الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
The Book of The Beginning of Creation
4. بَابُ صِفَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ:
4. باب: (سورۃ الرحمن کی اس آیت کی تفسیر کہ) سورج اور چاند دونوں حساب سے چلتے ہیں۔
(4) Chapter. Characteristic of the sun and the moon. [The sun and the moon run on their fixed courses (exactly) caculated with measured out stages for each (for reckoning)]. (V.55:5)
حدیث نمبر: Q3199
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال مجاهد: كحسبان الرحى، وقال غيره: بحساب ومنازل لا يعدوانها حسبان جماعة حساب مثل شهاب وشهبان ضحاها سورة النازعات آية 29: ضوءها ان تدرك القمر سورة يس آية 40: لا يستر ضوء احدهما ضوء الآخر، ولا ينبغي لهما ذلك سابق النهار سورة يس آية 40: يتطالبان حثيثين نسلخ نخرج احدهما من الآخر ونجري كل واحد منهما واهية وهيها تشققها ارجائها ما لم ينشق منها فهم على حافتيها كقولك على ارجاء البئر واغطش سورة النازعات آية 29 و جن سورة الانعام آية 76 اظلم، وقال الحسن كورت سورة التكوير آية 1: تكور حتى يذهب ضوءها والليل وما وسق سورة الانشقاق آية 17: جمع من دابة اتسق سورة الانشقاق آية 18: استوى بروجا سورة الحجر آية 16: منازل الشمس والقمر الحرور بالنهار مع الشمس وقال ابن عباس ورؤبة الحرور بالليل والسموم بالنهار يقال يولج يكور وليجة سورة التوبة آية 16 كل شيء ادخلته في شيء.قَالَ مُجَاهِدٌ: كَحُسْبَانِ الرَّحَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: بِحِسَابٍ وَمَنَازِلَ لَا يَعْدُوَانِهَا حُسْبَانٌ جَمَاعَةُ حِسَابٍ مِثْلُ شِهَابٍ وَشُهْبَانٍ ضُحَاهَا سورة النازعات آية 29: ضَوْءُهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ سورة يس آية 40: لَا يَسْتُرُ ضَوْءُ أَحَدِهِمَا ضَوْءَ الْآخَرِ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُمَا ذَلِكَ سَابِقُ النَّهَارِ سورة يس آية 40: يَتَطَالَبَانِ حَثِيثَيْنِ نَسْلَخُ نُخْرِجُ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ وَنُجْرِي كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَاهِيَةٌ وَهْيُهَا تَشَقُّقُهَا أَرْجَائِهَا مَا لَمْ يَنْشَقَّ مِنْهَا فَهُمْ عَلَى حَافَتَيْهَا كَقَوْلِكَ عَلَى أَرْجَاءِ الْبِئْرِ وَأَغْطَشَ سورة النازعات آية 29 وَ جَنَّ سورة الأنعام آية 76 أَظْلَمَ، وَقَالَ الْحَسَنُ كُوِّرَتْ سورة التكوير آية 1: تُكَوَّرُ حَتَّى يَذْهَبَ ضَوْءُهَا وَاللَّيْلِ وَمَا وَسَقَ سورة الانشقاق آية 17: جَمَعَ مِنْ دَابَّةٍ اتَّسَقَ سورة الانشقاق آية 18: اسْتَوَى بُرُوجًا سورة الحجر آية 16: مَنَازِلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ الْحَرُورُ بِالنَّهَارِ مَعَ الشَّمْسِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَرُؤْبَةُ الْحَرُورُ بِاللَّيْلِ وَالسَّمُومُ بِالنَّهَارِ يُقَالُ يُولِجُ يُكَوِّرُ وَلِيجَةً سورة التوبة آية 16 كُلُّ شَيْءٍ أَدْخَلْتَهُ فِي شَيْءٍ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا یعنی چکی کی طرح گھومتے ہیں اور دوسرے لوگوں نے یوں کہا یعنی حساب سے مقررہ منزلوں میں پھرتے ہیں، زیادہ نہیں بڑھ سکتے۔ لفظ «حسبان» «حساب» کی جمع ہے۔ جیسے لفظ «شهاب» کی جمع «شهبان‏.‏» ہے اور سورۃ والشمس میں جو لفظ «ضحاها‏» آیا ہے۔ «ضحى» روشنی کو کہتے ہیں اور سورۃ یٰسٓ میں جو آیا ہے کہ سورج چاند کو نہیں پا سکا، یعنی ایک کی روشنی دوسرے کو ماند نہیں کر سکتی نہ ان کو یہ بات سزاوار ہے اور اسی سورۃ میں جو الفاظ «ولا الليل سابق النهار‏» ہیں ان کا مطلب یہ کہ دن اور رات ہر ایک دوسرے کے طالب ہو کر لپکے جا رہے ہیں اور اسی سورۃ میں لفظ «انسلخ» کا معنی یہ ہے کہ دن کو رات سے اور رات کو دن سے ہم نکال لیتے ہیں اور سورۃ الحاقہ میں جو «واهية» کا لفظ ہے۔ «وهي» کے منی پھٹ جانا اور اسی سورۃ میں جو یہ ہے «أرجائها» یعنی فرشتے آسمانوں کے کناروں پر ہوں گے جب تک وہ پھٹے گا نہیں۔ جیسے کہتے ہیں وہ کنویں کے کنارے پر اور سورۃ والنازعات میں جو لفظ «أغطش‏» اور سورۃ الانعام میں لفظ «جن‏» ہے ان کے معنی اندھیری کے ہیں۔ یعنی اندھیاری کی اندھیاری ہوئی اور امام حسن بصریٰ نے کہا کہ سورۃ اذالشمس میں «كورت‏» کا جو لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے جب لپیٹ کر تاریک کر دیا جائے گا اور سورۃ انشقت میں جو «وما وسق‏» کا لفظ ہے اس کے معنی جو اکٹھا کرے۔ اسی سورۃ میں «اتسق‏» کا معنی سیدھا ہوا، اور سورۃ الفرقان میں «بروجا‏» کا لفظ «بروج‏» سورج اور چاند کی منزلوں کو کہتے ہیں اور سورۃ فاطر میں جو «حرور» کا لفظ ہے اس کے معنی دھوپ کی گرمی کے ہیں۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، «حرور» رات کی گرمی اور «سموم» دن کی گرمی۔ اور سورۃ فاطر میں جو «يولج» کا لفظ ہے اس کے معنی لپیٹتا ہے اندر داخل کرتا ہے اور سورۃ التوبہ میں جو «وليجة‏» کا لفظ ہے اس کے معنی اندر گھسا ہوا یعنی راز دار دوست۔

