الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
The Book of Gifts and The Superiority of Giving Gifts and The Exhortation for Giving Gifts
27. بَابُ هَدِيَّةِ مَا يُكْرَهُ لُبْسُهَا:
27. باب: ایسے کپڑے کا تحفہ دینا جس کا پہننا مکروہ ہو۔
(27) Chapter. The presenting of a gift of clothes, wearing of which is disliked.
حدیث نمبر: 2612
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: راى عمر بن الخطاب حلة سيراء عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريتها فلبستها يوم الجمعة، وللوفد قال:" إنما يلبسها من لا خلاق له في الآخرة"، ثم جاءت حلل فاعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر منها حلة، وقال: اكسوتنيها، وقلت في حلة عطارد ما قلت؟ فقال: إني لم اكسكها لتلبسها، فكساها عمر اخا له بمكة مشركا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: رَأَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ حُلَّةً سِيَرَاءَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَهَا فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَلِلْوَفْدِ قَالَ:" إِنَّمَا يَلْبَسُهَا مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ"، ثُمَّ جَاءَتْ حُلَلٌ فَأَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ مِنْهَا حُلَّةً، وَقَالَ: أَكَسَوْتَنِيهَا، وَقُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ؟ فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا، فَكَسَاهَا عُمَرُ أَخًا لَهُ بِمَكَّةَ مُشْرِكًا".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے نافع سے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک ریشمی حلہ (فروخت ہو رہا) ہے۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، کہ کیا اچھا ہوتا اگر آپ اسے خرید لیتے اور جمعہ کے دن اور وفود کی ملاقات کے موقع پر اسے زیب تن فرما لیا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا کہ اسے وہی لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ کچھ دنوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں بہت سے (ریشمی) حلے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حلہ ان میں سے عمر رضی اللہ عنہ کو بھی عنایت فرمایا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر عرض کیا کہ آپ یہ مجھے پہننے کے لیے عنایت فرما رہے ہیں۔ حالانکہ آپ خود عطارد کے حلوں کے بارے میں جو کچھ فرمانا تھا فرما چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا ہے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا، جو مکے میں رہتا تھا۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: `Umar bin Al-Khattab saw a silken dress (cloak) being sold at the gate of the Mosque and said, "O Allah's Apostle! Would that you buy it and wear it on Fridays and when the delegates come to you!" Allah's Apostle said, "This is worn by the one who will have no share in the Hereafter." Later on some silk dresses were brought and Allah's Apostle sent one of them to `Umar. `Umar said, "How do you give me this to wear while you said what you said about the dress of 'Utarid?" Allah's Apostle said, "I have not given it to you to wear." So, `Umar gave it to a pagan brother of his in Mecca.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 782


   صحيح البخاري2619عبد الله بن عمررأى عمر حلة على رجل تباع فقال للنبي ابتع هذه الحلة تلبسها يوم الجمعة وإذا جاءك الوفد فقال إنما يلبس هذا من لا خلاق له في الآخرة فأتي رسول الله منها بحلل فأرسل إلى عمر منها بحلة فقال عمر كيف ألبسها وقد قلت فيها ما قلت
   صحيح البخاري948عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له وأرسلت إلي بهذه الجبة
   صحيح البخاري5981عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له
   صحيح البخاري6081عبد الله بن عمريلبس الحرير من لا خلاق له
   صحيح البخاري5841عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له النبي بعث بعد ذلك إلى عمر حلة سيراء حرير كساها إياه فقال عمر كسوتنيها وقد سمعتك تقول فيها ما قلت فقال إنما بعثت إليك لتبيعها أو تكسوها
   صحيح البخاري886عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة
   صحيح البخاري5835عبد الله بن عمريلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة
   صحيح البخاري3054عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له
