الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
The Book of Witnesses
27. بَابُ مَنْ أَقَامَ الْبَيِّنَةَ بَعْدَ الْيَمِينِ:
27. باب: جس مدعی نے (مدعیٰ علیہ کی) قسم کھا لینے کے بعد گواہ پیش کیے۔
(27) Chapter. Whoever produces the proof after (the defendant) has taken the oath.
حدیث نمبر: Q2680
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال النبي صلى الله عليه وسلم: لعل بعضكم الحن بحجته من بعض، وقال طاوس، وإبراهيم، وشريح: البينة العادلة احق من اليمين الفاجرة.وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، وَقَالَ طَاوُسٌ، وَإِبْرَاهِيمُ، وَشُرَيْحٌ: الْبَيِّنَةُ الْعَادِلَةُ أَحَقُّ مِنَ الْيَمِينِ الْفَاجِرَةِ.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ (مدعی اور مدعیٰ علیہ میں کوئی) ایک دوسرے سے بہتر طریقہ پر اپنا مقدمہ پیش کر سکتا ہو۔ طاؤس، ابراہیم اور شریح رحمۃ اللہ علیہم نے کہا کہ عادل گواہ جھوٹی قسم کے مقابلے میں قبول کیے جانے کا زیادہ مستحق ہے۔

حدیث نمبر: 2680
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب، عن ام سلمة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم الحن بحجته من بعض، فمن قضيت له بحق اخيه شيئا بقوله فإنما اقطع له قطعة من النار، فلا ياخذها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا بِقَوْلِهِ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ، فَلَا يَأْخُذْهَا".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا امام مالک سے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ نے، ان سے زینب نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ میرے یہاں اپنے مقدمات لاتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تم میں دوسرے سے دلیل بیان کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے (قوت بیانیہ بڑھ کر رکھتا ہے) پھر میں اس کو اگر اس کے بھائی کا حق (غلطی سے) دلا دوں، تو وہ حلال (نہ سمجھے) اس کو نہ لے، میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں۔

Narrated Um Salama: Once Allah's Apostle said, "You people present your cases to me and some of you may be more eloquent and persuasive in presenting their argument. So, if I give some one's right to another (wrongly) because of the latter's (tricky) presentation of the case, I am really giving him a piece of fire; so he should not take it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 845


   صحيح البخاري6967زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض وأقضي له على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذ فإنما أقطع له قطعة من النار
   صحيح البخاري2458زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صدق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو فليتركها
   صحيح البخاري7185زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضا أن يكون أبلغ من بعض أقضي له بذلك وأحسب أنه صادق فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو ليدعها
   صحيح البخاري7181زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صادق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو ليتركها
   صحيح البخاري2680زينب بنت عبد اللهإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فمن قضيت له بحق أخيه شيئا بقوله فإنما أقطع له قطعة من النار فلا يأخذها
   صحيح البخاري7169زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له قطعة من النار
   صحيح مسلم4473زينب بنت عبد اللهإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو مما أسمع منه فمن قطعت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له به قطعة من النار
   صحيح مسلم4475زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضهم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صادق فأقضي له فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليحملها أو يذرها
   جامع الترمذي1339زينب بنت عبد اللهأنا بشر ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فإن قضيت لأحد منكم بشيء من حق أخيه فإنما أقطع له قطعة من النار فلا يأخذ منه شيئا
   سنن النسائى الصغرى5403زينب بنت عبد اللهتختصمون إلي وإنما أنا بشر ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطعه به قطعة من النار
   سنن النسائى الصغرى5424زينب بنت عبد اللهتختصمون إلي وإنما أنا بشر ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فإنما أقضي بينكما على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار
   سنن ابن ماجه2317زينب بنت عبد اللهأنا بشر ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض وإنما أقضي بينكم على نحو مما أسمع منكم فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له قطعة من النار يأتي بها يوم القيامة
   بلوغ المرام1194زينب بنت عبد الله إنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قطعت له من حق أخيه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار
   مسندالحميدي298زينب بنت عبد اللهإنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأيكم قضيت له من حق أخيه بشيء فلا يأخذ به؛ فإنما أقطع له به قطعة من النار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 627  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر البشر`
«. . . 478- وبه: عن أم سلمة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلى ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قضيت له بشيء من حق أخيه فلا يأخذ منه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار. . . .»
. . . سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو ایک بشر ہوں اور تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے کہ بعض آدمی دوسرے کی بہ نسبت اچھے طریقے سے اپنی دلیل بیان کرنے والے ہوں تو میں جیسے سنوں اس کے مطابق ان کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ پس (ایسی صورت میں اگر) میں نے جس شخص کے بارے میں اس کے بھائی کے حق میں سے فیصلہ کر دیا تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے کیونکہ میں اس کے حوالے آگ کا ایک ٹکڑا کر رہا ہوں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 627]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2680، من حديث مالك، ومسلم 4 / 1713، من حديث هشام بن عروة به]