حدیث نمبر: 3199
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم التيمي، عن ابيه، عن ابي ذر رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لابي ذر حين غربت الشمس تدري:" اين تذهب، قلت: الله ورسوله اعلم، قال: فإنها تذهب حتى تسجد تحت العرش، فتستاذن فيؤذن لها ويوشك ان تسجد فلا يقبل منها وتستاذن فلا يؤذن لها، يقال لها: ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها فذلك قوله تعالى والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم سورة يس آية 38.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي ذَرٍّ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِي:" أَيْنَ تَذْهَبُ، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَيُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ فَلَا يُقْبَلَ مِنْهَا وَتَسْتَأْذِنَ فَلَا يُؤْذَنَ لَهَا، يُقَالُ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ سورة يس آية 38.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے باپ یزید بن شریک نے اور ان سے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے۔ پھر (دوبارہ آنے) کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے اور وہ دن بھی قریب ہے، جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی۔ بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا۔ چنانچہ اس دن وہ مغربی ہی سے نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم» (یٰسٓ: 38) میں اسی طرف اشارہ ہے۔

Narrated Abu Dhar: The Prophet asked me at sunset, "Do you know where the sun goes (at the time of sunset)?" I replied, "Allah and His Apostle know better." He said, "It goes (i.e. travels) till it prostrates Itself underneath the Throne and takes the permission to rise again, and it is permitted and then (a time will come when) it will be about to prostrate itself but its prostration will not be accepted, and it will ask permission to go on its course but it will not be permitted, but it will be ordered to return whence it has come and so it will rise in the west. And that is the interpretation of the Statement of Allah: "And the sun Runs its fixed course For a term (decreed). that is The Decree of (Allah) The Exalted in Might, The All- Knowing." (36.38)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 421


   صحيح البخاري7424جندب بن عبد اللههل تدري أين تذهب هذه قال قلت الله ورسوله أعلم قال فإنها تذهب تستأذن في السجود فيؤذن لها وكأنها قد قيل لها ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها ثم قرأ ذلك مستقر لها
   صحيح البخاري3199جندب بن عبد اللهتذهب حتى تسجد تحت العرش فتستأذن فيؤذن لها ويوشك أن تسجد فلا يقبل منها وتستأذن فلا يؤذن لها يقال لها ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها فذلك قوله والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم
   صحيح البخاري4802جندب بن عبد اللهأتدري أين تغرب الشمس قلت الله ورسوله أعلم قال فإنها تذهب حتى تسجد تحت العرش فذلك قوله والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم
   صحيح مسلم401جندب بن عبد اللهتذهب فتستأذن في السجود فيؤذن لها وكأنها قد قيل لها ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها قال ثم قرأ في قراءة عبد الله وذلك مستقر لها
   صحيح مسلم399جندب بن عبد اللهأتدرون أين تذهب هذه الشمس قالوا الله ورسوله أعلم قال إن هذه تجري حتى تنتهي إلى مستقرها تحت العرش فتخر ساجدة فلا تزال كذلك حتى يقال لها ارتفعي ارجعي من حيث جئت
   جامع الترمذي2186جندب بن عبد اللهأتدري أين تذهب هذه قال قلت الله ورسوله أعلم قال فإنها تذهب تستأذن في السجود فيؤذن لها وكأنها قد قيل لها اطلعي من حيث جئت فتطلع من مغربها قال ثم قرأ وذلك مستقر لها
   جامع الترمذي3227جندب بن عبد اللهتذهب فتستأذن في السجود فيؤذن لها وكأنها قد قيل لها اطلعي من حيث جئت فتطلع من مغربها قال ثم قرأ وذلك مستقر لها