   صحيح البخاري2612عبد الله بن عمريلبسها من لا خلاق له في الآخرة
   صحيح البخاري2104عبد الله بن عمرلم أرسل بها إليك لتلبسها إنما يلبسها من لا خلاق له
   صحيح مسلم5404عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له أو إنما يلبس هذه من لا خلاق له
   صحيح مسلم5406عبد الله بن عمريلبس هذا من لا خلاق له أهدي إلى رسول الله حلة سيراء فأرسل بها إلي قال قلت أرسلت بها إلي وقد سمعتك قلت فيها ما قلت قال إنما بعثت بها إليك لتستمتع بها
   صحيح مسلم5403عبد الله بن عمريلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة أتي رسول الله بحلل سيراء فبعث إلى عمر بحلة وبعث إلى أسامة بن زيد بحلة وأعطى علي بن أبي طالب حلة وقال شققها خمرا بين نسائك
   صحيح مسلم5401عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر منها حلة
   سنن أبي داود4040عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاء رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة فقال عمر يا رسول الله كسوتنيها وقد قلت في حلة عطارد ما قلت فقال رسول الله إني لم أكسكها لتلبسها فكساها عمر بن الخطاب أخا
   سنن أبي داود1076عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة
   سنن النسائى الصغرى5302عبد الله بن عمررأى عمر مع رجل حلة سندس فأتى بها النبي فقال اشتر هذه
   سنن النسائى الصغرى5308عبد الله بن عمرمن لبس الحرير في الدنيا فلا خلاق له في الآخرة
   سنن النسائى الصغرى1383عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاء رسول الله مثلها فأعطى عمر منها حلة فقال عمر يا رسول الله كسوتنيها وقد قلت في حلة عطارد ما قلت قال رسول الله لم أكسكها لتلبسها
   سنن النسائى الصغرى5301عبد الله بن عمريلبس هذا من لا خلاق له أتي رسول الله بثلاث حلل منها فكسا عمر حلة وكسا عليا حلة وكسا أسامة حلة
   سنن النسائى الصغرى5309عبد الله بن عمريلبس الحرير من لا خلاق له
   سنن النسائى الصغرى1561عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له ثم أرسلت إلي بهذه
   سنن النسائى الصغرى5297عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة أتي رسول الله منها حلل
   سنن ابن ماجه3591عبد الله بن عمريلبس هذا من لا خلاق له في الآخرة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم412عبد الله بن عمرإنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة
   مسندالحميدي696عبد الله بن عمرإني لم أكسكها لتلبسها إنما أعطيتكها لتكسوها النساء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 412  
´مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننا جائز نہیں ہے`
«. . . 252- وبه: أن عمر بن الخطاب رأى حلة سيراء تباع عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل، فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة، فقال عمر: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، كسوتنيها وقد قلت فى حلة عطارد ما قلت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لم أكسكها لتلبسها، فكساها عمر بن الخطاب أخا له مشركا بمكة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی کپڑا بکتے ہوئے دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! اگر آپ اسے خرید لیں تو جمعہ کے دن اور جب آپ کے پاس کوئی وفد آئے تو پہن لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریشم کے کپڑے (مال غنیمت میں) لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کپڑا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے یہ کپڑا دیا ہے حالانکہ آپ نے عطارد کے کپڑے کے بارے میں جو ارشاد فرمایا تھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں یہ کپڑا پہننے کے لئے نہیں دیا۔ پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اپنے مشرک بھائی کو یہ کپڑا پہننے کے لئے دے دیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 412]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 886، 2612، ومسلم 6/2068، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جمعہ، عیدین اور خاص موقعوں پر بہترین نیا یا پاک و صاف لباس پہننا مسنون ہے۔
➋ مردوں کے لئے ریشمی لباس پہننا حرام ہے۔
➌ اگر خیر کی امید ہو تو کفار و مشرکین کو تحائف دینا جائز ہے۔
➍ مسجد کے قریب اور دروازے سے باہر خرید و فروخت جائز ہے۔
➎ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا جب وہ امیر المؤمنین تھے، آپ کے کرتے پر دونوں کندھوں کے درمیان میں ایک دوسرے کے اوپر تین پیوند لگے ہوئے تھے۔ [الموطا 918/1 ح1771، وسنده صحيح]
