الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
The Book of The Obligations of Khumus
4. بَابُ مَا جَاءَ فِي بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا نُسِبَ مِنَ الْبُيُوتِ إِلَيْهِنَّ:
4. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھروں اور ان گھروں کا انہی کی طرف منسوب کرنے کا بیان۔
(4) Chapter. What has been said regarding the houses of the wives of the Prophet (p.b.u.h) and that which were named after them of the houses (e.g., Aishah’s house).
حدیث نمبر: 3105
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن عبد الله بن ابي بكر، عن عمرة ابنة عبد الرحمن، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرتها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عندها وانها سمعت صوت إنسان يستاذن في بيت حفصة، فقلت: يا رسول الله هذا رجل يستاذن في بيتك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اراه فلانا لعم حفصة من الرضاعة الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ ابْنَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهَا وَأَنَّهَا سَمِعَتْ صَوْتَ إِنْسَانٍ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُرَاهُ فُلَانًا لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ الرَّضَاعَةُ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الْوِلَادَةُ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکر نے ‘ انہیں عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں موجود تھے۔ اچانک انہوں نے سنا کہ کوئی صاحب حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ دیکھتے نہیں، یہ شخص گھر میں جانے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ میرا خیال ہے یہ فلاں صاحب ہیں، حفصہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا! رضاعت بھی ان تمام چیزوں کو حرام کر دیتی ہے جنہیں ولادت حرام کرتی ہے۔

Narrated `Amra bint `Abdur-Rahman: `Aisha, the wife of the Prophet told her that once Allah's Apostle was with her and she heard somebody asking permission to enter Hafsa's house. She said, "O Allah's Apostle! This man is asking permission to enter your house." Allah's Apostle replied, "I think he is so-and-so (meaning the foster uncle of Hafsa). What is rendered illegal because of blood relations, is also rendered illegal because of the corresponding foster-relations."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 337


   صحيح البخاري2646عائشة بنت عبد اللهالرضاعة تحرم ما يحرم من الولادة
   صحيح البخاري5239عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة
   صحيح البخاري3105عائشة بنت عبد اللهالرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   صحيح البخاري5099عائشة بنت عبد اللهالرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   صحيح مسلم3579عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب
   صحيح مسلم3568عائشة بنت عبد اللهالرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   صحيح مسلم3569عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة
   جامع الترمذي1147عائشة بنت عبد اللهحرم من الرضاعة ما حرم من الولادة
   سنن أبي داود2055عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة
   سنن النسائى الصغرى3302عائشة بنت عبد اللهما حرمته الولادة حرمه الرضاع
   سنن النسائى الصغرى3305عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاع ما يحرم من الولادة
   سنن النسائى الصغرى3303عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاع ما يحرم من النسب
   سنن النسائى الصغرى3304عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاع ما يحرم من النسب
   سنن النسائى الصغرى3315عائشة بنت عبد اللهالرضاعة تحرم ما يحرم من الولادة
   سنن ابن ماجه1937عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاع ما يحرم من النسب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم376عائشة بنت عبد اللهنعم إن الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم375عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاع ما يحرم من الولادة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 376  
´رضاعی رشتے حقیقی رشتوں کی طرح ہیں`
«. . . 310- وعن عمرة أن عائشة أم المؤمنين أخبرتها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عندها، وأنها سمعت صوت رجل يستأذن فى بيت حفصة، فقالت عائشة: فقلت: يا رسول الله، هذا رجل يستأذن فى بيتك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أراه فلانا، لعم لحفصة من الرضاعة، فقالت عائشة: يا رسول الله، لو كان فلان حيا، لعم لها من الرضاعة، دخل علي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم إن الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة . . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تھے کہ انہوں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے ایک آدمی کی آواز سنی جو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ آدمی (اندر آنے کی) اجازت مانگ رہا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ وہ فلاں آدمی ہے، حفصہ کا رضاعی چچا ہے۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یا رسول اللہ! اگر فلاں آدمی، جو کہ ان کا رضاعی چچا تھا، اگر زندہ ہوتا تو کیا میرے پاس (گھر میں) آ سکتا تھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جو رشتے (حقیقی) اولاد ہونے کی وجہ سے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 376]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2646، ومسلم 1444، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جس طرح نسب سے رشتے حرام ہوتے ہیں اسی طرح رضاعت سے بھی رشتے حرام ہوجاتے ہیں مثلاً رضاعی بہن اُسی طرح حرام ہے جس طرح حقیقی بہن حرام ہے۔
➋ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: دو سال کے اندر بچہ جو دودھ پی لے تو حرمت ثابت ہوجاتی ہے اگرچہ ایک گھونٹ ہی ہو اور دو سال کے بعد اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 422/7 و سنده صحيح]
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رضاعت صرف بچپن میں ہی ہوتی ہے، بڑی عمر کی رضاعت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ [الموطأ 603/2 ح 1318 وسنده صحيح/مفهوم]
➍ سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: دو سال کے اند اگر ایک قطرہ (دودھ) بھی ہو تو حرام ہوجاتا ہے۔ الخ [الموطأ 604/2 ح 1322 وسنده صحيح]
➎ بچہ اگر منہ ڈال کر پانچ مرتبہ دودھ پی لے، چوس لے تو رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔
➏ غیر محرم سے پردہ ضروری ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 310   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1937  
´رضاعت (دودھ پلانے) سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رضاعت سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1937]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رضاعت سے مراد دودھ پلانا ہے، یعنی جب کسی بچے کو ماں کے علاوہ کوئی اور عورت دودھ پلائے تو وہ عورت بھی اسی طرح اس کی ماں شمار ہوتی ہے جس طرح جننے والی ماں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْ‌ضَعْنَكُمْ﴾ (النساء: 23)
اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا (ان سے بھی نکاح حرام ہے۔
)


