الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
102. بَابُ قَتْلِ الْخِنْزِيرِ:
102. باب: سور کا مار ڈالنا۔
(102) Chapter. The killing of pigs.
حدیث نمبر: Q2222
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال جابر حرم النبي صلى الله عليه وسلم بيع الخنزير.وَقَالَ جَابِرٌ حَرَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْعَ الْخِنْزِيرِ.
‏‏‏‏ اور جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سور کی خرید و فروخت حرام قرار دی ہے۔


Aur Jabir Radhiallahu Anhu ne kaha ke Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ne suwar ki khareed-o-farokht haraam qaraar di hai .

حدیث نمبر: 2222
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن ابن المسيب، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده ليوشكن ان ينزل فيكم ابن مريم حكما مقسطا، فيكسر الصليب، ويقتل الخنزير، ويضع الجزية، ويفيض المال حتى لا يقبله احد".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن مسیب نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم (عیسیٰ علیہ السلام) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "By Him in Whose Hands my soul is, son of Mary (Jesus) will shortly descend amongst you people (Muslims) as a just ruler and will break the Cross and kill the pig and abolish the Jizya (a tax taken from the non-Muslims, who are in the protection, of the Muslim government). Then there will be abundance of money and nobody will accept charitable gifts.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 425


   صحيح البخاري3448عبد الرحمن بن صخرليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما عدلا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد حتى تكون السجدة الواحدة خيرا من الدنيا وما فيها
   صحيح البخاري2476عبد الرحمن بن صخرلا تقوم الساعة حتى ينزل فيكم ابن مريم حكما مقسطا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد
   صحيح البخاري2222عبد الرحمن بن صخرليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما مقسطا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد
   صحيح مسلم391عبد الرحمن بن صخرلينزلن ابن مريم حكما عادلا فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير وليضعن الجزية ولتتركن القلاص فلا يسعى عليها ولتذهبن الشحناء والتباغض والتحاسد وليدعون إلى المال فلا يقبله أحد
   صحيح مسلم389عبد الرحمن بن صخرليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما مقسطا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد
   جامع الترمذي2233عبد الرحمن بن صخرليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما مقسطا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد
   سنن ابن ماجه4078عبد الرحمن بن صخرلا تقوم الساعة حتى ينزل عيسى ابن مريم حكما مقسطا وإماما عدلا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد
   المعجم الصغير للطبراني755عبد الرحمن بن صخرعيسى ابن مريم ليس بيني وبينه نبي ولا رسول ألا إنه خليفتي من بعدي يقتل الدجال ويكسر الصليب ويضع الجزية وتضع الحرب أوزارها ألا من أدركه منكم فليقرأ
   المعجم الصغير للطبراني836عبد الرحمن بن صخريوشك من عاش منكم أن يرى عيسى ابن مريم إماما حكما عدلا فيضع الجزية ويكسر الصليب ويقتل الخنزير وتضع الحرب أوزارها
   مسندالحميدي253عبد الرحمن بن صخرإن أشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة الذين يشبهون بخلق الله عز وجل
   مسندالحميدي1128عبد الرحمن بن صخريوشك أن ينزل ابن مريم فيكم حكما، وإماما مقسطا يكسر الصليب، ويقتل الخنزير، ويضع الجزية، ويفيض المال حتى لا يقبله أحد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2222  