➏ اس پر اجماع ہے کہ عورتوں کے لئے ریشمی لباس (اور سونا پہننا) حلال ہے۔ [التمهيد 241/14،]
➐ کفار ومشرکین پر شریعتِ اسلامیہ کے عمومی احکامات نافذ نہیں اِلا یہ کہ کسی خاص حکم کی کوئی تخصیص ثابت ہو۔
➑ بعض روایات وآثار سے ثابت ہے کہ اگر مردانہ لباس میں بعض جگہ تھوڑا سا ریشم استعمال کر لیا جائے تو جائز ہے اور اسی طرح سونے کا دانت لگانا بھی جائز ہے۔
➒ اگر کوئی شخص بیمار ہو اور اس کے لئے ریشمی لباس مفید ہو تو استثنائی حکم کی وجہ سے اس کے لئے ریشمی لباس پہننا جائز ہے۔
➓ حافظ ابن عبدالبر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ غیرمسلموں کو (جو اسلام کے دشمن ہیں) فرض زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اور باقی صدقات مثلاً صدقۂ فطر، کفارہ قسم اور کفارۂ ظہار بھی اسی حکم میں ہیں جبکہ نفلی صدقات دینا جائز ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 14/263]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 252   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1076  
´جمعہ کے لباس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا بکتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش! آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جس دن آپ کے پاس باہر کے وفود آئیں، اسے پہنا کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے تو صرف وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی قسم کے کچھ جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تو عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ کپڑا مجھے پہننے کو دیا ہے؟ حالانکہ عطارد کے جوڑے کے سلسلہ میں آپ ایسا ایسا کہہ چکے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ جوڑا اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم پہنو، چنانچہ عمر نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا پہننے کے لیے دے دیا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1076]
1076۔ اردو حاشیہ:
➊ جمعہ، عید اور خاص مواقع پر عمدہ لباس کا اہتمام مسنون و مستحب ہے۔
➋ ریشمی لباس مردوں کے لئے حرام مگر عورتوں کے لئے مباح ہے جیسے کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔
➌ کافر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک اسلامی اخلاق و آداب کا حصہ ہے نیز ان کوتحفہ یا ہدیہ دینا بھی جائز ہے۔ جبکہ دینی قلبی محبت اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان ہی کا حق ہے۔
➍ ریشم فی نفسہ جائز اور حلال ہے یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لئے اس کا استعمال بھی درست ہے۔ مردوں کے لئے حرمت کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جو صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی وارد ہے۔ دیکھیے: [صحيح بخاري۔ حديث: 886، وصحيح مسلم، حديث: 2068]
یہ حدیث قرآن مقدس کی اس آیت کی مخصص ہے۔ جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: «قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِه» [الأعراف: 32]
اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! کہہ دیجیے جو زینت اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں وہ کس نے حرام کی ہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ صحیح حدیث سے عموم قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہے۔ «والله أعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1076   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3591  
´ریشمی کپڑے پہننے کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ریشم کا ایک سرخ جوڑا دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس جوڑے کو وفود سے ملنے کے لیے اور جمعہ کے دن پہننے کے لیے خرید لیتے تو اچھا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3591]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (حله)
ایک طرح کے دو کپڑوں کو کہتے ہیں ایک جسم کے اوپر کے حصے پر پہننے یا اوڑھنے کے لیے دوسرا جسم کے زیریں حصے پر پہننے کے لیے جیسے تہ بند وغیرہ اس لئے اس کا ترجمہ جوڑا کیا گیا ہے۔

(2)
جمعہ اور عید وغیرہ کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحب ہے اس لئے حضرت عمر ؓ نے مشورہ دیا۔

(3)
مہمانوں کے استقبال کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحسن ہے۔

(4)
صحابہ کرام ؓ نبی ﷺسے بہت محبت رکھتے تھے اس لئے آپﷺ کے لئے عمدہ چیزیں پسند کرتے تھے۔

(5)
