الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
178. بَابُ كَيْفَ يُعْرَضُ الإِسْلاَمُ عَلَى الصَّبِيِّ:
178. باب: بچے پر اسلام کس طرح پیش کیا جائے۔
(178) Chapter. How to present Islam to a (non-Muslim) boy.
حدیث نمبر: 3057
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع ، موقوف) وقال سالم: قال: ابن عمر، ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم في الناس فاثنى على الله بما هو اهله ثم ذكر الدجال، فقال:" إني انذركموه وما من نبي إلا قد انذره قومه لقد انذره نوح قومه، ولكن ساقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه تعلمون انه اعور وان الله ليس باعور".(مرفوع ، موقوف) وَقَالَ سَالِمٌ: قَالَ: ابْنُ عُمَرَ، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ:" إِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا قَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ، وَلَكِنْ سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ".
سالم نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا ‘ آپ نے اللہ تعالیٰ کی ثناء بیان کی ‘ جو اس کی شان کے لائق تھی۔ پھر دجال کا ذکر فرمایا ‘ اور فرمایا کہ میں بھی تمہیں اس کے (فتنوں سے) ڈراتا ہوں ‘ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس کے فتنوں سے نہ ڈرایا ہو ‘ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا لیکن میں اس کے بارے میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی ‘ اور وہ بات یہ ہے کہ دجال کانا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے۔

Then the Prophet got up amongst the people, glorifying Allah as He deserves, he mentioned Ad-Dajjal, saying, "I warn you about him (i.e. Ad-Dajjal) and there is no prophet who did not warn his nation about him, and Noah warned his nation about him, but I tell you a statement which no prophet informed his nation of. You should understand that he is a one-eyed man and Allah is not one-eyed."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 290


   صحيح البخاري7127عبد الله بن عمرأنذركموه وما من نبي إلا وقد أنذره قومه ولكني سأقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه إنه أعور وإن الله ليس بأعور
   صحيح البخاري7123عبد الله بن عمرأعور عين اليمنى كأنها عنبة طافية
   صحيح البخاري3057عبد الله بن عمرأنذركموه وما من نبي إلا قد أنذره قومه لقد أنذره نوح قومه ولكن سأقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه تعلمون أنه أعور وأن الله ليس بأعور
   صحيح البخاري7407عبد الله بن عمرالله لا يخفى عليكم إن الله ليس بأعور وأشار بيده إلى عينه وإن المسيح الدجال أعور العين اليمنى كأن عينه عنبة طافية
   صحيح البخاري3337عبد الله بن عمرأعور وأن الله ليس بأعور
   صحيح البخاري4402عبد الله بن عمرربكم ليس بأعور وإنه أعور عين اليمنى كأن عينه عنبة طافية
   صحيح البخاري3439عبد الله بن عمرالله ليس بأعور ألا إن المسيح الدجال أعور العين اليمنى كأن عينه عنبة طافية وأراني الليلة عند الكعبة في المنام فإذا رجل آدم كأحسن ما يرى من أدم الرجال تضرب لمته بين منكبيه رجل الشعر يقطر رأسه ماء واضعا يديه على منكبي رجلين وهو يطوف بالبيت فقلت من هذا فق
   صحيح مسلم426عبد الله بن عمرالله تبارك و ليس بأعور ألا إن المسيح الدجال أعور عين اليمنى كأن عينه عنبة طافية قال وقال رسول الله أراني الليلة في المنام عند الكعبة فإذا رجل آدم كأحسن ما ترى من أدم الرجال تضرب لمته بين منكبيه رجل الشعر يقطر رأسه ماء واضعا يد
   صحيح مسلم7361عبد الله بن عمرالله ليس بأعور ألا وإن المسيح الدجال أعور العين اليمنى كأن عينه عنبة طافئة
   جامع الترمذي2235عبد الله بن عمرأنذركموه وما من نبي إلا وقد أنذر قومه ولقد أنذره نوح قومه ولكني سأقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه تعلمون أنه أعور وإن الله ليس بأعور
   سنن أبي داود4757عبد الله بن عمرأنذركموه وما من نبي إلا قد أنذره قومه لقد أنذره نوح قومه ولكني سأقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه تعلمون أنه أعور وأن الله ليس بأعور
   المعجم الصغير للطبراني788عبد الله بن عمراستقبل مطلع الشمس فقال من ها هنا يطلع قرن الشيطان ومن ها هنا الزلازل والفتن والفدادون وغلظ القلوب
   صحيح البخاري3440عبد الله بن عمرثم رايت رجلا وراءه جعدا قططا اعور العين اليمنى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ ابن الحسن محمدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3440  
´سیدنا عیسیٰ بن مریم آسمان پر زندہ ہیں`
«. . . مَنْ هَذَا، فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ . . .»
. . . میں نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3440]