تفقه:
➊ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر بلکہ خیر البشر ہونے کے ساتھ نورِ ہدایت اور سید وُلدِ آدم بنا کر بھیجا۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے۔
➌ تمام جھگڑوں کا فیصلہ کتاب وسنت اور اجماع کی روشنی میں کرنا چاہئے۔
➍ قاضی کے فیصلے کا دار ومدار گواہوں کی گواہیوں پر ہوتا ہے، اسی لئے جھوٹی گواہی کے بارے میں شدید وعید وارد ہوئی ہے۔
➎ مسلمان بھائی کی حق تلفی کرنا کبیرہ گناہ ہے بلکہ کافروں کی حق تلفی کرنا بھی جائز نہیں ہے جیسا کہ دوسرے عمومی دلائل سے ثابت ہے۔
➏ حافظ ابن عبدالبر نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ انسان غیب نہیں جانتے۔۔۔ اور انبیاء صرف اسی غیب میں سے جانتے تھے جو انھیں بذریعہ وحی سکھایا جاتا تھا۔ دیکھئے: [التمهيد 22 / 216]
➐ شرعی احکام ظواہر پر جاری ہوتے ہیں اِلا یہ کہ تخصیص کی کوئی صریح دلیل آجائے۔
➑ بعض لوگ چرب زبانی کی وجہ سے بعض اوقات باطل بات بھی منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اس عارضی کامیابی کے باوجود عند اللہ مجرم ہی رہتے ہیں۔
➒ قاضی کا فیصلہ ظاہراً نافذ ہو گا تاہم اس کے فیصلے سے چیز کی حقیقت نہیں بدلتی اور غاصب مالک نہیں بن جاتا۔
➓ اجتہاد کرنا جائز ہے۔ مزید تفقہ اور فوائد کے لئے دیکھئے: [التمهيد 22 / 222]
تنبیہ:
اس حدیث سے اور بھی بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں مثلاً مشکوک اور حرام کاموں سے بچنا چاہئے۔ حرام اور مشکوک مال کو استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ صرف رزقِ حلال کھانا چاہئے۔ قاضی کے فیصلے سے حقیقت نہیں بدلتی، اس سے ناجائز جائز نہیں بن جاتا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 478   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2317  
´حاکم کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس جھگڑے اور اختلافات لاتے ہو اور میں تو ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو، اور میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جو تم سے سنتا ہوں، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں تو وہ اس کو نہ لے، اس لیے کہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں جس کو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2317]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
قاضی کو فریقین کے دلائل گواہوں کی گواہی اور دیگر قرائن کی روشنی میں صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس کے باوجود اگر اس سے غلط فیصلہ ہو گیا تو اسے گناہ نہیں ہوگا۔

(2)
  اگر ایک شخص کو معلوم ہے کہ اس معاملے میں میرا موقف درست نہیں لیکن قاضی اس کے حق میں فیصلے دے دیتا ہے تو اس سے اصل حقیقت میں فرق نہیں پڑتا لہٰذا اس کے لیے وہ چیز لینا جائز نہیں جسے قاضی اس کی قرار دے چکا ہے۔

(3)
  اس حدیث کی روشنی میں علمائے کرام نے یہ اصول بیان فرمایا ہے:
قاضی کا فیصلہ ظاہراً نافذ ہوتا ہے باطناً نہیں۔
اس کا یہی مطلب ہے کہ قاضی کے فیصلے سے کسی دوسرے کی چیز حلال نہیں ہو جاتی مثلاً اگر جھوٹے گواہوں کی مدد سے یہ فیصلہ لے لیا جائے کہ فلاں عورت کا نکاح ہو چکا ہے تو مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہو گا۔
اگر وہ ایسا کرے گا تو زنا کا مرتکب ہو گا اور قیامت والے دن اسے اس کی سزا ملے گی۔
اس طرح اگر قاضی یہ فیصلہ کر دے کہ فلاں عورت کو طلاق ہو چکی ہے جبکہ حقیقت میں مرد نے طلاق نہ دی ہو تو مرد اپنی اس بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم رکھنے پر اللہ کے ہاں مجرم نہیں ہو گا۔

(4)
  نبی اکرم ﷺ کو علم غیب حاصل نہیں تھا البتہ بعض معاملات میں وحی کے ذریعے سے آپ کو خبر دے دی جاتی تھی۔