کوئی شخص خلوص اور محبت سے مشورہ دے اور وہ مشورہ درست نہ ہو تو سختی سے رد کرنے کے بجائے اس کی غلطی وضح کر دی جائے تاکہ اسے رنج نہ ہو اور آئندہ اس غلطی سے بچ سکے۔

(6)
آخرت میں حصہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لبال کافر پہنتے ہیں جنہیں آخرت میں کوئی بھلائی نصیب نہیں ہوگی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3591   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2612  
2612. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھاتو عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہی اچھا ہو اگرآپ اسےخرید لیں اور جمعے کے دن، نیز کسی وفد کی آمد کے موقع پر اسے زیب تن فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ایسے جوڑے تو وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ پھر کچھ اور جوڑے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ یہ خلعت مجھے عنائیت فرما رہے ہیں، حالانکہ آپ نے حلہ عطارد کے متعلق تو جو کچھ فرماناتھا، فرماچکے ہیں۔ (یعنی آپ نے ان کے متعلق تو بہت سخت وعید سنائی تھی۔)آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے یہ خلعت تمھیں پہننے کے لیے نہیں دی۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں رہتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2612]
حدیث حاشیہ:
عطارد بن حاجب بن زرارہ بن عدس بنی تمیم کا بھیجا ہوا ایک شخص تھا۔
پہلا جوڑا جس کے خریدنے کی حضرت عمر ؓ نے رائے دی تھی، وہی لایا تھا۔
آنحضرت ﷺ نے ریشمی حلے کا ہدیہ حضرت عمر ؓ کو پیش فرمایا جس کا خود استعمال کرنا حضرت عمر ؓ کے لیے جائز نہ تھا۔
تفصیل معلوم کرنے کے بعد حضرت عمر ؓ نے وہ حلہ اپنے ایک غیرمسلم سگے بھائی کو دے دیا۔
اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا اور یہ بھی کہ اپنے عزیز اگر غیرمسلم یا بد دین ہیں تب بھی ان کے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک کرنا چاہئے کیوں کہ یہ انسانیت کا تقاضا ہے۔
اور مقام انسانیت بہر حال ارفع و اعلیٰ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2612   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2612  
2612. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھاتو عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہی اچھا ہو اگرآپ اسےخرید لیں اور جمعے کے دن، نیز کسی وفد کی آمد کے موقع پر اسے زیب تن فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ایسے جوڑے تو وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ پھر کچھ اور جوڑے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ یہ خلعت مجھے عنائیت فرما رہے ہیں، حالانکہ آپ نے حلہ عطارد کے متعلق تو جو کچھ فرماناتھا، فرماچکے ہیں۔ (یعنی آپ نے ان کے متعلق تو بہت سخت وعید سنائی تھی۔)آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے یہ خلعت تمھیں پہننے کے لیے نہیں دی۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں رہتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2612]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض چیزیں ذاتی طور پر مکروہ ہوتی ہیں، مثلاً:
سڑا ہوا یا باسی سالن وغیرہ، ایسی اشیاء کا تحفہ تو حماقت ہے اور کچھ چیزوں میں کراہت اضافی ہوتی ہے، مثلاً:
ریشمی لباس، یہ مردوں کے لیے جائز نہیں، البتہ عورتیں اسے پہن سکتی ہیں۔
ایسی اشیاء بطور تحفہ دی جا سکتی ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
کراہت سے مراد عام ہے، خواہ تحریمی ہو یا تنزیہی، یعنی جس لباس کا پہننا مردوں کے لیے ناجائز ہو اس کا ہدیہ جائز ہے کیونکہ اس کا مالک اس میں تصرف کر سکتا ہے، البتہ جن چیزوں کا استعمال مردوں اور عورتوں کے لیے منع ہے، مثلاً:
سونے چاندی کے برتن تو ایسا ہدیہ ممنوع ہے۔
(فتح الباري: 281/5) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق ان برتنوں کا استعمال ممنوع ہے، البتہ انہیں فروخت کر کے ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، لہذا ایسی چیز کا تحفہ دیا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے مشرک بھائی کو مکے میں تحفہ بھیجا تھا، البتہ جو چیزیں ذاتی طور پر حرام ہیں ان کا تحفہ بھی حرام ہے جیسا کہ آلات موسیقی کا تحفہ وغیرہ۔
اس سے معلوم ہوا کہ شادی بیاہ کے موقع پر ٹی وی کا تحفہ بھی ناجائز ہے جو ہم اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دیتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2612   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.