   سنن أبي داود4002جندب بن عبد اللههل تدري أين تغرب هذه قلت الله ورسوله أعلم قال فإنها تغرب في عين حامية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3199  
´ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي ذَرٍّ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِي . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ: 3199]

فہم الحدیث:
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا قیامت کی دس بڑی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ وہ دس نشانیاں یہ ہیں: خروج دجال، ظہور مہدی، نزول عیسیٰ علیہ السلام، یاجوج ماجوج کا خروج، دھویں کا ظہور، دابة الارض کا خروج، مغرب سے طلوع شمس، تین خسف، آگ کا ظہور اور صرف بدترین لوگوں کا باقی رہ جانا۔ ایک روایت میں مغرب سے طلوع آفتاب کے ساتھ ساتھ دو اور نشانیوں کا بھی ذکر ہے کہ جب ان کا ظہور ہو گا تو کسی کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہیں دے گا اور وہ دو نشانیاں دھوئیں کا ظور اور دابة الارض کا خروج ہے۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب بيان الزمن الذى لا يقبل فيه الايمان: 396]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 98   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3227  
´سورۃ یس سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سورج ڈوبنے کے وقت داخل ہوا، آپ وہاں تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا: ابوذر! کیا تم جانتے ہو یہ (سورج) کہاں جاتا ہے؟، ابوذر کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم، آپ نے فرمایا: وہ جا کر سجدہ کی اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے تو ان اس سے کہا جاتا ہے وہیں سے نکلو جہاں سے آئے ہو۔ پھر وہ (قیامت کے قریب) اپنے ڈوبنے کی جگہ سے نکلے گا۔‏‏‏‏ ابوذر کہتے ہیں: پھر آپ نے «وذلك مستقر لها» یہی اس کے ٹھہرنے کی جگہ ہے پڑھا۔ راوی کہتے ہیں: یہی عبداللہ بن مسعود کی قرأت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3227]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشہور قراء ت ہے ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ﴾  (يــس: 38)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3227   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4002  
´باب:۔۔۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور غروب شمس کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فإنها تغرب في عين حامية‏"‏» یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے (سورۃ الکہف: ۸۶) ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 4002]
فوائد ومسائل:
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور سورہ کہف آیات: 82 میں مذکورہ (عَیِنُ میرے سے اگلا لفظ لکھا نہیں جارہا) کی دوسری قراءت (عَیِنُ میرے سے اگلا لفظلکھا نہیں جارہا) ہے۔
(دیکھیے گزشتہ روایت:3986)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4002   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3199  
3199. حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب سورج غروب ہوا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو خوب علم ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ سورج جاکر عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے اجازت مانگتاہے تو اسے اجازت دی جاتی ہے۔ اور وہ دن بھی قریب ہے جب یہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہوگا اور اجازت طلب کرے گا لیکن اسے اجازت نہ ملے گی بلکہ اسے کہا جائے گا: جہاں سے آئے ہو ادھر چلے جاؤ تو وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے: یہ سورج اپنے ٹھکانے کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ عزیز وعلیم کا مقرر کردہ نظام الاوقات ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3199]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں منکرین حدیث نے کئی اشکال پیدا کئے ہیں، ایک یہ کہ سورج زمین کے نیچے جاتا ہے نہ عرش کے نیچے۔
اور دوسری روایت میں یہ مضمون موجود ہے تغربُ فِي عَین حَمئة دوسرے یہ کہ زمین اور آسمان گول کڑے ہیں تو سورج ہر وقت عرش کے نیچے ہے۔
پھر خاص غروب کے وقت جانے کے کیا معنی؟ تیسرے سورج ایک بے روح اور بے عقل جسم ہے اس کا سجدہ کرنا اور اس کو اجازت ہونے کے کیا معنی؟ چوتھے اکثر حکیموں نے مشاہدہ سے معلوم کیا ہے کہ زمین متحرک اور سورج ساکن ہے تو سورج کے چلنے کے کیا معنے؟ پہلے اشکال کا جواب یہ ہے کہ جب زمین کروی ہوئی تو ہر طرح سے عرش کے نیچے ہوئی اس لیے غروب کے وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج زمین کے نيچے گیا اور عرش کے نیچے گیا۔
دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بے شک ہر نقطے اور ہر مقام پر سورج عرش کے نیچے ہے اور وہ ہر وقت اپنے مالک کے لیے سجدہ کررہا ہے اور اس کے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے لیکن چونکہ ہر ملک والوں کا مغرب اور مشرق مختلف ہے اس لیے طلوع اور غروب کے وقت کو خاص کیا۔
تیسرے اشکال کا جواب یہ هے کہ کہاں سے معلوم ہوا کہ سورج بے جان اور بے عقل ہے۔
بہت سی آیات و احادیث سے سورج اور چاند اور زمین اور آسمان سب کا اپنے اپنے درجہ میں صاحب روح ہونا ثابت ہے۔
چوتھے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بہت سے حکیم اس امر کے بھی قائل ہیں کہ زمین ساکن ہے اورسورج اس کے گرد گھومتا ہے اور اس بارے میں طرفین کے دلائل متعارض ہیں۔
اور ظاہر قرآن و حدیث سے تو سورج اور چاند اور تاروں ہی کی حرکت نکلتی ہے۔
(مختصر از وحیدی)
آیت شریفہ ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا﴾ (یٰس: 38)
میں مستقر سے مراد بقائے عالم کا انقطاع ہے یعني إلی انقطلاع بقاء مدة العالم أما قوله مستقرلها تحت العرش فلا ینکران یکون لها استقراء تحت العرش من حیث لاندرکه ولا نشاهدہ و إنما أخبر عن غیب فلا نکذبه ولا نکیفه لأن علمنا لا یحیط به۔
انتهیٰ کلام الطیبي۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3199   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3199  
3199. حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب سورج غروب ہوا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو خوب علم ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ سورج جاکر عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے اجازت مانگتاہے تو اسے اجازت دی جاتی ہے۔ اور وہ دن بھی قریب ہے جب یہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہوگا اور اجازت طلب کرے گا لیکن اسے اجازت نہ ملے گی بلکہ اسے کہا جائے گا: جہاں سے آئے ہو ادھر چلے جاؤ تو وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے: یہ سورج اپنے ٹھکانے کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ عزیز وعلیم کا مقرر کردہ نظام الاوقات ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3199]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
(ا)
سورج اور اسی طرح دوسرے سیاروں کی گردش محض کشش ثقل کا نتیجہ نہیں بلکہ اجرام فلکی اور ان کے نظام پر اللہ کا حکیم وخیبر کا زبردست کنٹرول ہے کہ ان میں نہ تو تصادم ہوتا ہے اور نہ ان کی مقررہ گردش ہی میں کمی بیشی ہوتی ہے اور یہ سب اجرام حکم الٰہی کے تحت گردش کر رہے ہیں۔
(ب)
قیامت سے پہلے ایسا وقت آنے والا ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا اور اس کے بعد نظام کائنات بگڑ جائے گا۔
مغربی اقوام آج مرکز ثقل اور گردشی محور کی تلاش میں ہیں۔
ممکن ہے کہ انھیں اس کا کوئی سراغ مل جائے اور وہ اس پر کنٹرول کر کے زمین کی گردش کچھ وقت کے لیے روک دیں اور جب کنٹرول کرنے کے بعد اسے چھوڑیں گے تو زمین آہستہ آہستہ اپنی اصل گردش پر رواں ہوگی۔
ایسے حالات میں ایک دن ایک سال کے برابر ہو سکتا ہے اور ایسا دجال کی آمد کے وقت ہو گا۔

آج مغرب زدلوگ سورج کے طلوع وغروب ہونے اور عرش کے نیچے سجدہ کرنے کے بعد دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگنے پر اعتراض کرتے ہیں کہ سورج تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمیں جو طلوع و غروب نظر آتا ہے یہ تو محض زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے؟ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سورج تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمیں جو طلوع و غروب نظر آتا ہے یہ تو محض زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے؟ یہ اعتراض بہت ہی سطحی قسم کا ہے کیونکہ اللہ کا عرش اتنا وسیع ہے کہ ایک سورج کی کیا بات ہے کائنات کی ایک ایک چیز اس کے عرش کے نیچے ہے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہے بہر حال ہر مقام پر سورج عرش کے نیچے ہے اور وہ ہر وقت اپنے مالک کے لیے سجدہ کررہا ہے اور اس سے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے۔
چونکہ ہر ملک کا مغرب و مشرق مختلف ہے اس لیے طلوع و غروب کے وقت کو خاص کیا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3199   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.