(2)
رضاعت سے حرام ہونے والی عورتوں کی تفصیل یہ ہے:

    (ا)
        رضاعی ماں:
جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (دو سال کی عمر)
کے اندر پیا ہو۔

    (ب)
    رضاعی بہن:
جس کو تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، خواہ تمہارے ساتھ یا تم سے پہلے یا بعد میں یا جس عورت کی حقیقی یا رضاعی ماں نے تمہیں دودھ پلایا ہو یعنی رضاعی ماں بننے والی عورت کی تمام نسبی اور رضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کے بہن بھائی بن جائیں گے۔

   (ج)
     رضاعی خالہ:
دودھ پلانے والی کی بہنیں دودھ پینے والے کی خالائیں بن جائیں گی۔

   (د)
     رضاعی پھوپھی:
چونکہ دودھ پلانے والی کا خاوند دودھ پینے والے کا باپ بن جائے گا اس لیے اس رضاعی باپ کی بہنیں دودھ پینے والے کی پھوپھیاں ہوں گی۔
اور رضاعی باپ کے بھائی دودھ پینے والے کے چچا تایا بن جائیں گے۔

(3)
ان رضاعی رشتوں سے نکاح کرنا اسی طرح حرام ہے جس طرح نسبی رشتوں سے لہٰذا ان میں پردہ اسی طرح فرض نہیں ہوگا جس طرح نسبی رشتوں میں پردہ فرض نہیں ہوتا۔
لڑکے کی رضاعی ماں، رضاعی بہن، رضاعی خالہ اور رضاعی پھوپھی اس سے پردہ نہیں کریں گی۔
اسی طرح لڑکی اپنے رضاعی باپ، رضاعی بھائی، رضاعی چچا، تایا اور رضاعی ماموں سے پردہ نہیں کرے گی۔

(4)
دودھ پینے والے کے دوسرے بھائی بہن، جنہوں نے اس عورت کا دودھ نہیں پیا ان کا اس عورت سے اور اس کے بچوں وغیرہ سے رضاعت کا تعلق شمار نہیں ہو گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1937   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2055  
´دودھ پلانے سے وہ سارے رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دودھ پلانے سے وہ سارے رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو پیدائش سے حرام ہوتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2055]
فوائد ومسائل:
نکاح میں محرمات کی دو قسمیں ہیں۔
ابدی محرمات اور وقتی محرمات ابدی محرمات بسبب نسب کے سات ہیں۔

مایئں (اوپر تک)
بیٹیاں (نیچے تک) تین حیققی بہنیں (ماں باپ دونوں کی طرف سے یا صرف باپ کی طرف سے یا ماں کی طرف سے)
بھانجیاں۔
5بھتیجیاں۔