فوائد و مسائل:
سیدنا عیسیٰ بن مریم آسمان پر زندہ ہیں اور قرب قیامت جسد عنصری کے ساتھ آسمان سے زمین پر اتریں گے، یہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے۔ اس پر متواتر احادیث اور ائمہ مسلیمن کی تصریحات موجود ہیں:
اہل علم کی تصریحات
اب نزول عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں کچھ اہل علم کی تصریحات بھی ملاحظہ فرمائیں:
◈ حافظ عبدالرحمٰن بن احمد، ابن رجب رحمہ اللہ (736۔ 795ھ) فرماتے ہیں:
«وبالشام ينزل عيسى ابن مريم فى آخر الزمان، وهو المبشر بمحمد صلى الله عليه وسلم، ويحكم به، ولا يقبل من أحد غير دينه، فيكسر الصليب، ويقتل الخنزير ويضع الجزية، ويصلي خلف إمام المسلمين، ويقول: إن هذه الأمة أئمة بعضهم لبعض .»
قرب قیامت شام میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان ہی کے نزول کی خوشخبری دی گئی ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہی فیصلے کریں گے، کسی سے اسلام کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے اور مسلمانوں کے امام کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے اور فرمائیں گے: اس امت کے بعض افراد ہی ان کے لیے امام ہیں۔ [لطائف المعارف، ص: 90]

◈ امام، ابوالحسن، علی بن اسماعیل، اشعری رحمہ اللہ (260۔ 324ھ) اہل سنت والجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ويصدقون بخروج الدجال، وان عيسى ابن مريم يقتله .»
اہل سنت دجال کے خروج اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے اسے قتل کرنے کی تصدیق کرتے ہیں۔
آگے چل کر لکھتے ہیں:
«وبكل ما ذكرنا من قولهم نقول، واليه نذهب .»
اہل سنت کے جو اقوال ہم نے ذکر کیے ہیں، ہم بھی انہی کے مطابق کہتے ہیں اور یہی ہمارا مذہب ہیں۔ [مقالات الاسلاميّين واختلاف المصلين: 1/ 324]

◈ امام، ابومظفر، منصور بن محمد، سمعانی رحمه الله (426-489ھ) فرماتے ہیں:
«وقال عليه الصلاة والسلام: رايت المسيح ابن مريم يطوف بالبيت .» [صحيح بخاري: 3440، صحيح مسلم: 169] «فدل على ان الصحيح انه فى الاحياء»
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے (خواب میں) مسیح ابن مریم کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري: 3440، صحيح مسلم: 169] اس سے معلوم ہوا کہ صحیح بات یہی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ [تفسير السمعاني: 325/1]

◈ شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773۔ 852ھ) فرماتے ہیں:
«ان عيسي قد رفع، وهو حي على الصحيح»
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا لیا گیا تھا اور صحیح قول کے مطابق وہ زندہ ہیں۔ [فتح الباري شرح صحيح البخاري: 375/6]

◈ شارح صحیح بخاری، علامہ، محمود بن احمد، عینی حنفی (762۔ 855ھ) لکھتے ہیں:
«ولا شك ان عيسي فى السماء، وهو حي، ويفعل الله فى خلقه ما يشاء .»
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عیسٰی علیہ السلام آسمان میں ہیں اور زندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو چاہے کرتا ہے۔ [عمدة القاري: 24/ 160]

◈ حافظ، ابوفدا، اسماعیل بن عمر، ابن کثیر رحمہ اللہ (700۔ 774ھ) فرماتے ہیں:
«وهذا هو المقصود من السياق الإخبار بحياته الآن فى السماء، وليس الأمر كما يزعمه أهل الكتاب الجهلة أنهم صلبوه، بل رفعه الله إليه، ثم ينزل من السماء قبل يوم القيامة، كما دلت عليه الاحاديث المتواترة .»
حدیث کے سیاق سے یہ خبر دینا مقصود ہے کہ اب عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ ہیں۔ جاہل اہل کتاب جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے دی تھی، تو ایسا بالکل نہیں ہوا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اوپر اٹھا لیا تھا۔ قیامت سے پہلے آپ آسمان سے تریں گے، جیسا کہ متواتر احادیث بتاتی ہیں۔ [البداية والنهاية: 19/ 218، طبعة دار هجر]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 72، حدیث\صفحہ نمبر: 22   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3439  
´دجال داہنی آنکھ سے کانا ہو گا`
«. . . قَالَ عَبْدُ اللَّهِ " ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَيْنَ ظَهْرَيِ النَّاسِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ أَلَا إِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ . . .»
. . . عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے، لیکن دجال داہنی آنکھ سے کانا ہو گا، اس کی آنکھ اٹھے ہوئے انگور کی طرح ہو گی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/بَابُ: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا : 3439]