(5)
  ناجائز طور پر حاصل کیا ہوا مال قیامت کے دن سزا کا باعث بھی ہو گا اور رسوائی کا سبب بھی، جب مجرم سب لوگوں کےسامنے اپنے جرم کے ثبوت سمیت موجود ہو گا اور اسے اس کے مطابق سرعام سزا ملے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2317   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1194  
´(قضاء کے متعلق احادیث)`
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تم لوگ اپنے جھگڑے میرے پاس لے کر آتے ہو اور تم میں سے بعض اپنے دلائل بڑی خوبی و چرب زبانی سے بیان کرتا ہے تو میں نے جو کچھ سنا ہوتا ہے اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں۔ پس جسے اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دوں تو میں اس کے لئے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1194»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب موعظة الإمام للخصوم، حديث:7169، ومسلم، الأقضية، باب الحكم بالظاهر واللحن بالحجة، حديث:1713.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ ظاہر بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے۔
2. حاکم کا فیصلہ کسی چیز کی حقیقت میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتا ہے نہ کسی معاملے کو بدل سکتا ہے‘ یعنی نہ حرام کو حلال کر سکتا ہے اور نہ حلال کو حرام۔
جمہور کا یہی موقف ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہو جاتا ہے‘ مثلاً: ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ خاتون اجنبی ہے تو وہ اس مرد کے لیے حلال ہو جائے گی۔
لیکن اس قول کی قباحت اور اس کا باطل ہونا کسی پر مخفی نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1339  
´قاضی کے فیصلے کی بنا پر دوسرے کا مال لینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہو میں ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو ۱؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوا دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، لہٰذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1339]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہے۔

2؎:
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے،
حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا،
اورنفس الامر میں نہ حرام کو حلال کرسکتا ہے اور نہ حلال کو حرام،
جمہورکی یہی رائے ہے،
لیکن امام ابوحنیفہ ؒ کا کہنا ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہوجاتا ہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیادپر فیصلہ دے دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک وہ اس مرد کے لیے حلال ہوجائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1339   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2680  
2680. حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ایسا ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ ہوشیار ہو اور اس کے کہنے کے مطابق میں اس کے بھائی کا حق اسے دے دوں تو میں نے اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ نہ لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2680]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں امام مالک، شافعی، امام احمد اور جمہور علماء کا مذہب ثابت ہوا کہ قاضی کا حکم ظاہراً نافذ ہوتا ہے نہ کہ باطناً، یعنی قاضی اگر غلطی سے کوئی فیصلہ کردے تو جس کے موافق فیصلہ کرے عنداللہ اس کے لیے وہ شے درست ہوگی اور حنفیہ کا رد ہوا جن کے نزدیک قاضی کی قضا ظاہراً اور باطناً دونوں طرح نافذ ہوجاتی ہیں۔
حدیث سے بھی یہی نکلا کہ پیغمبر صاحب ﷺ کو بھی دھوکہ ہوجانا ممکن تھا اور آپ کو علم غیب نہ تھا اور جب آپ سے جو سارے جہاں سے افضل تھے۔
غلطی ہوجانا ممکن ہوا تو اور کسی قاضی یا مجتہد یا امام یا عالم کی کیا حقیقت اور کیا ہستی ہے اوربڑا بے وقوف ہے وہ شخص جو کسی مجتہد یا پیر کو خطا سے معصوم سمجھے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2680   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2680  
2680. حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ایسا ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ ہوشیار ہو اور اس کے کہنے کے مطابق میں اس کے بھائی کا حق اسے دے دوں تو میں نے اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ نہ لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2680]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قاضی کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔
اس میں معاملات و عقود برابر ہیں۔
اس پر سب علماء کا اتفاق ہے، لہذا اگر دو جھوٹے گواہ کسی شخص کے لیے مال کی گواہی دیں اور قاضی بظاہر ان کی سچائی پر فیصلہ کر دے تو جس کے لیے مال کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کے لیے وہ مال حلال نہیں ہو گا۔
اسی طرح اگر جھوٹے گواہ کسی پر قتل کی گواہی دیں تو مقتول کے وارث کے لیے جائز نہیں کہ اس سے قصاص لے جبکہ اسے گواہوں کے جھوٹے ہونے کا علم ہو۔
(2)
علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں:
حدیث میں موجود صورت حال اس وقت متصور ہو گی کہ قسم اٹھانے کے بعد گواہ پیش کیے جائیں۔
شارح بخاری ابن منیر ؒ نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے لیے حلال یا اپنا حق اس پر ثابت نہیں کر سکتا۔
وہ چیز قسم اٹھانے کے بعد بھی اس پر حرام رہے گی۔
قسم اٹھانے سے پہلے اور بعد دونوں حالتوں میں وہ چیز حق دار کی ہے اگر وہ گواہی لے آئے۔
(فتح الباري: 355/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2680   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.