پھوپھیاں 7۔
خالایئں۔
بدلیل (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ الخ) (النساء 23) اور ان کے مماثل وہ رشتے جو رضاعت سے قائم ہوتے ہیں۔
سب حرام ہیں۔
جیسے کہ اس باب کی حدیث میں آیا ہے۔
تعلق مصاہرت (سسرال اور ازدواجی تعلق) کی بناء پر حرام ہونے والی خواتین یہ ہیں۔

بیویوں کی مایئں۔

بیویوں کی بیٹیاں بشرط یہ کہ بیوی سے دخول ہوا ہو۔

باپ دادا کی بیویاں 4۔
بیٹوں کی بیویاں (نیچے تک) اور یہی رشتے اگر رضاعت سے قائم ہوں تو حرام ہیں۔
ایک محدود وقت تک کے لئے حرام رشتے یہ ہیں۔
بیوی کی بہن اس کی پھوپھی یا بھتیجی یا خالہ اور خالہ یا بھانجی اور آزاد آدمی کےلئے چار بیویاں موجود ہوں۔
تو پانچویں حرام ہے۔
(کچھ علماء کے نزدیک) زانیہ تا آنکہ توبہ کرلے۔
اور وہ عورت جسے تین طلاقیں دی ہوں تاآنکہ کسی اور سے نکاح کرلے۔
اور وہاں سے فارغ ہو۔
محرمہ اپنے احرام سے حلال ہونے تک اور کوئی مطلقہ جو اپنے ایام عدت میں ہو۔
عدم ختم ہونے تک ان کے علاوہ دیگر عورتیں حلال ہیں۔
(وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ) (النساء۔
24)
(دیکھئے۔
تیسیر العلام شرح عمدۃ الاحکام)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2055   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3105  
3105. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓنے فرمایا: (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تھے کہ انھوں نے ایک انسان کی آواز سنی جو حضرت حفصہ ؓ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ شخص آپ کے گھر جانے کی اجازت مانگ رہاہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا خیال ہے یہ فلاں شخص ہے جو حضر ت حفصہ ؓ کا رضاعی چچا ہے۔ نیز فرمایا: رضاعت ہر اس چیز کو حرام کردیتی جو نسب حرام کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3105]
حدیث حاشیہ:
اس میں بھی گھر کو حضرت حفصہ ؓ کی طرف منسوب کیا گیا۔
جس سے باب کا مطلب ثابت ہوا کہ کسی بچے نے اپنی چچی کا دودھ پیا ہے تو چچا رضاعی باپ ہوگا۔
اور چچا کے لڑکے لڑکیاں رضاعی بھائی بہن ہوں گے۔
ان سے پردہ بھی نہیں ہے۔
کیونکہ رضاعت سے یہ سب محرم بن جاتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3105   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3105  
3105. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓنے فرمایا: (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تھے کہ انھوں نے ایک انسان کی آواز سنی جو حضرت حفصہ ؓ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ شخص آپ کے گھر جانے کی اجازت مانگ رہاہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا خیال ہے یہ فلاں شخص ہے جو حضر ت حفصہ ؓ کا رضاعی چچا ہے۔ نیز فرمایا: رضاعت ہر اس چیز کو حرام کردیتی جو نسب حرام کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3105]
حدیث حاشیہ:

اس باب کی تمام مذکوراحادیث میں گھروں کی نسبت ازواج مطہرات ؓ کی طرف کی گئی ہے چنانچہ ان میں حضرت عائشہ ؓ، حضرت اُم سلمہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کی صراحت ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھر ازواج مطہرات ؓ کے تھے جبکہ قرآنی آیت سے معلوم ہوتا ہے۔
کہ وہ گھر رسول اللہ ﷺ کے تھے کہ ان کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی گئی ہے۔
اس امر میں علمائے امت کا اختلاف ہے۔
جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
ازواج مطہرات ؓ کی طرف ان گھروں کی نسبت ملکیت کی وجہ سے ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے وفات سے قبل اپنی بیویوں کو ان کا مالک بنا دیا تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد:
ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔
ان گھروں پر صادق نہیں آتا۔
رسول اللہ ﷺ کی طرف ان گھروں کی نسبت کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ گھر آپ کی ملکیت تھے اور ازواج مطہرات ؓ کی طرف ان کی نسبت مکین ہونے کی وجہ سے ہے رسول اللہ ﷺ نے انھیں رہائش کے لیے مذکورہ مکانات دیے تھے اور وہ مرتے دم تک ان میں رہائش پذیر رہیں۔

حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ان بیویوں کو گھروں کا مالک نہیں بنایا تھا اگر ایسی بات ہوتی تو ان ازواج مطہرات ؓ کی وفات کے بعد ان کے ورثاء مذکورہ مکانات کے وارث ہوتے حالانکہ ان کی وفات کے بعد ان گھروں کو گرا کر مسجد نبوی میں شامل کردیا گیا تاکہ عام مسلمانوں کو ان سے نفع پہنچے جیسا کہ نان و نفقہ کے متعلق معاملہ کیا گیا۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 254/6)

ہمارا رجحان یہ ہے کہ وہ گھر رسول اللہ ﷺ کی ملکیت تھے اور آپ کی وفات کے بعد وہ صدقہ قرارپائے البتہ ازواج مطہرات ؓ کو زندگی بھر ان میں رہائش رکھنے کی اجازت تھی جیسا کہ دیگر صدقات سے انھیں نان ونفقہ دیا جاتا تھا اسی طرح تاوفات انھیں وہ مکان رہائش کے لیے دیے گئے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں "مسکن عائشہ"ہے اس سےبھی پتہ چلتا ہے کہ وہ گھرآپ کی ملک نہیں تھا بلکہ صرف رہائش کے لیے تھا پھر آیت کریمہ میں ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں اس وقت تک کوئی داخل نہ ہو جب تک اسے رسول اللہ ﷺ اجازت نہ دیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر خاوند کا ہوتا ہے تبھی تو اسے اجازت دینے کا اختیاردیا گیا ہے بہر حال رسول اللہ ﷺنے یہ مکانات انھیں ہبہ نہیں کیے تھے بلکہ انھیں رہائش کے لیے دیے تھے کہ مرتے دم تک وہ ان میں رہائش پذیر رہیں جیسے ان کے نفقات مستثنیٰ تھے ایسے رہائش بھی مستثنیٰ تھی۔
ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء ان گھروں کے مالک نہیں بنے اور نہ کسی نے اس قسم کا دعوی ہی کیا بلکہ ان تمام گھروں کو مسجد نبوی میں شامل کردیا گیا۔
واللہ أعلم۔
نوٹ:
۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی رہائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اس طرف سے شیطانی فتنہ طلوع ہوگا۔
اس حدیث کو بنیاد بنا کر رافضیوں نے پروپیگنڈا کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا گھر فتنوں کی آما جگاہ تھا حالانکہ انھیں ایسی باتیں کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے اپنے آخری ایام حضرت عائشہ ؓ کے گھر گزارے اور زندگی کے بعد وہ آپ کا مشہد بنا۔
جو کہ اللہ کی طرف سے خیر و برکت کے نزول کا محل ہے۔
ایسی جگہ کو فتنوں کی آما جگاہ کیونکرقرار دیا جا سکتا ہے دراصل صحابہ کرام ؓ سےبغض وعناد کے نتیجے میں ایسی باتیں کہی گئی ہیں۔
امام بخاری ؒ نے دوسرے مقام پر ایک تفصیلی روایت ذکر کی ہےکہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ اہل عراق سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہوئے دیکھا۔
خبردار! فتنہ ادھر سے طلوع ہوگا فتنہ اس طرف سے ظاہر ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7092)
مدینہ طیبہ سے عراق مشرق کی طرف پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فتنوں کی آما جگاہ سر زمین عراق ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عراق کا خطہ بڑا ہنگامہ خیز اور فتنہ پرور واقع ہوا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ بالا پیش گوئی کے مطابق یہ منحوس علاقہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی آماجگاہ ہے چنانچہ قوم نوح کے بت وداور سواع وغیرہ عراق ہی میں تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف آگ کا الاؤ تیار کرنے والا نمرودبھی اسی عراق کا فرمانروا تھا۔
حضرت عثمان ؓکے خلاف فتنہ بھی عراقی لوگوں نے برپا کیا تھا نواسہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے والے بھی عراقی تھے۔
حدیث اور اہل حدیث کے خلاف اہل رائےکے طوفان بھی اسی سر زمین سے اٹھے۔
اب بھی یہ خطہ اس قسم کے فتنوں کی بد ترین مثالیں قائم کیےہوئے ہے ان واقعات و شواہد کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا گھر فتنوں کی آماجگاہ نہیں تھا بلکہ یہ "شرف" سر زمین عراق کو حاصل ہوا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3105   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.