تخريج الحديث:
[107۔ البخاري فى: 60 كتاب الأنبياء: 48 باب واذكر فى الكتاب مريم 3439۔ مسلم 169]
لغوی توضیح:
«عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ» اٹھے ہوئے یا پھولے ہوئے انگور کے دانے کی مانند۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 107   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3440  
´مسیح ابن مریم علیہ السلام`
«. . . وَأَرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فِي الْمَنَامِ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ كَأَحْسَنِ مَا يُرَى مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ تَضْرِبُ لِمَّتُهُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ رَجِلُ الشَّعَرِ يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا، فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ . . .»
. . . ‏‏‏‏ اور میں نے رات کعبہ کے پاس خواب میں ایک گندمی رنگ کے آدمی کو دیکھا جو گندمی رنگ کے آدمیوں میں شکل کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین و جمیل تھا۔ اس کے سر کے بال شانوں تک لٹک رہے تھے، سر سے پانی ٹپک رہا تھا اور دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے شانوں پر رکھے ہوئے وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/بَابُ: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا: 3440]

تخريج الحديث:
[108۔ البخاري فى: 60 كتاب الأنبياء: 48 باب واذكر فى الكتاب مريم 3440]
لغوی توضیح:
«لِمَّة» وہ بال جو کانوں کی لو سے تجاوز کر جائیں لیکن کندھوں تک نہ پہنچیں۔ اور جب کندھوں تک پہنچ جائیں تو انہیں «جمّه» کہا جاتا ہے۔
«قَطِطًا» سخت گھنگھریالے بال۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 108   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2235  
´دجال کی نشانیوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی شان کے لائق اس کی تعریف کی پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا: میں تمہیں دجال سے ڈرا رہا ہوں اور تمام نبیوں نے اس سے اپنی قوم کو ڈرایا ہے، نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے، لیکن میں اس کے بارے میں تم سے ایک ایسی بات کہہ رہا ہوں جسے کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی، تم لوگ اچھی طرح جان لو گے کہ وہ کانا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں، زہری کہتے ہیں: ہمیں عمر بن ثابت انصاری نے خبر دی کہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے بت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2235]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی دجال دنیا میں ربوبیت کا دعویدار ہوگا اور ساتھ ہی کانا بھی ہوگا،
جب کہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ کو کوئی مرنے سے قبل دنیا میں نہیں دیکھ سکتا،
وہ ہر عیب سے پاک ہے،
دجال کے کفر سے وہی لوگ آگاہ ہوں گے جو اس کے عمل سے بیزار ہوں گے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2235   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4757  
´خوارج کے قتل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ کی لائق شان حمد و ثنا بیان فرمائی، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا: میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں، کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا نہ ہو، نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا، لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایسی بات بتا رہا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی: وہ کانا ہو گا اور اللہ کانا نہیں ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4757]
فوائد ومسائل:
دجال کا لفظ دجل سے اسم مبالغہ ہے اور معنی ہیں قیامت سے پہلے ایک شخص ظاہر ہو گا جو مختلف شعبدہ بازیوں سے لوگوں کے ایمان پر حملہ آور ہو گا اور اپنی الوہیت کا دعوی کرے گا۔
اس کا یہ فتنہ سب فتنوں سے بڑھ کر ہو گا۔
اس کی ظاہر علامات اور اس کے اعمال کا بیان احادیثکی سب کتب میں موجود ہے۔
آخر میں اس کا قتل سید نا حضرت عیسی ؑکے ہاتھوں سے ہو گا۔

1: دجال کا سب سے بڑا دجل اور فتنہ مختلف شعبدے دکھا کر اپنی الوہیت کا اقرارکرانا ہو گا۔