´عیسیٰ علیہ السلام کا اترنا`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم (عیسیٰ علیہ السلام) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ: 2222]

لغوی توضیح:
«لَيُوْشِكَنَّ» عنقریب ایسا ہو گا۔
«حَكَماً» یعنی حکمراں جو شریعت محمدی کے مطابق فیصلے کرے گا، معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی نبی بھی آئے گا تو اسے آپ کی ہی شریعت پر چلنا ہو گا تو پھر آپ کی بات کے مقابلے میں کسی امام یا بزرگ کی بات کیا حیثیت ہے۔
«اَلْمُقْسِطْ» عدل کرنے والا۔
«يَكْسِرُ الصَّلِيْبَ» صلیب توڑ دیں گے، یعنی حقیقت میں صلیب توڑ کر نصاریٰ کے عقائد کی تردید کر دیں گے۔
«يَضَعُ الْجِزْيَةَ» جزیہ ختم کر دیں گے، یعنی کفار سے صرف اسلام ہی قبول کریں گے اور اگر کوئی اسلام قبول نہیں کرتا تو اس سے جنگ کریں گے۔
«يُفِيْضُ الْمَال» مال زیادہ ہو جائے گا، کیونکہ ظلم کا خاتمہ اور عدل و انصاف کا قیام لوگوں میں خیر و برکت کے نزول کا باعث بنے گا۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 95   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4078  
´فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم عادل حاکم اور منصف امام بن کر نازل نہ ہوں، وہ آ کر صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، اور جزیہ کو معاف کر دیں گے، اور مال اس قدر زیادہ ہو گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4078]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس وقت اسلامی قانون یہ ہے کہ یہودی یا عیسائی اسلامی حکومت میں اپنے مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں بشرطیکہ اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کریں اور جزیہ ادا کریں۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکم عیسیٰ علیہ السلام کے نزول تک ہے۔
نزول مسیح کے بعد قانون یہ ہوگا کہ یہودی یا عیسائی اسلام قبول کریں یا جنگ کریں اور مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ 2۔
یہ حدیث مرزا احمد قادیانی کے دعوی مسیحیت کی واضح تردید ہے کیونکہ اس میں نازل ہونے والے مسیح کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی۔
ان کا نام حضرت عیسی ٰ علیہ السلام ہے۔
اس کا نام غلام احمد تھا۔
اس کی والدہ کا نام سیدہ مریم علیہا السلام ہے۔
اس کی ماں کا نام چراغ بی بی تھا۔
وہ آسمان سے نازل ہونگے یہ قادیان میں پیدا ہوا۔
وہ لوگوں میں انصاف کریں گے۔
یہ عیسائی انگریزوں کی عدالتوں سے انصاف کا طالب تھا۔
وہ حکمران ہوں گے۔
اس نے عیسائی جج ایف ڈوئی کی عدالت میں اس بات کا وعدہ کیا کہ وہ اپنے مخالفوں کے مرنے کی پیش گوئی نہیں کریگا۔
وہ انصاف کرنے والے ہوں گے۔
اس نے پچاس حصوں کی کتاب تصنیف کرنے کا وعدہ کرکے پیشگی رقم وصول کرکے پانچ حصوں کی کتاب براہین احمدیہ شائع کی۔
وہ بھی کہنے کو پانچ حصے لیکن در حقیقت  دو حصوں پر مشتمل ہے۔
وہ صلیب کو توڑیں گے۔
اس کے مذہب کی بنیاد اولي الامر (کافر انگریزوں)
کی اطاعت پر ہے۔
وہ مال تقسیم کریں گے۔
یہ اپنے مریدوں سے چند وصول کرکے گزارہ کرنے والا تھا۔
وہ دجال کو قتل کریں گے۔
اس نے دجال کا مطلب انگریز قوم بیان کیا اور ان کی اطاعت کو فرض قراردیا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز کے امام ہونگے۔
مرزا نے اپنی مسجد میں ایک اور شخص کو امام مقرر کر رکھا تھا اور خود اس کے پیچھے نماز پڑھتا تھا۔
وہ دمشق کی مسجد میں نازل ہوں گے۔
اس نے دمشق کو دیکھا تک نہیں۔
الغرض مرزا غلام احمد قادیانی میں حضرت عیسی ٰابن مریم علیہما السلام والی کوئی علامت موجود نہیں بلکہ اس کا کردار اور اس کی پیش گوئیاں اس کی تکذیب کے لیے کافی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4078   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2233  
´عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نزول کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عنقریب تمہارے درمیان عیسیٰ بن مریم حاکم اور منصف بن کر اتریں گے، وہ صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، جزیہ ختم کر دیں گے، اور مال کی زیادتی اس طرح ہو جائے گی کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2233]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علماء کا کہنا ہے کہ دیگر انبیاء کو چھوڑ کر عیسیٰ علیہ السلام کے نزول میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اس نزول سے یہود کے اس زعم کو کہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا ہے،
باطل کرنا مقصود ہے،
چنانچہ نزول عیسیٰ سے ان کے جھوٹ کی قلعی کھل جائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2233   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2222  
2222. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!عنقریب تم میں حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریم نازل ہوں گے۔ اس وقت وہ حاکم منصف ہوں گے۔ صلیب توڑ ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ جزیہ ختم کردیں گے اور مال اس طرح بہے گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2222]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ سور نجس العین ہے اس کی بیع جائز نہیں ورنہ حضرت عیسیٰ ؑ اسے قتل کیوں کرتے۔
اور نیست و نابود کیوں کرتے۔
جزیہ موقوف کرنے سے یہ غرض ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ فرمائیں گے یا مسلمان ہو یا قتل ہو۔
جزیہ قبول نہ کریں گے۔
اس حدیث سے صاف حضرت عیسیٰ ؑ کا قیامت کے قریب اترنا اور حکومت کرنا اور صلیب توڑنا، جزیہ موقوف کرنا یہ سب باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
اور تعجب ہوتا ہے اس شخص کی عقل پر جو قادیانی مرزا کو مسیح موعود سمجھتا ہے۔
اللهم ثبتنا علی الحق و جنّبنا من الفتن ما ظهر منها و ما بطن (وحیدی)
قتل خنزیر سے مراد یہ کہ یأمر بإعدامه مبالغة في تحریم أکله و فیه توبیخ عظیم للنصاری الذین یدعون أنهم علی طریقة عیسی ثم یستحلون أکل الخنزیر و یبالغون في محبته۔
یعنی حضرت عیسیٰ ؑ اپنے دور حکومت میں خنزیر کی نسل کو ختم کرنے کا حکم جاری کر دیں گے۔
اس میں اس کے کھانے کی حرمت میں مبالغہ کا بیان ہے اوراس میں ان عیسائیوں کے لیے بڑی ڈانٹ ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کے پیروکار ہونے کے مدعی ہیں، پھر خنزیر کھانا حلال جانتے ہیں اوراس کی محبت میں مبالغہ کرتے ہیں۔
آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ کی بنا پر جملہ اہل اسلام کا از سلف تا خلف یہ اعتقاد رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم ؑ آسمان پر زندہ ہیں اور وہ قیامت کے قریب دنیا میں نازل ہو کر شریعت محمدیہ کے پیروکار ہوں گے اور اس کے تحت حکومت کریں گے۔
حدیث مذکورہ میں آنحضرت ﷺ نے حلفیہ بیان فرمایا ہے کہ وہ بالضرور نازل ہوں گے چوں کہ آج کل فرقہ قادیانیہ نے اس بارے میں بہت کچھ دجل پھیلا کر بعض نوجوانوں کے دماغوں کو مسموم کر رکھا ہے۔
لہٰذا چند دلائل کتاب و سنت سے یہاں پیش کئے جاتے ہیں جو اہل ایمان کی تسلی کے لیے کافی ہوں گے۔
قرآن مجید کی آیت شریفہ نص قطعی ہے جس سے حیات مسیح ؑ روز روشن کی طرح ثابت ہے۔
﴿وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا﴾ (النساء: 159)
یعنی جب حضرت عیسیٰ ؑ آسمان سے نازل ہوں گے تو کوئی اہل کتاب یہودی اور عیسائی ایسا باقی نہ رہے گا جو آپ پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوںگے۔
حیات مسیح کے لیے یہ آیت قطعی الدلالۃ ہے کہ وہ قرب قیامت نازل ہوں گے اور جملہ اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔
دوسری آیت یہ ہے:
﴿وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا﴾ (157)
﴿بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا﴾ (النساء: 158-157)
یعنی یہودیوں نے نہ حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل کیا نہ ان کو پھانسی دی، یقینا ایسا نہیں ہوا۔
بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔
اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔
رفع سے مراد رفع مع الجسد ہے یعنی جسم مع روح، اللہ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ وہاں زندہ موجود ہیں۔
یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔
تیسری آیت یہ ہے ﴿إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ﴾ (آل عمران: 55)
یعنی جس وقت کہا اللہ نے، اے عیسیٰ تحقیق لینے والا ہوں میں تجھ کو اور اٹھانے والا ہوں تجھ کو اپنی طرف اور پاک کرنے والا ہوں تجھ کو ان لوگوں سے کہ کافر ہوئے اور کرنے والا ہوں ان لوگوں کو کہ پیروی کریں گے تیری اوپر ان لوگوں کے کہ کافر ہوئے قیامت کے دن تک۔
یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر ؒ کا ہے۔
آگے فائدہ میں لکھتے ہیں کہ یہود کے عالموں نے ا س وقت کے بادشاہ کو بہکایا کہ یہ شخص ملحد ہے تورات کے حکم سے خلاف بتلاتا ہے اس نے لوگ بھیجے کہ ان کو پکڑ لادیں، جب وہ پہنچے حضرت عیسی ؑ کے یار سرک گئے۔
اس شنابی میں حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمان پر اٹھا لیا۔
اور ایک صورت ان کی رہ گئی۔
اس کو پکڑ کر لائے پھر سولی پر چڑھایا۔
توفی کے اصل و حقیقی معنی أخذ الشيئ وافیا کے ہیں جیسا کہ بیضاوی و قسطلانی اور رازی وغیرہم نے لکھا ہے۔
اور موت توفی کے معنی مجازی ہیں نہ حقیقی، اسی واسطے بغیر قیام قرینہ کے موت کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا اور یہاں کوئی قرینہ موت کا قائم نہیں ہے اس لیے اصل و حقیقی معنی یعنی اخذ الشی و افیا مراد لئے جائیں گے۔
اور انسان کا وافیا لینا یہی ہے کہ مع روح و جسم کے لیا جائے۔
وهو المطلوب۔
لہٰذا یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔
چوتھی آیت ﴿وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ﴾ (الزخرف: 61)
اور تحقیق وہ عیسیٰ قیامت کی نشانی ہے۔
پس مت شک کرو ساتھ اس کے اور پیروی کرو میری، یہ ہے راہ سیدھی۔
اس آیت کے ذیل میں تفسیر ابن کثیر میں ہے۔
المراد بذلك نزوله قبل یوم القیامة قال مجاهد و إنه لعلم للساعة أي آیة للساعة خروج عیسیٰ بن مریم قبل یوم القیامة و هکذا روي عن أبي هریرة و ابن عباس و أبي العالیة و أبي ملك و عکرمة و الحسن و قتادة و ضحاك و غیرهم و قد تواترت الأحادیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أنه أخبر بنزول عیسی بن مریم علیه السلام قبل یوم القیامة إماما عدلا و حکما مقسطاً (ابن کثیر)
یعنی یہاں مراد عیسیٰ ؑ ہیں۔
وہ قیامت کے قریب نازل ہوں گے۔
مجاہد نے کہا کہ وہ قیامت کی نشانی ہوں گے۔
یعنی قیامت کی علامت قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ ؑ کا آسمان سے نازل ہونا ہے اور ابوہریرہ ؓ اور ابن عباس ؓ اور ابوالعالیہ اور ابومالک اور عکرمہ اور حسن اور قتادہ اور ضحاک وغیرہ نے بیان فرمایا ہے اور رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں متواتر احادیث صحیحہ موجود ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ قیامت کے قریب امام عادل اور حاکم منصف بن کر نازل ہوں گے۔
آیات قرآنی کے علاوہ ان جملہ احادیث صحیحہ کے لیے دفتر کی ضرورت ہے۔
ان ہی میں سے ایک یہ حدیث بخاری بھی ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔
پس حیات مسیح کا عقیدہ جملہ اہل اسلام کا عقیدہ ہے اور یہ کتاب اللہ و احادیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے جو اس کا انکار کرے وہ قرآن و احادیث کا انکاری ہے۔
