدیث حاشیہ:
علامہ شوکانی ؒ عرایا کی تفصیل ان لفظوں میں پیش فرماتے ہیں:
جمع عریة قال في الفتح و هي في الأصل عطیة ثمر النخل دون الرقبة کانت العرب في الجدب تتطوع بذلك علی من لا ثمر له کما یتطوع صاحب الشاة أو الإبل بالمنیحة وهي عطیة اللبن دون الرقبة۔
(نیل)
یعنی عرایا عریہ کی جمع ہے اور دراصل یہ کھجور کا صرف پھل کسی محتاج مسکین کو عاریتاً بخشش کے طور پر دے دینا ہے۔
عربوں کا طریقہ تھا کہ وہ فقراء مساکین کو فصل میں کسی درخت کا پھل بطور بخشش دے دیا کرتے تھے جیسا کہ بکری اوراونٹ والوں کابھی طریقہ رہا ہے کہ کسی غریب مسکین کے حوالہ صرف دودھ پینے کے لیے بکری یا اونٹ کردیا کرتے تھے۔
آگے حضرت علامہ ؒ فرماتے ہیں:
و أخرج الإمام أحمد عن سفیان بن حسین أن العرایا نخل توهب للمساکین فلا یستطیعون أن ینتظروا بها فرخص لهم أن یبیعوها بما شاء و امن التمر۔
یعنی عرایا ان کھجوروں کو کہا جاتا ہے جو مساکین کو عاریتاً بخشش کے طور پر دے دی جاتی ہیں۔
پھر ان مساکین کو تنگ دستی کی وجہ سے ان کھجوروں کا پھل پختہ ہونے کا انتظار کرنے کی تاب نہیں ہوتی۔
پس ان کو رخصت دی گئی کہ وہ جیسے مناسب جانیں سوکھی کھجوروں سے ان کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔
و قال الجوهري هي النخلة التي یعریها صحابها رجلا محتاجا بأن یعجل له ثمرها عاماً۔
یعنی جوہری نے کہا کہ یہ وہ کھجور ہیں جس کے پھلوں کو ان کے مالک کسی محتاج کو عاریتاً محض بطور بخشش سال بھر کے لیے دے دیا کرتے ہیں۔
عرایا کی اور بھی بہت سی صورتیں بیان کی گئی ہیں تفصیل کے لیے فتح الباری کا مطالعہ ضروری ہے۔
علامہ شوکانی آخر میں فرماتے ہیں و الحاصل أن کل صورة من صور العرایا ورد بها حدیث صحیح أو ثبت عن أهل الشرع أو أهل اللغة فهي جائزة لدخولها تحت مطلق الإذن و التخصیص في بعض الأحادیث علی بعض الصور لا ینافي ما ثبت في غیرہ۔
یعنی بیع عرایا کی جتنی بھی صورتیں صحیح حدیث میں وارد ہیں یا اہل شرع یا اہل لغت سے وہ ثابت ہیں وہ سب جائز ہیں۔
اس لیے کہ وہ مطلق اذن کے تحت داخل ہیں۔
اور بعض احادیث بعض صورتوں میں جو بطور نص وارد ہیں وہ ان کے منافی نہیں ہیں جو بعض ان کے غیر سے ثابت ہیں۔
بیع عرایا کے جواز میں اہم پہلو غرباءمساکین کا مفاد ہے جو اپنی تنگ دستی کی وجہ سے پھلوں کے پختہ ہونے کا انتظار کرنے سے معذور ہیں۔
ان کو فی الحال شکم پری کی ضرورت ہے اس لیے ان کو اس بیع کے لیے اجازت دی گئی۔
ثابت ہوا کہ عقل صحیح بھی اس کے جواز کی تائید کرتی ہے۔
سند میں مذکور بزرگ حضرت نافع سرجس کے بیٹے عبداللہ بن عمر ؓ کے آزاد کردہ ہیں۔
یہ دیلمی تھے اور اکابرتابعین میں سے ہیں۔
ابن عمر ؓ اور ابوسعید ؓ سے حدیث کی سماعت کی ہے۔
ان سے بہت لوگوں نے جن میں زہری اور امام مالک بھی ہیں، روایت کی ہے۔
حدیث کے بارے میں شہرت یافتہ لوگوں میں سے ہیں۔
نیز ان ثقہ راویوں میں سے ہیں جن کی روایت پر مکمل اعتماد ہوتا ہے اور جن کی روایت کردہ احادیث پر عمل کیا جاتاہے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیثوں کا بڑا حصہ ان ہی پر موقوف ہے۔
امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ جب میں نافع کے واسطہ سے حدیث سن لیتا ہوں تو پھر کسی اور راوی سے سننے کی لیے بے فکر ہو جاتا ہوں۔
117ھ میں وفات پائی۔
رحمه اللہ
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2192   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2192  
2192. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عرایا کے متعلق اجازت دی کہ انھیں اندازے سے ناپ کر فروخت کیاجائے۔ حضرت موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ عرایا چند معین کھجوریں ہیں جن کا پھل اتری ہوئی کھجوروں کے عوض خریدا جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2192]
حدیث حاشیہ:
راوی نے عرایا کی تفسیر میں اختصار سے کام لیا ہے کیونکہ اس میں درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے عوض خریدا جاتا ہے۔
چونکہ عرایا میں یہ امر معروف ہے، اس لیےاس کا ذکر نہیں کیا گیا۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2192   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.