2: اللہ عزوجل صفت عین (آنکھ) سے وصوف ہے اور اس کی آنکھیں ہیں اور دجال کا عیب یہ بتایا گیا ہے کہ وہ داہنی آنکھ سے کانا ہو گا۔
وصف باری تعالی کی بابت قرآن مجید میں ہے: اللہ کے حکم کے مطابق صبر کیجیے۔
بلا شبہ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اللہ عزوجل کی تمام صفات پر ہم اہل السنتہ والجماعتہ کا ایمان ہے، ہم ان کو کوئی تاویل نہیں کرتے۔
ہم نہ ان کو معطل سمجھتے ہیں نہ انکار کرتے ہیں اور نہ تشبیہ دیتے ہیں، بلکہ یہ ویسی ہی ہیں جیسی اس کی ذات والاشان کے لائق ہیں ان کی حقیقت کی ٹوہ میں لگنا اور ان کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔
اس لیے کہ ہماری عقل اور ادارک اس کو پا ہی نہیں سکتے۔
ٹوہ لگانے سے محض پر یشان خیالی پیدا ہو گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4757   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3057  
3057. حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہو گئے اور اللہ کی شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں دجال سے خبردارکرتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے۔ حضرت نوح ؑ نے بھی اپنی قوم کو اس کے فتنے سے آگاہ کیا تھا مگر میں تمھیں ایک ایسی نشانی بتلاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتلائی۔ تمھیں علم ہونا چاہیے کہ دجال کانا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ یک چشم (کانا)نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3057]
حدیث حاشیہ:
:
ترجمۃ الباب الفاظ اتشهد أني رسول اللہ سے نکلتا ہے کہ بچے کے سامنے اسلام میں طرح پیش کیا جائے‘ آنحضرتﷺ کو ابن صیاد سے چند باتیں دریافت کرنا منظور تھیں‘ آپ نے خیال کیا کہ اگر میں یہ کہہ دوں کہ تو جھوٹا ہے رسول کہاں سے ہوا‘ تو شاید وہ چڑ جائے اور ہمارا مقصد پورا نہ ہو‘ اس لئے ایسا جامع جواب دیا کہ ابن صیاد چڑا بھی نہیں اور اس کی پیغمبری کا انکار بھی نکل آیا۔
آنحضرتﷺ نے آیت ﴿یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ﴾ (الدخان: 10)
کا تصور فرمایا تھا‘ ابن صیاد نے دخان کے لفظ سے صرف دخ بتلایا جیسے شیطانوں کی عادت ہوتی ہے۔
سنی سنائی ایک آدھ بات لے مرتے ہیں۔
آنحضرتﷺ نے حقیقی دجال کے بارے میں بتلایا کہ وہ کانا ہو گا‘ یہ بڑے دجال کا ذکر ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ میری امت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے‘ جو نبوت کا دعویٰ کریں گے۔
یہ دجال امت میں پیدا ہو چکے ہیں۔
ہندوستان پنجاب میں بھی ایک شخص نبوت کا مدعی بن کر کھڑا ہوا۔
جس نے ایک کثیر مخلوق کو گمراہ کر دیا اور اب تک اس کے مریدین ساری دنیا میں دجل پھیلانے میں مشغول ہیں جو بظاہر اسلام کا نام لیتے ہیں اور در پردہ اپنے فرضی نام نہاد رسول نبی کی رسالت کی تبلیغ کرتے ہیں اور بھی انہوں نے بہت سے غلط عقائد ایجاد کئے ہیں۔
جو سراسر قرآن و حدیث کے خلاف ہیں۔
علمائے اسلام نے بہت سی کتابوں میں اس فرقہ قادیانیہ کا قلع قمع کیا ہے۔
ہمارے مرحوم استاد حضرت مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسری ؒنے بھی اس فرقہ کی تردید میں بے نظیر قلمی خدمات انجام دی ہیں۔
اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه وأکرم نزله آمین اس حدیث میں تین قصے ہیں۔
کتاب الجنائز میں یہ حدیث مفصل گزر چکی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3057   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3057  
3057. حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہو گئے اور اللہ کی شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں دجال سے خبردارکرتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے۔ حضرت نوح ؑ نے بھی اپنی قوم کو اس کے فتنے سے آگاہ کیا تھا مگر میں تمھیں ایک ایسی نشانی بتلاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتلائی۔ تمھیں علم ہونا چاہیے کہ دجال کانا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ یک چشم (کانا)نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3057]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث میں دجال کے متعلق تین مختلف واقعات بیان ہوئے ہیں۔
امام بخاری ؒ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بچہ اگر اقرارکر لے تو اس کا اسلام قبول ہو گا۔
کیونکہ ابن صیاد قریب البلوغ تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:
ــ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔
آپ نے اس انداز سے اس پر اسلام پیش کیا کہ اگر وہ مان لیتا تو اس کا اسلام صحیح تھا۔
اگر بچے کا اسلام قبول نہ ہوتا تو آپ اس پر اسلام پیش نہ کرتے۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے بطور امتحان اس سے چند سوال کیے تاکہ صحابہ کرام ؓ پر اس کا باطل ہونا واضح ہوجائے چنانچہ اس نے خود اقرار کیا کہ اس کے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں۔
اگر وہ حق ہوتا تو اس کے پاس صرف سچا فرشتہ ہی آتا۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنے دل میں ﴿يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ﴾ کا تصور فرمایا ابن صیاد نے دخان کی بجائے صرف "دخ" بتایا جیسا کہ شیاطین کی عادت ہوتی ہے سنی ہوئی ایک آدھ بات لے اڑتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر اسے جھوٹا نہیں کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ چڑ جائے اور ہمارا مقصد پورا نہ ہو سکے۔
اس لیے آپ نے ایسا جامع جواب دیا کہ ابن صیاد چڑا بھی نہیں اور اس کی رسالت کا پول بھی کھل گیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3057   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.