ایسے منکروں کے ہفوات پر ہرگز توجہ نہ کرنی چاہئے۔
تفصیل کے لیے بہت سی کتابیں اس موضوع پر موجود ہیں۔
مزید طوالت کی گنجائش نہیں۔
اہل ایمان کے لیے اس قدر بھی کافی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2222   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2222  
2222. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!عنقریب تم میں حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریم نازل ہوں گے۔ اس وقت وہ حاکم منصف ہوں گے۔ صلیب توڑ ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ جزیہ ختم کردیں گے اور مال اس طرح بہے گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2222]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے یہ حدیث کتاب البیوع میں اس لیے ذکر کی ہے کہ جو شے حرام ہو اور اس کی بیع جائز نہ ہواسے مار ڈالنا جائز ہے۔
خنزیر کی بیع کو رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا ہے، اس اعتبار سے اس کا مار ڈالنا جائز ہے۔
لیکن ذمیوں (کافر جو مسلمانوں کی سلطنت میں رہتے ہوں)
کے خنزیر کو مارنا جائز نہیں کیونکہ وہ ان کے نزدیک مال ہے اور ہمیں ان کے مال ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
(2)
سیدنا عیسیٰ ؑ مطلق طور پر خنزیر کو مار ڈالیں گے کیونکہ ان کے زمانے میں کوئی ذمی نہیں ہوگا بلکہ اہل کتاب سب مسلمان ہوجائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ صلیب بھی توڑ ڈالیں گے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
قتل خنزیر سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے دور میں خنزیر کی نسل کشی کا حکم جاری کریں گے، اس میں اس کے کھانے کی حرمت میں مبالغے کا بیان ہے اور عیسائیوں کے لیے سخت وعید ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیروی کے مدعی ہیں لیکن خنزیر کھانا حلال سمجھتے ہیں اور اس کی محبت میں مبالغے کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 522/4)
(3)
متعدد آیات قرآنیہ اور احادیث شریفہ کی بنا پر جملہ اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ ہیں، قرب قیامت کے وقت وہ نازل ہوں گے اور شریعت محمد یہ نافذ کریں گے۔
(4)
مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حلفاً بیان فرمایا ہے کہ وہ ضرور نازل ہوں گے۔
لیکن امین احسن اصلاحی نے اس موقع پر بھی دجل سے کام لے کر لکھا ہے کہ نصارٰی کی یہ روایت ہمارے ہاں بھی آگئی ہے...... قرآن میں کہیں نہیں ہے کہ مسیح ؑ دوبارہ آئیں گے۔
اتنا بڑا عقیدہ قرآن میں ہونا چاہیے تھا، اخبار آحاد پر ہم کوئی عقیدہ قائم نہیں کرسکتے۔
(تدبرحدیث: 509/1)
حضرت اصلاحی نے اس حدیث کی سند پر بھی بحث کی ہے، لکھا ہے کہ اس میں ایک راوی تو ابن شہاب ہیں جن کے متعلق میں اپنی رائے کا اظہار کرتا آرہا ہوں۔
دوسرے راوی سعید بن مسیّب ہیں۔
ان سے مجھے پہلے بڑا حسن ظن رہا ہے کہ مدینہ کے جید علماء میں سے ہیں۔
میں ان کی تعریف کرتا کہ فقہ میں ان کا بڑا مقام ہے لیکن میں نے جب ان کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کی رائے پڑھی تو معلوم ہوا کہ یہ شیعوں کے ساتھ شیعہ اور سنیوں کے ساتھ سنی ہیں تو میں بڑا مایوس ہوا۔
(تدبرحدیث: 507/1)
ہمارے نزدیک اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں جو اس "امام" نے لکھا ہے۔
ہماری معلومات کے مطابق جرح وتعدیل کے کسی امام نے بھی حضرت سعید بن مسیّب کے متعلق ایسا نہیں لکھا۔
عقیدۂ نزول کے متعلق ہم اپنی گزارشات آئندہ کتاب الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم کے تحت بیان کریں گے۔
بإذن الله.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2222   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.